خیبرپختونخواہ: نئی حلقہ بندیاں نیا تماشا ہے. سیاسی جماعتیں

پاکستان میں 19 سال بعد 2017ء میں مردم شماری ہوئی جس کے بعد ملک میں آئندہ الیکشن کے لئے آئینی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے آبادی کے لحاظ سے نئی حلقہ بندیاں کی گئیں۔ قومی اسمبلی میں انتخابی ترمیمی بل 2017ء کی منظوری کے بعد خیبرپختونخوا کے قومی اسمبلی کی مخصوص نشست سمیت کُل 5 نشستوں کا اضافہ کیا گیا اور یوں خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 35 سے بڑھ کر اب 40 ہوگئی ہے، جس میں تین پشاور، ایک سوات اور ایک لوئردیر کو ملے گی۔ نئی مردم شماری کے تحت آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی کی ایک نشست میں 7 لاکھ 91 ہزار افراد کو شمار کیا گیا ۔ انتخابی اصلاحات ایکٹ کے تحت خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی بجائے ردوبدل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت ایوان میں جنرل نشستوں کی تعداد 99 ہے۔

نئی حلقہ بندیوں پر خیبرپختونخوا سے جمع کرائے جانے والے اعتراضات کی تعداد 100 سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ بٹگرام 27 اعتراضات کے ساتھ پہلے جبکہ پشاور دوسرے نمبر پر ہے جہاں سے تمام قومی و صوبائی حلقوں پر 20 اعتراضات جمع کرائے گئے ہیں۔ ایبٹ آباد اور مردان سے 9 ، دیرپائیں سے چھ ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان سے پانچ، لکی مروت سے چار، سوات ،صوابی اور مانسہرہ سے تین ، کرک ، چارسدہ سے دو جبکہ ہری پور، نوشہرہ کوہاٹ اور بونیر سے ایک ایک اعتراض جمع کرایا گیا ہے۔

سراج الحق ، امیر جماعت اسلامی

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے جب اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو سب سے پہلے تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔ انکے مطابق الیکشن کمیشن نے بعض حلقوں کو جغرافیائی اور تاریخی لحاظ سے تقسیم کرنے کے بجائے ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر تقسیم کیا ہے۔ اکثر حلقوں کی تقسیم سے عوام اور سیاستدان دونوں حیران ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی کہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں اور خود ایک ایک حلقے میں جاکر حتمی حلقہ بندیاں کریں۔ امیرجماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں ویلج کونسل اس بنیاد پر بنائے گئے تھے کہ متعلقہ گاؤں کی تاریخی حیثیت کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

 

آفتاب احمد خان شیرپاؤ، سربراہ قومی وطن پارٹی

نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کے حوالے سے پہلا ردعمل قومی وطن پارٹی کے چئیرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی طرف سے سامنے آیا ۔ آئی بی سی اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے انہیں اعتراض تھا اور ہے۔ وہ نئی حلقہ بندیوں کو یکسر مسترد کرتے ہیں کیونکہ انکے مطابق کچھ لوگوں کو خوش کرنے کیلئے جانبداری اور بدنیتی سے کام لیا گیا ہے۔ نئی حلقہ بندی ووٹروں کی فہرست کے حساب سے نہیں بلکہ بندوں کو شمار کرکے بنائی گئی ہے۔

آفتاب احمد خان شیرپاو کا کہنا تھا کہ اگر ایک شخص پشاور میں نوکری کررہا ہے اور اس کا تعلق چارسدہ سے ہے، ووٹ بھی چارسدہ میں ہے لیکن اس کو پشاور میں شمار کیا گیا ہے جو سراسر ناانصا فی ہے۔

 

زاہد خان ،عوامی نیشنل پارٹی

اے این پی کے مرکزی رہنما زاہد خان نے الزام لگایا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کو گوگل میپ کے ذریعے بنائی ہیں جس کی وجہ سے ساری سیاسی جماعتیں مشکل میں آگئی ہیں۔ انکا کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی عدم مشاورت سے حلقہ بندیوں کا ڈرافٹ تیار کیا اور جان بوجھ کر ایسے حلقے تیار کئے تاکہ مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہو۔

زاہد خان نے مزید کہا کہ اے این پی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، انہوں نے خود الیکشن کمیشن میں لوئر دیر کے ایک یونین کونسل کے حوالے سے اعتراض جمع کیا جس کو دوسرے حلقے میں ڈال دیا گیا تھا۔ زاہد خان کے مطابق الیکشن کمیشن کے ذمہ داران نے ان کا اعتراض مان لیا تھا لیکن پھر بھی اس یونین کونسل کو واپس اسی حلقے میں شامل کردیا۔

امجد خان، رکن صوبائی اسمبلی تحریک انصاف

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن امجد علی کا کہنا تھا کہ گذشتہ ادوار میں ضلع سوات کے بریکوٹ تحصیل کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا تھا۔ اس تحصیل کو کبھی بونیر، کبھی دیر تو کبھی کبل کے ساتھ شامل کیا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقہ ترقیاتی کاموں سے محروم رہا ہے۔ اب بریکوٹ کے پانچ یونین کونسلوں سے صوبائی اسمبلی کا ایک رکن آئے گا جو صرف ان کے لئے نہیں بلکہ پوری بریکوٹ کےلئے اعزاز کی بات ہوگی۔ اس طرح پورے صوبے میں اب قومی اسمبلی کے رکن کا بجٹ زیادہ آئے گا۔

 

عقیل یوسفزئی ،سینئر صحافی و تجزیہ کار

سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار عقیل یوسفزئی نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ جس میکینزم کے تحت یہ عمل انجام پایا ہے اس میں سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات سامنے آئے ہیں بلکہ امیدواروں کے اعتراضات بھی سامنے آچکے ہیں۔ عقیل یوسفزئی کے مطابق آبادی کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے قومی اسمبلی کے نشستوں میں پانچ کی بجائے 10 سیٹوں کا اضافہ ہونا چاہئیے تھا۔ اسی طرح صوبائی نشستوں میں سات نشستیں زیادہ ہونی تھی جس میں صرف ردوبدل کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمشن ہر جماعت سے تجاویز مانگتی تو اتنے مسائل سامنے نہ آتے۔ اب الیکشن کمیشن نے جو اعتراضات کا عمل بنایا وہ بھی بہت پیچیدہ تھا، نئی حلقہ بندیاں ایک پیچیدہ عمل کے بعد بنائی گئی ہیں جس میں ردبدل ممکن نہیں تھا۔

سیاسی جماعتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا کے ترجمان سہیل احمد کہتے ہیں کہ پشاور میں نئی حلقہ بندیوں پر جس کسی کو بھی اعتراض تھا، اسے حل کرنے کے الیکشن کمیشن پشاور ایک مناسب فورم تھا اور اس کے لئے آخری تاریخ تین اپریل 2018ء دی گئی تھی۔ سہیل احمدکے مطابق انکے پاس 100 سے زائد اعتراضات جمع کئے گئے جو کہ حل کردئیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے پاس جتنے بھی کیسز موجود تھیں انہوں نے نمٹادیے ہیں، اس کے بعد اگر کسی کو اعتراض ہے تو انہوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے اور یہ انکا آئینی حق تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے