مختلف نقطہ نظر اور تاریخ، ایک مختصر جائزہ

India Pakistan

فتح الباری فاتح

. . . . . . .. . . . . .

ان دنوں دا ئیں اور با ئیں بازو کے اہل علم حضرات کے ما بین تاریخ کے حوالے سے مختلف نقطہ نظرکی موجودگی کےبارے میں مکالمہ جاری ہے- تاریخی واقعات کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں یا دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہے یہ دیکھنے کے لئے پڑوسی ملک بھارت ایک عمدہ مثال اسلئے بھی ہے کہ لبرل حضرا ت اکثر اسی حوالے سے موجودہ نقطہ نظر کو متعصبا نہ گردانتے ہیں- بھارت میں اسکول اور انٹر لیول پر پڑھائےجانے والی ایک دو کتابوں کو بطور نمونہ لے کر اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے -اس کے علاوہ کچھ تحقیقی مقالے بھی ملے جو اس موضوع پر روشنی ڈالنے میں معاون رہے –

ہمارے ہاں معترضیں کا کہنا ہے کہ تحریک آزادی کے وہ رہنما جو پاکستان بنانے کے حق میں نہیں تھے ان کاتاریخ کی نصابی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں کیا جاتا – یہی معاملہ بھارت میں بھی ہے جیسے کہ بارہویں جماعت کی درسی کتاب میں ، مسلمانوں کی صرف علیگڑھ اور دیوبند تحریکوں کا سر سری ذکر ہے۔فرائضی تحریک ،ریشمی رومال تحریک ، تحریک احرار اور خاکسار وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ،شاید اسی لئے کہ یہ ان کے لئے کم اہم رہی ہیں جب کہ دوسری طرف ہرایک ہندوتحریک کا تفصیل سے ذکر ہے – ہر ایک ہندو تعلیمی تحریک کا ذکر ہے لیکن انجمن فیض الاسلام، سندھ مدرستہ السلام وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں – تحریک آزادی کے باب میں نہرو رپورٹ باالتفصیل درج ہے اور جواب میں قائد اعظم کے چودہ نکات صرف "چودہ نکات” لکھنے تک ہی محدود ہے نہ ہی ان اعترضا ت کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی بنا پر یہ چودہ نکات لکھے گئےتھے- اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں نہرو رپورٹ بھی پڑھاتے ہیں اور زیادہ گہرائی سے تنقیدی جائزے کا سامان بھی موجود ہے – ہمارے ہاں ہندو مسلم اتحاد ، اس کے نتائج ، اثرات اور اس کے خاتمے کی وجوہات کے بارے پڑھایا جاتا ہے ، قائد اعظم اور دوسرے مسلمان رہنماؤں کی کانگریس میں شمولیت اور کانگریس چھوڑنے کا ذکر بھی کیا جاتا ہے- کیا وہاں یہ سب پڑھایا جاتا ہے ؟؟؟ مسلم لیگ اور کانگریس کے بیچ ہم آہنگی کبھی کوئی رہی یا نہیں ایسا بھی کوئی ذکر نہیں –

اسی طرح اس بات کا ذکر تو ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس متحدہ ہندوستان کے حق میں تھی لیکن کیوں کر ہندوستان متحد نہ رہ سکا اس کا ذکر نہیں کیا جاتا ہے – کانگرسی موقف کے زبردست حامی سرحد کے باچا خان بھی تھے وہ بھی چونکہ پاکستان رہ گئےشاید اسلئے انکا بھی ذکر نہیں اور نہ ہی انکی خدائی خدمتگار تحریک کا، اسی طرح پنجاب کے یونینسٹ بھی تاریخ سے غائب ہیں -اسی طرح اچانک٣ جون کا منصوبہ منظور ہو جاتا ہے ، ہندوستان تقسیم ہوتا ہے اور پاکستان بن جاتا ہے- تاریخ سے زیادہ واقعات کی لسٹ ہے،تاریخی واقعات میں ربط نہیں ،تسلسل نہیں -(یہ انٹر لیول کی کتاب ہے، ہمارے ہاں یہ تنقید ابتدائی جماعت کے حوالے سے ہوتی ہے ) –

ایک اعتراض ابتدائی جماعتوں میں تاریخ کی جگہ معاشرتی علوم پڑھانے پر بھی ہے اور اس ضمن میں یہ سمجھا گیا ہے کہ یہ صرف ہمارے یہاں ہو رہا ہے حالانکہ ابتدائی جماعتوں میں جغرافیہ، شہریت ، تاریخ الگ الگ پڑھانے کے بجا ئے ایک مضمون کے طور پہ پڑھانا نہ صرف ابتدائی طلبہ کے لئے نسبتاً آسان ہے بلکہ بھارت سمیت کئی ممالک میں یہی رائج ہے -بھارت میں یہی تبدیلی ١٥٢-٥٣ کے مدا لیار کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں آ ئی – بھارت میں پہلی جماعت سے لے کر پانچویں تک مختصر تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور چھٹی سے دسویں تک معاشرتی علوم ،پھر بارویں جماعت سے آرٹس کے طلبا کے لئے تاریخ ایک الگ انتخابی مضمون ہے پاکستان میں یہ طریقہ کار عرصے سے ہدف تنقید ہے –

بھارت میں تاریخ کی درسی کتابوں کے حوالے سے پاکستان سے زیادہ تنازعہ پایا جاتا ہے-کیوں کہ نصاب کے ذریعے ہندو توا کے پرچار کے نتیجے میں اقلیتی مذاہب کی شناخت مٹا دی جاتی ہے – جب تک کانگرس بر سر اقتدار رہی ہے معاملہ کسی حد تک درست رہا جب بھی بھارتیہ جنتا پارٹی ریاستوں یا مرکز میں اقتدار میں آ تی ہے تو تاریخ کے مضمون کو ہندو قوم پرستی کی طرف موڑنے کا کام شروع کر دیتی ہے- یہ کام مورا جی ڈ یسا ئی کے زما نے سے شروع ہے -دوسری بار مرکز میں بی جے پی حکومت آنے کے بعد ١٩٩٨ میں درسی کتابوں کو تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام بڑے پیمانےپر شروع ہوا اور تاریخ کی کتابوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ کام کیا گیا تا کہ ہندوتوا کے فلسفے کو فروغ دیا جا سکے – ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی حکومت میں رہی ہو، جیسے گجرات، وہاں پہلے سے نصاب سازی پر انتہا پسند "سنگھ پریوار”کی اجارہ داری رہی ہے – ٢٠٠٥ میں، کانگریس اقتدار میں انے کے بعد ، بی جے پی دور سے پرائیویٹ اور پبلک اسکولوں میں رائج نصاب کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن قائم کیا جس کی رپورٹ نصاب میں شامل تعصب کی نشاندہی کے لئے کافی ہے – نصاب میں اقلیتوں کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ،ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں ،جیسے بھار ت کن لوگوں کا مدر لینڈ ہے ؟، فادر لینڈ کس کا ہے؟ کن کے لئے مقدس ملک ہے ؟ وغیرہ اور پھر ان سب کا جواب ہندو میں ہی آتا ہے – مسلمان حکمرانوں کو دھوکہ باز اور ظالم قرار دیا جاتا ہےان کے دور اقتدار کو ہندوؤں کو غلام بنانا قرار دیا جاتا ہے – مسلمان لٹیرےجبکہ ہندو پاک اور مقدس ہیں – اب پھر بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت میں ہے ، نرندر مودی پچاس سال بعد پہلی بار ١٩٦٥کی جنگ میں فتح کا جشن منا رہا ہے جو یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ تاریخ کے حوالے سے انکانقطہ نظر اور بیانیہ کیسا ہے اور نصاب کے ساتھ کیا سلوک کریں گے –

تاریخ کی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں صرف ہندوستان تک محدود نہ رہی ہیں- قوم پرست انتہا پسند مغربی ممالک میں بھی تاریخ کی کتابوں کواپنے نقطہ نظر کے مطابق دوبارہ لکھوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں – اس کام میں "سنگھ پریوار "سے تعلق رکھنے والی این جی اوز پیش پیش رہے-مثال کے طور پر امریکی اسکولوں میں رائج نصاب کے مندرجات پر اعتراض کیا جس پر لمبے عرصے تک بحث چلتی رہی اور معاملہ کورٹ تک بھی پہنچا – مختلف سٹیک ہولڈرز کے درمیان یہ بحث و مباحثے ٢٠٠٥ سے ٢٠٠٩ تک جاری رہے آخر کا ر ٢٠٠٩ میں کورٹ نے قوم پرستوں کے خلاف فیصلہ دے دیا –
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر کی موجودگی اور مقتدر حلقے کی طرف سے اپنے نقطہ نظر کی ترویج نہ کوئی انہونی بات ہے اور نہ پاکستان کے ساتھ مخصوص ہے -اسی طرح مذہبی نقطہ نظر کی طرف دیکھا جائے تو "کے پی کے ” میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں وہ اپنے نقطہ نظر کی ترویج ہی کی کوشش کی جیسا کہ جہاد سے متعلق آیات کو نصاب سے نکالنا (حالانکہ کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ جہاد کو درست تشریح کے ساتھ پیش کروا نے کی کوشش کرتے ، اس کے اصول و ضوابط، موقع محل ،ضروریات کو ساتھ ساتھ پیش کرتے ) اور موجودہ حکومت کا دوبارہ شامل نصاب کرنا اسی بات کا ااظہار ہے –

آج کے پاکستان میں ہمارا مسلہ یہ ہے کہ اپنے کوتاہ قد کی اٹھان کے لئے اقلیتوں کے نام پر بار بار یہ نکتہ اعتراض لے اتے ہیں کہ بھگت سنگھ اور شنکر اچاریہ ہمارے ہیرو نہیں ہیں کیا – گویا بھگت سنگھ کو اگر ہیرو مان لیں تو اقلیتوں کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے – کرنے کا کام یہ ہے کہ مرے ہوؤں کی وکالت کے بجائے جو اقلیتیں زندگی کے نام پر موت سے بر سر پیکار ہیں ، ان کی حالت زار بہتر بنانے میں کردار ادا کیا جائے جس کا راستہ ان کی معاشی اور تعلیمی حالت کی بہتری سے ہو کے جاتا ہے- جو تاریخ بنائی گئی ہے اس کو بدلنے کے لئےاقتدار کا انتظار کرنا ہوگا ،اور تاریخی موقف کو بدل کر تاریخ اگر دوبارہ لکھیں گے تو شاید جغرافیہ بھی تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے کیوں کہ انے والی نسل سوال تو کرے گی کہ جب ہم میں کوئی فرق ہی نہیں تھا تو الگ ملک بنانے کی کیا ضرورت تھی ؟

تاریخ کے حوالے سے پاکستانی اور بھارتی موقف اب مزید سخت اور بے لچک ہو گئے ہیں – گو اس میں تبدیلی ممکن ہے لیکن اس کے لئے بڑوں کو بڑا قدم لینا ہوگا اور پہل کرنی ہوگی اورتاریخ گواہ ہے (غیر مسخ شدہ بھی )کہ بڑوں نے کبھی بڑے ہونے کا ثبوت نہیں دیا ہے- جب دشمن جنگ شروع کرے ایسے میں ہتھیار رکھ دینا آزاد قوموں کی ضمیر کے منافی ہے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے