سُورنی کا دودھ اور سانپ کے قتلے!

’’یار میں بہت پریشان ہوں‘‘

’’کیوں خیریت تو ہے؟‘‘

’’خیریت کہاں ہے میرے بارے میں ایک چینل نے خبر نشر کی ہے کہ میں ناشتے میں سانپ کے قتلے کھاتا ہوں اور سُورنی کا دودھ پیتا ہوں‘‘۔

’’کیا ذائقہ ہوتا ہے ان چیزوں کا؟‘‘

’’تو کیا تم نے اس خبر پر یقین کرلیا۔‘‘

’’یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں، میڈیا کے لوگ معزز اور پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کو سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لہٰذا کوئی پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا اخبار جھوٹ کیسے پھیلا سکتا ہے؟

’’جھوٹ پھیلایا گیا ہے انہوں نے اور اگر سچ چھاپا ہے تو پھر سانپ کے قتلے اور سورنی کا دودھ یہ لوگ خود مجھے سپلائی کرتے ہوں گے یہ چیزیںبازار سے ملنے سے تو رہیں‘‘۔

’’تم تو خاصے جذباتی ہورہے ہو اسطرح کے معاملے جوش سے نہیں ہوش سے طے ہوتے ہیں تم نے رپورٹر سے اس سلسلے میں بات کی؟‘‘

’’خود اس نے مجھے فون کیا تھا‘‘۔

’’خبر چھاپنے کے بعداس نے تمہیں فون بھی کیا؟‘‘

’’ہاں وہ خبر پر میرے تاثرات جاننا چاہتا تھا‘‘

’’تو پھر تم نے اپنے تاثرات ریکارڈ کرائے۔‘‘

’’نہیں‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لئے کہ اگلے دن یہ خبر شائع ہونی تھی کہ خدا بخش انجان نے ناشتے میں سانپ کے قتلے کھانے اور سورنی کا دودھ پینے کی تردید کی ہے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ناشتے میں اگر یہ چیزیں نہیں لیتے تو پھر کیا لیتے ہیں‘‘

’’تو اس صورت میں تم اخبار کے ایڈیٹر کے نوٹس میں یہ بات لاتے تو وہ یقیناً اس واہیات رپورٹر کو نوٹس جاری کرتا‘‘۔

’’میں نے ایڈیٹر کو فون کیا تھا مگر پتا چلا کہ وہ ایک تقریب میں صحافتی ضابطہ اخلاق کے موضوع پر ایک سیمینار کی صدارت کررہا ہے‘‘۔

’’ایک دفعہ پھر فون کرنا تھا‘‘۔

’’میں نے کیا تھا اور میری اس سے بات بھی ہوگئی، اس نے میری شکایت پر کہا کہ ہمارا معاشرہ سانپ کے قتلے کھانے اور سورنی کا دودھ پینے کو بہت برا سمجھتا ہے آپ کو ان حرام چیزوں کے استعمال سے احتراز کرنا چاہئے تھا‘‘۔

’’پھر تم نے کیا کیا؟‘‘

’’میں نے فون بند کیا اور دیوار کے ساتھ دو ٹکریں ماریں وہ تو شکر ہے کہ میں نے جوش میں بھی ہوش سے کام لیتے ہوئے یہ ٹکریں بہت آہستگی سے ماری تھیں ورنہ مجھے اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں جانا پڑتا جہاں مرہم پٹی سے پہلے پولیس والے میرا بیان لیتے اور مرہم پٹی کے فوراً بعد اقدام خودکشی کے الزام میں مجھے گرفتار کرلیتے‘‘۔

’’ہاں یہ تو ٹھیک ہے مگر مجھے بتائو کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں‘‘۔

’’یہ تومجھے علم نہیں تم ہی بتائو مجھے کیا کرنا چاہئے‘‘۔

’’تم فوراً عدالت سے رجوع کرو تاکہ تمہیں انصاف مل سکے!‘‘

’’تو گویا میری بقیہ عمر عدالتوں کے چکر کاٹنے میں بسر ہو جائے اور جو چار پیسے برسوں کی محنت کے بعد جمع کئے ہیں وہ میں مقدمے بازی پر خرچ کر ڈالوں‘‘۔

’’ہاں یہ تو ہے چلو ایک اور کام کرو‘‘۔

’’وہ کیا؟‘‘

’’تم بھی تو ایک اخبار میں کالم لکھتے ہوں تم اپنے کالم میں ان کی ایسی کی تیسی پھیر دو۔‘‘

’’مگر معاملے پر غور کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اس بے چارے رپورٹر کا صرف کاندھا استعمال ہوا ہے‘‘۔

’’تو پھر ایڈیٹر کے ساتھ دودوہاتھ کرو‘‘۔

’’مجھے تو بے چارہ ایڈیٹر بھی اب بے قصور لگتا ہے‘‘۔
’’پھر مالک سے بات کرو‘‘۔

’’میرے خیال میں مالک بھی بے بس ہے ایسی خبریں کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں‘‘۔

’’تو پھر تم ایک کام کرو‘‘۔

’’وہ کیا؟‘‘

’’صبر کرو‘‘

’’میرا خیال ہے تمہارا مشور ہ صائب ہے، صبر کے سوا واقعی کوئی چارہ ہی نہیں‘‘۔

’’چلو شکر ہے تم نے میری کوئی بات تو مانی مگر آخر میں میری ایک بات کا جواب دو قسم کھائو کہ تم جھوٹ بالکل نہیں بولو گے‘‘۔

’’قسم کھاتا ہوں‘‘۔

’’تو کیا تم واقعی سانپ کے قتلے اور سورنی کا دودھ نہیں لیتے دیکھو سچ سچ بتانا تم نے ابھی قسم کھائی ہے۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے