اسلام خطرے میں ہے 

پاکستان اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا۔ جہاں مسلمان اپنے عقائد کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں۔اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنائیں۔ ابھی ہم قربانیاں دے کر آزاد وطن میں سکھ کا سانس بھی نہ لینے پائے تھے کہ ہمیں بتایا گیا کہ اسلام خطرے میں ہے۔ ہم کہ ٹھہرے سادہ لوح عوام دل میں اسلام اور عشق رسول کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، بلبلا اٹھے اور جس کے ہاتھ جو ہتھیار آیا اٹھا کر اسلام بچانے نکل کھڑے ہوئے۔

کسی نے بتایا فلاں نےہمارے پیارے نبی(ص) کی شان میں گستاخی کی ہم اس شاتم رسول کو گولی سے اڑا کے ناموس رسالت بچا لائے۔ ابھی سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ، کسی نے بتایا فلاں نے اسلام اور قرآن کی بےحرمتی کی ہم اٹھے اور گاؤں کے گاؤں نے ان گمراہ ناہنجار جوڑے کو اینٹوں کے بھٹی میں زندہ ہی جلایا اور اسلام بچا لائے۔ ابھی پہنچے ہی تھے کہ پھر پتہ چلا کوئ ملحد ہے جو ہمارے دین اور رب تعالی کی ذات اقدس کے خلاف اول فول بکتا ہے دل میں آگ ہی لگ گئ پھر اٹھے اس ناپاک ملحد کو لاٹھی گولی ڈنڈے گھونسے اور ٹھوکریں سے اتنا مارا کہ اس کی جان نکل گئ یہیں بس نہیں کیا بلکہ اس کی لاش کو اتنا گھسیٹا کہ تمام ہڈیاں توڑ ڈالیں اور یوں اس کی لاش سے اپنے پیارے دین کو بچا لائے۔ ہمیں تو جب پتہ چلا کہ کافروں کے ملک میں حضور(ص) کے خلاف فلم بنی ہے ہم نے تو تب بھی اپنے وطن عزیز کے کتنے سینما جلا دیئے کتنی گاڑیوں کا خاکستر کیا سرکاری و نجی املاک تباہ کیں اور بتا دیا دنیا کو کہ ہم اپنے نبی پاک (ص) کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کریں گے، اتنی محنت کرتے ہیں پھر بھی اسلام خطرے میں ہے۔

ہم نے تو حصار کھینچ کر اسلام کا ایک دائرہ بھی بنا رکھا ہے، بقول ابن انشاء "پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آجکل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں”۔ کریں بھی تو کیا اسلام خطرے میں ہے۔

کہیں آپ کو یہ تو نہیں لگا کہ ہم نے ملک تو دین کے نام پہ بنا لیا لیکن اس کی حفاظت کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا، ایسا نہیں ہے تحفظ دین و ناموس رسول(ص) کے لئے ہم نے قانون بنایا لیکن اب آپ سے کیا چھپانا اصل میں ہمیں نا اپنے قانون پہ اعتبار نہیں بڑی کمزور سی شقیں ہیں اور وقت بھی کتنا لگ جاتا ہے، جتنا وقت صرف ایف آئی آر میں لگتا ہے اس سے کم وقت میں ہم بندہ پھڑکا لیتے ہیں اب کون سالوں پیشیاں بھگتے؟ اور اگراس عمل سے گزر کر وہ بےقصور نکل آیا تو؟

اب اتنا وقت تھوڑی ہے کسی کے پاس کہ قانون کو مؤثر بنانے کےلئےضروری ترامیم کی جائیں۔ اور ویسے بھی سارے سیاستدان تو چور ہیں انھیں کیا پڑی کہ ہمارے حساس مسئلے کا حل کریں۔ ان کو تو ووٹ دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہنہ۔
ویسے بھی ہمارے اپنے اپنے مسلک کے علماء ہمیں بتاتے ہی یہی ہیں کہ ہر مسلمان فردِ واحد کا فرض ہے جہاد، ناموس رسالت اور تحفظ دین کا بیڑا اٹھائے نبی پاک(ص) پہ ہماری جانیں قربان ہم جان دے بھی سکتے ہیں اور ان کے لئے جان لے بھی سکتے ہیں لیکن آپس کی بات ہے سنت کے مطابق زندگی گزارنا ذرا مشکل کام ہے۔ اس کے لئے تو خود قرآن سمجھنا پڑے گا سنت کا مطالعۂ کرنا پڑے گا۔تحقیق کرنی پڑے گی اور تحقیق کےلئے تعلیم بھی چاہیے۔اب ہم جو دنیاوی تعلیم حاصل کرتے بھی ہیں تو وہ بھلا مذہب کو سمجھنے میں استعمال کریں؟ وہ تو نوکری کے لئے ہے نا۔اس سے زیادہ آسان تو یہ ہے کہ جو ہمارے مسلک کے بابا بتاتے ہیں آرام سے سنیں اور اس پہ ہی ایمان لے آئیں، بھئ انھوں نے کی ہے نا "سرچ ریسرچ”۔

اور عمل کا سوچیں بھی تو نبی(ص) تو کچرا پھینکنے والی عورت کی عیادت کرنے چلے جاتے تھے، امین اتنے کہ کافر امانتیں رکھوا دیتے ، ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرتے، وعدے کے پابند، یہودیوں کافروں مشرکین تک کے ساتھ تو معاہدے کیے اور ان پر عمل بھی کیا، خود پر پتھر پھینکنے والوں کے لیے بدعا نہ فرماتے۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے حضور(ص) کے صدق اور اخلاق عالیہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ نبی (ص) نے تو اپنے اسوہ حسنیٰ سے سکھایا کہ ہر فرد کا انفرادی عمل بنیادی عقائد و عبادات کے بعد اعلی اخلاق اور اسکی سیرت ہے۔اب یہ آسان کام تو نہیں نا کہ اپنے کردار سے اسلام کی شناخت بنیں۔

افراد ملتے ہیں تو معاشرہ بناتے ہیں بحیثیت مسلم معاشرہ ہمارے فرائض و حقوق لین دین دیگر آپسی معاملات میں حسن سلوک ہے اور یہی دنیا کے سامنے ہم مسلمانوں کا اجتماعی چہرہ ہے۔

اور پھر اسلامی ریاست آتی ہے یہاں بھی حضور(ص) نے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے جہاد کا حکم دیا بطور فرد نہیں ۔اور یہاں پھر بطور فاتح ہندہ اور ابو سفیان جیسوں کو عام معافی دے دی پورا مکہ فتح کرلیا اور کسی درخت تک کو نقصان نہیں پہنچایا،اسلامی ریاست مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی نہ صرف آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے بلکہ عبادات اور کاروبار کے لئے بھی ریاست ان کو تحفظ دیتی تھی۔ اب اتن مشکل سنت پہ عمل کون کرے؟

لیکن دل نبی (ص) کی محبت سے لبالب بھرا ہے اس کے اظہار کے لئے ہم مذہبی جوش و خروش سے عید میلاد النبی (ص) مناتے ہیں نعتیں پڑھ کر نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں جب قاری سینے سے سانس کھینچ کے بھرائی آواز میں "سوہنا آیا تے سج گئے گلیاں بازار” پڑھتا ہے تو رونگٹتے کھڑے ہوجاتے ہیں سچی آنسو ہی آ جاتے ہیں آنکھوں میں۔ کیا آواز ہے اس کی سبحان الله، مہینہ لگا کر چندے جمع کرتے ہیں محلے سجاتے ہیں۔پچھلے سال ساتھ کے محلے والوں نے ساٹھ پاؤنڈ کا کیک بنوایا تھا تو اس سال ہم نے نوے پاؤنڈ کیک بنا کر انھیں شکست دی ہماری مسجد کے مولانا سیڑھی لگا کر چڑھے کیک کاٹنے، کئ دن واہ واہ ہوئی ہمارے محلے کی،میڈیا میں بھی خبر آئی دنیا کو دکھا دیا کہ بھئ بات جب نبی (ص) کی آجائے تو ہم پیچھےہٹنے والے نہیں۔

پھر بھی حیرت ہے کہ کافروں، مشرکوں، یہودیوں اور منکرین کے دور میں قیصر و کسریٰ جیسی سپرپاروز کے بیچ چھوٹی سی اسلامی ریاست میں اسلام اتنا غیرمحفوظ نہیں تھاجتنا اب ہم جیسے جذباتی، پرجوش، خیانتی،جنونی، غصیلے، عقل اور محنت سے عاری مسلمانوں کی وجہ سے اسلام خطرے میں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے