اتوار کے روز سپریم کورٹ میں کیا ہوتا رہا ؟؟

شہر اقتدار کی سڑکیں سنسان تھیں۔ سناٹے کا راج تھا۔ اگرچہ سناٹا معمول میں بدل گیا ہے لیکن اتوار کو ایک بلند عمارت سے یہ کیسی اور کس کو دھاڑنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ تجسس اس عمارت تک لے گیا۔ عمارت کے اندر کے داخلی رستے باہر کی نسبت ذیادہ آباد تھے۔ صفوں کی چیرتے اور رستہ بناتے ہوئے آگے بڑھا تو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس اتوار کو بھی اپنے حجرے سے باہر نکل آئے ہیں۔ وہ کام جوگذشتہ کئی برسوں سے نہیں نمٹائے جا سکے تھے ان مسائل کے حل کے لیے قاضی وقت نے اتوار کی بھی قربانی دے ڈالی۔

اس مروت میں کچھ میڈیا والے بھی کھسیانی بلی کی طرح پنچائیت کے کونوں میں دبک کر بیٹھے دیکھے گئے۔ وکلاء نے موکلین سے زیادہ چھٹی کے دن باباجی کی لاج رکھی اور تشریف لے آئے۔ سائلین کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن بابا جی کی آواز کے سامنے ان کی دبی آواز بھلا کہاں سنائی دے سکتی تھی۔ چھٹی قربان کرنے والوں میں شامل ہوکر خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ شہادت والی انگلی میں خون دیکھا خوشی دوگنی ہوگئی کہ چلو سہی تو قبول ہوئی۔ انصاف ہونے میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی جس کی وجوہات پر غور ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے عدالت کے انسانی حقوق کی طرف سے پیش کیے گئے ایک کیس کی سماعت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا آئین کے تحت عدلیہ سیل کے طرف سے لگائے گئے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کیس کو نہیں سن سکتی اس کے لیے عدالت کو پہلے نوٹس لینا ہوگا۔ چیف جسٹس نے غصے سے بنچ توڑنے کا اعلان کردیا اور پھر وقفے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ اس بینچ کا حصہ نہیں تھے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کی طرف سے اس سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے اسے غیرمثالی اقدام سے تعبیر کرڈالا۔ اتوار کو بڑی تبدیلی،، رویے میں شدت کے ساتھ ایک اور تبدیلی بھی تھی جس کا ذکر سب سے پہلے کرنا قرین انصاف ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس ثاققب نثار سے اختلاف بھی رنگ لے آیا۔ اتوارکو سپریم کورٹ میں بھی کچھ اہم مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا انسانی بنیادوں پر آئے ہوئے مقدمات کو ایسے نہیں سن سکتے، اس کے لیے پہلے جوڈیشل سائیڈ پر نوٹس لے کر سنیں گے۔ دیر آید درست آید پر قانون قاضی کا ہی چلے گا۔

ایک اور مقدمے میں سامنے قومی ائیر لائن کے ایم ڈی مشرف رسول کھڑے وضاحت دے رہے تھے کہ قومی پرچم کی جگہ قومی جانور کی تصویر کا مقصد نفع کو بڑھانا۔۔۔۔ ابھی کچھ وضاحت کر ہی رہے تھے کہ آواز آئی کیا قومی پرچم کی جگہ ایک جانور لے گا؟ یہ آئر لینڈ کے اسٹیکرز کا معاملہ کیا ہے؟ ٹھیکہ کس کو دیا گیا؟ ایک جہاز پر 27 ہزار ڈالرز کیوں خرچ کیے جارہے ہیں؟ کیا پی آئی اے اب منافع میں چلا گیا ہے؟

دوران سماعت چیف جسٹس نے ایم ڈی سے پوچھا یہ بتاو کل رات میری فلائیٹ کیوں اتنی ذیادہ لیٹ ہوئی تھی؟ جواب آیا کہ اسلام آباد میں موسم اور بعد میں طیارے میں خرابی تاخیر کا سبب بنی۔ تو کیا آپ طیاروں کی چیک نہیں کرتے؟ ایم ڈی بولے جی وہ ماضی میں کچھ غفلت کی وجہ سے اب کام نکل آیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا اچھا آپ کی کارکردگی بھی دیکھ لیتا ہوں ، یہ بتائیں آپ کی بھانجی بھی پی آئی اے میں نوکری کر رہی ہیں؟ ایم ڈی نے مودب ہوکر کہا جی نہیں میرا کوئی رشتہ دار بھی قومی ایئر لائن میں نوکری نہیں کررہا ہے۔ اچھا آپ کی تعلیم کیا ہے؟ جی میں نے اکنامکس میں ڈگری لے رکھی ہے۔ یہ کیسی قابلیت ہے۔ ابھی کچھ جواب آہی رہا تھا کہ حکم آگیا پہلے تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں آپ کو بعد میں جوڈیشل نوٹس دے کر سن لیں گے۔ قانون قاضی کا ہی چلے گا۔

چیف جسٹس کا ائیر لائن کے ایم ڈی اور وکیل سے بھی ایک دلچسپ مکالمہ ہوا۔ وزیر اعظم کا ائیر بلیو سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس ائیر لائن میں 150 بیرون ملک کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے، وزیر اعظم عباسی کا اس سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ عدالت میں مکمل خاموشی چھاگئی تو چیف جسٹس نے لواحقین کے معاوضوں کی تفصیلات کے بارےمیں سوالات شروع کردیے اور پھر بیان میں گڑ بڑ کی صورت میں سخت کاروائی کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ چونکہ ہر مقدمے کو اب جوڈیشل طریقے سے سنا جائے گا تو پھر اس بار بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اب بھی قانون قاضی کا ہی چلے گا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کا زرداری کے چئیرمین NICL ایاز خان نیازی سے بھی مکالمہ ہوا۔ جسٹس صاحب بولے مجھے پتا ہے دبئی میں تم نے casino یعنی جوا خانہ کھول رکھا تھا اور ہاں کچھ اور بھی دھندہ آپ وہاں چلارہے تھے۔ تمھارا 2 کنال پر بہت ہی خوبصورت گھر بنا ہواہے۔ مجھے پتا ہے تمھارے پاس 3 بے نامی گاڑیاں ہیں۔ تمھارا مخدوم امین فہیم سے تعلق تھا۔ مجھے سب پتا ہے۔ لیکن اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے نیب سے درخواست حکم کی صورت میں کی تو مجھے پورے دن میں پہلی بار محسوس ہوا کہ بابا جی نیک نیتی سے بھی مقدمات کو انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن یہ نظام کی رکاوٹیں اور قاضی کا قانون بھی اس کی راہ میں کسی رکاوٹ سے کم نہیں۔ انصاف کیسے ہو ملک میں اب بھی قاضی کا قانون چل رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے