نواز شریف کا تازہ بیان اور پاکستانی سیاست کی فالٹ لائن

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ڈان اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ممبئی حملوں کے ملزمان کا ٹرائل پاکستان میں مکمل نہیں ہوسکا اور یہ کہ کیا ہمیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ممبئی طرز کے حملوں میں لوگوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی دینی چاہیئے!

اس بیان کے ساتھ ہی میڈیا پر پورے زوروشور سے یہ کمپین شروع ہوگئی ہے کہ نواز شریف نے انڈیا کی خوشنودی کے لئے یہ بیان دیا ہے اور دراصل یہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی طرف سے اقبال جرم ہے اور انڈیا کے موقف کی تائید ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے!

https://www.youtube.com/watch?v=vrYjMhcoOiw

نواز شریف وہ پہلے شخص اور اہم منصب پر فائز رہنے والے راہنما نہیں ہیں جنہوں نے یہ بات کی ہے۔ اس سے قبل متعدد سابق فوجی جرنیل اسی سے ملتے جلتے بیانات دے چکے ہیں۔ جہادی لیڈروں کے بیانات اور جہادی تنظیموں کے لٹریچر ممبئی حملوں کا کریڈٹ لینے کے حوالے سے سب کے سامنے ہیں۔ سو یہ راگ الاپنا کہ نواز شریف نے کوئی نئی "غداری” کردی ہے اور اس پر ففتھ جنریشن وارفئیر کے سائیبر مجاہدین کی برگیڈ کو چڑھا دینا کسی طور پر دانشمندی نہیں ہے۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ نواز شریف نے اس بیان کو داغنے کے لیے اس ٹائمنگ کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ اچھے خاصے منجھے ہوئے تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں نواز شریف نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور نیب کی احمقانہ حرکت کے بعد جو اخلاقی برتری نواز شریف کو میسر آگئی تھی، اسے اس بیان نے تاراج کر دیا ہے۔ ہماری دانست میں یہ ایک سادگی پر مبنی بات ہے۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور وہ سیاست کی پر پیچ اور سطح دار نیرنگیوں کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ اس وقت ان کا بیان جو ارتعاش پیدا کررہا ہے اس کا انہیں یقیناً احساس و شعور رہا ہوگا اور غالبا یہ بیان دینے کے مقاصد میں بعینہ یہ بات شامل ہے کہ اس کے نتیجے میں ان موضوعات پر بحث شروع ہوجائے جو بوجوہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناگوار اور ناپسندیدہ ہیں۔ سول ملٹری تعلقات پاکستانی سیاست کی فالٹ لائن ہیں اور اس پر گفتگو ہمیشہ فریقین کے لیے مشکل اور الجھاؤ کا باعث بنتی ہے۔ نواز شریف پر اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی اور بیرونی دوستوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کسی کمپرومائز کو قبول کرلیں تاکہ آنے والے انتخابات میں معاملات کو قابل قبول ڈگر پر لایا جاسکے۔ میاں نواز شریف ابھی تک کسی کمپرومائز کو اس انداز میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے انہیں سبکی اٹھا کر ہمیشہ کے لیے سیاست سے آؤٹ ہونا پڑے۔

گو کہ میاں صاحب کی مزاحمت کی تاریخ کوئی زیادہ بولڈ اقدامات پر مبنی نہیں رہی اور وہ ایک حد تک گیم کو اٹھا کر اس کے بعد نیم دلانہ کمپرومائز کر جانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں مگر اس دفعہ میاں نواز شریف ابھی تک احتیاط کے ساتھ اپنے پتے کھیل رہے ہیں اور اعصاب کی اس جنگ میں نہ صرف مسلسل شریک ہیں بلکہ اس میں اپنے مخالف فریق پر موقع تاک کر زوردار حملہ بھی کر دیتے ہیں۔ ممبئی حملوں کے بارے میں ان کا تازہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ہماری دانست میں نواز شریف کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ فوج اور ٹرمپ انتظامیہ کے تعلقات اس وقت خاصے کشیدہ ہیں۔ یہی وہ موقع ہے جب لوہے کو گرم دیکھ کر نواز شریف نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ اس سے اسٹیبلشمنٹ مزید دباؤ کا شکار ہوگی۔ نواز شریف کے لیے ڈان لیکس کی وہی حیثیت ہے جو آصف زرداری کے لیے میموگیٹ کی تھی۔ نواز شریف کو معلوم ہے کہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ آخری تجزیے میں اگر کسی سے دبتی ہے اور کمپرومائز کرتی ہے تو وہ امریکہ ہی ہے۔ ان کے سامنے اس ضمن میں متعدد مثالیں موجود ہیں جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ناپسندیدہ ترین عناصر سے نہ چاہتے ہوئے بھی امریکی ایماء پر نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ اپنے ہاتھوں سے اقتدار بھی پیش کیا۔ البتہ یہ درست ہے کہ اس طرح کے پریشرز سے وقتی طور پر ایک فریق جیت تو سکتا ہے مگر اس سے وہ فالٹ لائن مزید گہری ہوجاتی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ سویلین بالادستی کے جس ہمالیہ پر وہ چڑھ چکے ہیں، وہاں پر ٹہراؤ اور استقرار ان کے لیے کتنی دیر ممکن ہوگا۔ امریکہ کی یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ عملیت پسندی میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ خطے کے معروضی حقائق اور مشرق وسطیٰ میں بیٹھے اسٹیبلشمنٹ کے دوست کسی وقت بھی ٹرمپ انتظامیہ کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ معاملات اسی فریق کے ساتھ حل کرلیں جنہوں نے سرد جنگ کی جہنم سے نکلنے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مدد کی تھی۔ اگر ایسا ہوگیا تو نواز شریف تاریخ کے غبار میں لپٹی کسی گمنام کتاب کے ایک ورق کا نام ہی رہ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے