انڈونیشیا: 3 مسیحی عبادت گاہوں میں خود کش دھماکے، 9 افراد ہلاک

انڈونیشیا کے دوسرے بڑے شہر سورابایا میں 3 مسیحی عبادت گاہوں پر ہونے والے خود کش دھماکوں میں 9 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تمام دھماکے مختصر وقفے کے بعد ہوئے جن میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے تاہم فوری طور پر ان دھماکوں کی ذمہ داری کسی بھی گروہ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔

رپورٹس کے مطابق دھماکے صبح ساڑھے 7 بجے کے قریب ہوئے۔

خیال رہے کہ انڈونیشیا مسلم اکثریت والا ملک ہے تاہم یہاں گزشتہ کچھ ماہ سے عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کا کہنا تھا کہ ان دھماکوں کے پیچھے مبینہ طور پر داعش کے نظریات سے متاثر گروہ ملوث ہوسکتا ہے۔

کچھ روز قبل دارالحکومت جکارتہ کے مضافات میں قائم ایک ہائی پروفائل جیل میں قید عسکریت پسند گروہ کے متعدد ارکان کو فرار کرانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس حملے میں انڈونیشیا کی سیکیورٹی فورسز کے 5 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق دھماکے کے متاثرین میں 2 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دھماکے سانتا ماریہ کیتھولک چرچ، انڈونیشین کرسچن چرچ اور پیٹیکوسٹ سینٹرل چرچ میں ہوئے۔

سی این این نے پولیس ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ سینٹ ماریہ چرچ میں ہونے والے دھماکے میں 4 افراد ہلاک ہوئے جبکہ دیگر مسیحی عبادت گاہوں میں ہونے والے دھماکوں میں 2، 2 افراد ہلاک ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ دھماکوں میں زخمی ہونے والا ایک شخص دوران علاج ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

پولیس ترجمان کے مطابق ’ہمیں خدشہ ہے کہ مذکورہ دھماکے خود کش تھے جبکہ ہم نے ایک مقتول کی شناخت کرلی ہے‘۔

پولیس نے دھماکوں کے بعد جائے وقوع پر پہنچ کر متاثرہ عبادت گاہوں کو گھیرے میں لے کر شواہد جمع کیے اور تحقیقات کا آغاز کردیا۔

بعد ازاں انڈونیشیا کی خاتون وزیر خارجہ ریٹنو مارسودی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں دھماکوں کی مزمت کی اور سورابایا میں ہونے والے دھماکوں کے متاثرین سے اظہار تعزیت کیا جبکہ ساتھ ہی ہیش ٹیگ کے ساتھ دعویٰ کیا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں اور ہم ان سے ڈرتے نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے