کل کی داستان

میری کل احسن اقبال سے بات ہوئی‘ آواز کی توانائی واپس آ چکی تھی‘ وہ گرم جوش لہجے میں بولے ’’اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ مجھے لاہور سے ایک بزرگ کا فون آیا‘ میں نے بات سننے کے لیے جوں ہی فون کان کے ساتھ لگایا‘ ٹھاہ کی آواز آئی اور فون میرے ہاتھ سے گر گیا‘ بزرگ کا فون غیبی امداد تھا‘ وہ فون نہ آتا تو گولی سیدھی میرے دل‘ پھیپھڑوں یا جگر میں لگتی اور میں شاید اس وقت دنیا میں موجود نہ ہوتا‘‘۔

وہ لمبی سانس لے کر بولے ’’میری زندگی میں مشن مسنگ تھا‘ یہ گولی مجھے مشن دے گئی‘ میری زندگی کے اب دو مقصد ہیں‘ فیتھ اور بلٹس (عقیدہ اور گولی)‘ میں اب باقی زندگی عقیدے سے شدت ختم کروں گا اور ملک کو اسلحے سے پاک کروں گا‘‘۔

مجھے ان کی اسپرٹ اچھی لگی‘ ہمارے ملک کو عقیدے‘ اسلحے اور رٹ آف دی گورنمنٹ ان تینوں پر ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے‘ اسلام امن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے یہ مذہب اس وقت اتارا تھا جب پوری دنیا بدامنی کا گڑھ تھی‘ دنیا میں آگ لگی ہوئی تھی چنانچہ جب مسلمان اسلام کا پرچم لے کر نکلے تو آدھی دنیا حلقہ بگوش اسلام ہو گئی‘ دنیا میں امن قائم ہوتا چلا گیا‘ آج اسلام سے وہ امن نکلتا جا رہا ہے۔

آپ ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجیے دنیا اب کرہ ارض کودو حصوں میں تقسیم کرتی ہے‘ مسلمان اور انسان‘ میں طویل عرصے سے اسلام کا مطالعہ کر رہا ہوں‘ بے شمار تفاسیر پڑھیں‘ احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور تاریخ تقریباً گھول کر پی گیا‘ مجھے کسی جگہ وہ اسلام نہیں ملا جو ہم اس وقت پاکستان میں پریکٹس کر رہے ہیں‘ ملک مختلف فرقوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر فرقہ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہے‘ کہیں عقیدت پورا عقیدہ نگل گئی‘ کہیں عقیدہ پورا مذہب کھا گیا اور کہیں اہل بیعت سے محبت اسلام کے راستے میں خلیج بن کر حائل ہو گئی‘ آج اسلام مظلوم ہر دروازے پر دستک دے کر اپنا پتہ پوچھ رہا ہے۔

میں نے مختلف مذہبی کتب میں اللہ تعالیٰ کے کرم اور رحم کے بے شمار واقعات پڑھے اور ہر واقعے کو اللہ تعالیٰ کی تعریف سمجھ کر دل سے لگا لیا مثلاً آپ کو بھی یاد ہوگا شہر کی نامور طوائف فوت ہو گئی‘ وہ انتقال کے بعد شہر کے مفتی اعظم کے خواب میں آئی اور جنت میں اپنا خوبصورت محل دکھاکر کہا‘ میں نے زندگی میں کوئی نیکی‘ کوئی عبادت نہیں کی‘ بس ایک بار میرے راستے میں ایک پیاسا کتاآیا‘ میں نے اپنے جوتے کے ذریعے کنوئیں سے پانی نکالا اور کتے کو پلا دیا۔

اللہ تعالیٰ کو میری یہ نیکی اتنی اچھی لگی کہ اس نے نہ صرف میرے تمام گناہ معاف کر دیے بلکہ مجھے جنت میں اس خوبصورت محل سے بھی نواز دیا‘ مثلاً آپ کو یاد ہوگا ایک ڈاکو سو قتل کرنے کے بعد توبہ کے لیے نیک لوگوں کی بستی کی طرف روانہ ہوا اور راستے میں انتقال کر گیا۔

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف توبہ کی اس نیت کی وجہ سے اسے معاف کر دیابلکہ اسے جنت میں جگہ بھی دے دی اور آپ کو حضرت موسیٰ ؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان وہ مکالمہ بھی یاد ہوگا جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا تھا‘ قارون نے زمین میں دھنستے وقت تم سے معافی مانگی تھی‘ وہ اگر ایک بار‘ صرف ایک بار مجھ سے معافی مانگ لیتا تو میں نہ صرف اسے معاف کر دیتا بلکہ اسے بچا بھی لیتا۔

ہمارا اللہ اس قدر کریم اس قدر مہربان ہے‘ یہ کتے کو پانی پلانے کے انعام میں طوائف کو جنت میں محل دے دیتا ہے‘ یہ صرف توبہ کی نیت پر سو سو لوگوں کے قاتل کو معاف کر دیتا ہے اور یہ قارون جیسے فاسق اور فاجر کے بارے میں بھی فرماتا ہے ’’یہ اگر مجھ سے معافی مانگ لیتا تو میں اس کے سارے گناہ معاف کر دیتا ‘‘ لیکن ہم اللہ کے بندے ہونے کے باوجود کسی دوسرے بندے کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہم سب نے جیبوں میں مہریں رکھی ہوئی ہیں‘ ہمیں جہاں ذرا سا مختلف شخص نظر آتا ہے ہم اس پر کفر کی مہر لگاتے ہیں اور اسے واجب القتل قرار دیتے ہیں‘ کیا ہم (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے تو حشر کے دن حساب کرنا ہے لیکن ہم روز دوسروں کا حساب کرتے ہیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں‘ ہم کیسے انسان ہیں؟۔

مجھے اللہ تعالیٰ نے دنیا دیکھنے کی سعادت نصیب کی‘ آپ یقین کیجیے میں نے خانہ کعبہ‘ مسجد نبوی‘ استنبول‘ دوبئی‘ مسقط‘ شام‘ اردن‘ مصر اور ایران میں سنیوں اور شیعوں کو ایک ہی مسجد میں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا‘ کسی کو کسی کی عبادت پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن ہم نے پاکستان میں مسجدیں بھی بانٹ رکھی ہیں اور سجدے بھی‘ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو کہیں ہمارے فرقے اللہ تعالیٰ‘ نبی اکرمؐ اور قرآن مجید کی ملکیت کا دعویٰ نہ کر دیں۔

ہم کہیں قرآن ہمارا ہے‘ نبی ہمارے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمارا ہے کا اعلان کر کے دوسروں کو قتل نہ کرنا شروع کر دیں‘ ہم نے اس ملک میں عشق رسولؐ کی ریس بھی شروع کر دی ہے‘ ہم جب تک کسی کو گستاخ ڈکلیئر کر کے اس کی جان نہ لے لیں ہم اس وقت تک خود کو سچا عاشق رسول ؐ نہیں سمجھتے‘ آپ لوگوں سے غسل اور وضو کے فرائض پوچھ لیں‘ کلمے سن لیں‘ یہ لوگ خط نہیں پڑھ سکتے لیکن یہ عشق رسولؐ کا دعویٰ کر کے دوسروں کی جان لینے کے لیے ہر وقت تیاررہتے ہیں۔

ہم کیسے انسان اور کیسے مسلمان ہیں؟ ہم دوسروں کے ایمان کا فیصلہ بھی کرتے ہیں اور انھیں قتل کرنے کے لیے تیار بھی رہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی جان‘ مال اور عزت کی حفاظت کے لیے اسلام اتارا تھا لیکن آج اسلام کے نام پر اسلامی ملک میں کسی کی عزت محفوظ ہے‘ مال اور نہ ہی جان‘ کیا ہم اس کنفیوژن‘ اس اپروچ کے ساتھ زندہ رہ سکیں گے؟۔

پاکستان اسلحے کی خوفناک منڈی بھی بن چکا ہے‘ آپ ملک میں پستول سے لے کر توپ خرید لیں‘ آپ کویہاں سے میزائل‘ ٹائم بم‘ گرنیڈ‘ مشین گن اور تارپیڈو تک مل جائیں گے اور آپ کو خودکش جیکٹ بنانے والے درجنوں ماہرین بھی دستیاب ہیں‘ یہ کیا ہے؟ کیا ہم دہشت گرد قوم ہیں؟ ملک کی حالت یہ ہے احسن اقبال پر حملہ کرنے والے عابد حسین نے عمارتی مٹیریل بیچنے والے کاشف سے پندرہ ہزار روپے میں پستول خرید لیا تھا‘ یہ اگر چاہتا تو کلاشنکوف اور تھری ناٹ تھری کی رائفل بھی خرید سکتاتھا‘ یہ کیوں ہے اور کیا اسے روکنا ہماری ذمے داری نہیں؟

میں یہاں ازبکستان کی مثال دوں گا‘ ازبکستان میں پولیس بھی اسلحے کی نمائش نہیں کرسکتی‘ پولیس بھی اگر رائفل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے تویہ اسے باقاعدہ تھیلے میں ڈال کر منتقل کرتی ہے‘ آپ کو ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ یو اے ای اور سعودی عرب میں بھی اسلحہ نظر نہیں آتا‘ یورپ میں اسلحے پر مکمل پابندی ہے جب کہ امریکا میں اسلحے کا باقاعدہ ڈی این اے ہوتا ہے۔

آپ امریکا کے کسی کونے سے پستول یا رائفل خریدیں‘ اسلحہ فروش دکان کے اندر دو فائر کرے گا اور آپ کے باہر نکلنے سے پہلے اسلحہ‘ گولی اور خریدار کے تمام کوائف سسٹم پر چڑھا دے گا‘ اس کے بعد پورے امریکا میں جہاں بھی اس اسلحے سے کوئی گولی چلے گی‘اسلحے کا مالک چند لمحوں میں حکومت کے سامنے آ جائے گاجب کہ ہمارے ملک میں کوئی شخص رائفل اٹھائے‘ دس لوگ قتل کرے اور پھر وہ رائفل جلا کر بھسم کر دے‘ پولیس قیامت تک مجرم کو تلاش نہیں کر سکتی‘ ہمارے ملک میں ریاست کے پاس اتنا اسلحہ نہیں جتنا اسلحہ عوام لے کر پھر رہے ہیں۔

ہمیں جلد یا بدیر اس کا علاج بھی کرنا ہوگا‘ حکومت کو فی الفور اسلحے پر پابندی لگا دینی چاہیے‘یہ اسلحہ جمع کرے اور اس کے بعد ملک میں کوئی شخص اسلحہ نہ رکھ سکے‘ ملک میں جائز اور ناجائز دونوں قسم کا اسلحہ بین ہونا چاہیے‘ پولیس کے پاس بھی رائفل نہیں ہونی چاہیے‘ صرف اسپیشل فورس اسلحہ رکھ سکے اور یہ فورس بھی صرف ایمرجنسی میں سامنے آئے‘ شکار کے لیے بھی اسلحے کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہونا چاہیے ‘ گولی اگر جانور پر بھی چلے تو ریاست کو اس کا علم ہونا چاہیے اور آخری چیز ’’رٹ آف دی اسٹیٹ‘‘ ہے۔

ہمیں ماننا ہوگا ہماری ریاست رٹ کھو چکی ہے‘ ہمیں سڑک سے لے کر ائیرپورٹ تک کسی جگہ ریاست نظر نہیں آتی‘ لوگ ملک میں جب بھی چاہتے ہیں اور جہاں بھی چاہتے ہیں یہ سڑک بلاک کر کے بیٹھ جاتے ہیں‘ مریض اسپتالوں‘ طالب علم یونیورسٹیوں اور کلرک دفتروں کے شیشے توڑ دیتے ہیں اور ریاست ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی‘ 2014ء کے دھرنے کے دوران اسلام آباد میں کیا ہوا تھا اور فیض آباد دھرنے میں دنیا نے کیا کیا دیکھا؟

کیا ریاست اس کمزور رٹ کے ساتھ چل سکے گی‘ نہیں‘ ہرگز نہیں! ریاست کی رٹ کا یہ عالم ہونا چاہیے کہ جس جگہ حکومت کی گاڑی کھڑی ہو جائے یا جس جگہ حکومت کا دوگریڈ کا کارندہ کھڑا ہو جائے کسی کو وہاں دم مارنے کی ہمت نہ ہو لیکن ہم پوری ریاست کی رٹ کو سڑکوں اور گلیوں میں رول دیتے ہیں اور ریاست منہ دیکھتی رہ جاتی ہے‘ یہ تماشہ بھی اب بند ہو جانا چاہیے۔

میری ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے اور تمام اداروں سے درخواست ہے آپ یہ فیصلہ کر لیں ملک میں اب مذہب‘ اسلحہ اور رٹ آف دی اسٹیٹ پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘ ملک میں کوئی شخص اب کسی کو کافر قرار نہیں دے سکے گا‘ عبادت گاہیں حکومت بنائے گی اور ان میں خطبہ بھی حکومت کی رضامندی سے ہو گا‘ پورے ملک میں کوئی اسلحہ نہیں ہوگا اور جس شخص نے ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی غلطی کی‘ ریاست اسے عبرت کی نشانی بنا دے گی‘ آپ یقین کیجیے یہ ہوگا تو ملک چلے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم کل کی داستان بن کر کل میں دفن ہو جائیں گے اور ہمارا ذکر تک نہ ہو گا داستانوں میں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے