چین اور امریکہ کی نئی معاشی جنگ

اس صدی کی نئی معاشی جنگ چین اور امریکہ میںشروع ہو چکی ہے۔ اسی سلسلے میں میتھیوبے کا تجزیہ پیش کیا جار ہاہے۔”اس صدی کی معاشی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ایک مہینے سے زیادہ مدت تک ٹیرف کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات اور کم و بیش ہوتی ہوئی سرمایہ کارانہ پابندیوں کا جائزہ لینے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک سال سے زیادہ عرصہ تک تیاریوں کے بعد چین اور امریکہ بالآخر متنازع معاشی ایشوز پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین مسابقت نے پچھلے کچھ عرصے میں شدت اختیار کر لی ہے۔ ممکن ہے دونوں ملک ان معاملات کے کسی نتیجہ خیز حل تک پہنچ جائیں۔

دونوں ممالک اکیسویں صدی میں معاشی بالا دستی کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔دونوں میں سے کوئی بھی اس معاشی جنگ کو سرسری انداز میں نہیں لے گا۔گزشتہ دہائیوں میں امریکہ نے خود کو دنیا کی واحد حربی اور معاشی طاقت کے طور پر منوا لیا تھا لیکن چین کے معاشی ابھار نے امریکہ کی اس حیثیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ چین کی جانب سے لاحق اس خطرے کے سد باب کیلئے واشنگٹن کے پاس سب سے بڑا آپشن یہ ہے کہ وہ ملک کی تجارتی اور سرمایہ کارانہ سرگرمیوں پر کچھ پابندیاں عائد کر دے۔ اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے بحث و تکرار نے ثابت کر دیا کہ دونوں میں سے کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

امریکہ اور چین کے مابین یہ تصادم اسی وقت ناگزیر ہو گیا تھا جب 2001ء میں چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی تھی۔ چین کو اس آرگنائزیشن میں لانے والا امریکہ ہی تھا ۔ تب اس کا خیال تھا کہ نتیجے میں اس کے ہاں نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور برآمدات بڑھیں گی۔ ایسا ہوا بھی۔ لیکن امریکی معیشت کو اس کی قیمت بھی چکانی پڑی۔ آنے والے ماہ و سال میں ممکن ہے امریکہ پر یہ حقیقت آشکار ہو کہ گزشتہ 30 برسوں میں یہ اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ چین نے جو معاشی معجزہ کر دکھایا ہے‘ وہ کب تک برقرار رہے گا ؟اور آیا چین اپنی دس فیصد سے زائد ترقی کی صلاحیت برقرار رکھ سکے گا یا نہیں؟ اکیسویں صدی کے اس موڑ پر‘ اس بارے میں کئی آرا پیش کی جا رہی ہیں؛ تاہم یہ واضح ہے کہ چین کو اپنی ترقی کی یہ رفتار برقرار رکھنے کیلئے بہت سے سٹرکچرل اور سوشل چیلنجوں پر قابو پانا پڑے گا۔ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے چین کو اپنی سستی چیزوں کے ذریعے بین الاقوامی منڈی تک رسائی تو ضرور فراہم کر دی لیکن ساتھ ہی اس بات کا تقاضا بھی کیا کہ وہ اپنی معیشت کو لبرلائز کرے۔

تقریباً سبھی ممالک نے چینی معیشت کی تیزی سے بڑھوتری کو محسوس کیا‘ جو ایک سٹریٹیجک تشویش کا باعث بھی بن رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے صدر بننے کے بعد پہلے آٹھ ماہ میں امریکی پالیسی کا رخ ایشیا پیسیفک کی طرف موڑنا شروع کر دیا تھا‘ لیکن نائن الیون نے امریکی توجہ کسی اور جانب مرتکز کر دی۔ امریکہ نے جو بھی ردعمل ظاہر کیا‘ اس سے چین کے ترقی کرنے کی رفتار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ چین ہمیشہ ایشیا پیسیفک ریجن کی ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت رہا۔ نیدر لینڈ کی گرونجن یونیورسٹی میں میڈیسن ہسٹاریکل سٹیٹسٹکس پروجیکٹ کے تحت ہونے والی ریسرچ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ چین 200 سال پہلے بھی عالمی معیشت کے ایک تہائی کا مالک تھا۔ بعد ازاں یورپ اور امریکہ میں انڈسٹری اور سامراجیت کے فروغ نے چین کی اس حصہ داری کو کم کر دیا۔ پھر 1978ء میں چینی رہنما ‘ڈنگ شیائوپنگ نے معاشی اصلاحات شروع کیں‘ جن کے نتیجے میں آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے اگرچہ بہت سی کمرشل اور ملٹری ٹیکنالوجیز میں امریکہ کو تاحال چین پر برتری حاصل ہے‘ لیکن یہ فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے۔

اتنی تیزی سے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس حوالے سے چوکنا ہو گئی ہے۔ چین کا ”میڈ ان چائنا 2025ئ‘‘ پلان خصوصی طور پر واشنگٹن کیلئے فکرمندی کا باعث ہے کیونکہ اس منصوبے کا مقصد جدید ترین ٹیکنالوجیز‘ جیسے روبوٹکس اورآرٹیفشل انٹیلی جنس‘ کے میدان میں چین کو‘ امریکہ پر سبقت دلانا ہے۔ یہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد چین معاشی میدان میں امریکہ کا ایک حقیقی اور ناگزیر حریف بن جائے گا؛ چنانچہ ان ساری باتوں اور معاملات کو سامنے رکھا جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان چھڑنے والی اقتصادی جنگ ‘کوئی حیران کن معاملہ نہیں رہتی۔ امریکہ نے گہری تحقیق کے بعد ان چینی پالیسیوں کا پتہ چلایا ہے‘ جن کے تحت امریکی فرموں کے ساتھ مشترکہ سودوں میں چینی ٹیکنالوجی کی امریکہ ترسیل ضروری قرار دی گئی تھی۔ ٹرمپ نے چین سے ہونے والی 50 بلین ڈالر مالیت کی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف کی منظوری دی ہے۔ چین نے بھی اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور امریکہ سے کم و بیش 50 بلین ڈالر کی درآمدات پر ٹیرف25 فیصد عائد کر دیا ہے۔

اس کے اس ردعمل میں ٹرمپ نے ایک اور قدم اٹھانے کا سوچا اور تجارتی نمائندوں سے کہا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ چین سے درآمد ہونے والی مزید 100 بلین ڈالر کی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ علاوہ ازیں امریکی ٹریژری سیکرٹری سٹیون میوچن بھی اسی حوالے سے کچھ اقدامات کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جن کا مقصد امریکہ میں چینی سرمایہ کاری اور سٹریٹیجک سیکٹرز‘ جیسے ٹیکنالوجی‘ میں کچھ چیزوں کے حصول کو محدود کرنا ہے۔ امریکہ میں یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ چینی طلبہ اور ریسرچرز کو ویزوں کی فراہمی میں کمی لائی جائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بیجنگ کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے اس پر جتنا دبائو بڑھایا جا سکتا ہے‘ بڑھایا جائے۔ یہ اقدامات اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتے ہیں‘ اور اسے امید ہے کہ چین امریکہ کو کچھ رعایتیں دینے کی پیشکش کرے گا۔

ٹرمپ بیجنگ سے کیا تقاضے یا مطالبات کرنے جا رہے ہیں؟ ان کا فوکس دو چیزوں پر ہے: پہلا‘ چین کے ساتھ امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کیا جائے۔ دوسرا‘ امریکی تجارتی اشیا پر چینی ٹریڈ بیریئرز کو ختم کرایا جائے۔ چین یہ جانتا ہے کہ دونوں ملکوں میں تجارتی مفادات کا ٹکرائو امریکی سٹریٹجی کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔ اسی لئے وہ چاہتا ہے کہ اس تجارتی جنگ سے بچا جائے ۔ تجارتی جنگ کا بڑھنا اس کے لئے کسی قدر مفید بھی ثابت ہو سکتاہے؛ تاہم چین یہ نہیں کر سکتا کہ امریکہ کے سامنے سرنگوں ہو جائے‘ اس کے سارے مطالبات اور شرائط تسلیم کر لے۔ چین وہ غلطیاں نہیں کرنا چاہتا جو 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں جاپانی حکومت نے کی تھیں۔ جب اس نے اپنی معاشی پالیسیوں کو امریکی منشا کے مطابق بنا لیا تھا۔ چین یہ سمجھتا ہے کہ اس کی اقتصادی طاقت اتنی ہے کہ امریکہ کا پوری طرح مقابلہ کر سکے۔

اگر ٹرمپ چین کی درآمدی اشیا پر مزید ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر ردعمل میں چین کو بھی ویسا ہی کرنا پڑے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ چین کے پاس ایسا کرنے کے آپشنز محدود ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ چین ‘امریکہ سے 150 ارب ڈالر سے کم مالیت کی اشیا درآمد کرتا ہے؛ چنانچہ اگر چین نے ٹرمپ کی جانب سے مزید درآمدی اشیا پر ٹیرف عائد کرنے پر ردِ عمل ظاہر کیا تو امریکہ‘ چین سے درآمد ہونے والی تمام اشیا پر درآمدی ٹیکس (ٹیرف) لگا دے گا اور اسی ممکنہ صورتحال سے چین بچنا چاہتاہے۔ اس کے بجائے چین مذاکرات سے دست بردار ہونا زیادہ بہتر سمجھے گا۔ اس طرح اسے کچھ وقت مل جائے گا اور اتنے عرصے میں ہو سکتا ہے امریکہ میںصدارتی انتخاب کے بعد کوئی ایسا سربراہ آ جائے جو چین کے نقطہ نظر کو بہتر طریقے سے سمجھتا ہو۔

چین کچھ معاملات میں لچک دکھا سکتا ہے لیکن کچھ ایشوز ایسے ہیں جن پر چین کسی طور کوئی لچک دکھانے پر آمادہ نہیں ہو گا‘ جیسے اس کا ”میڈان چائنا 2025 ‘‘ پلان‘ چینی صنعت‘ اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے چینی پالیسیاں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی اشیا پر امریکی ٹیرف کے نفاذ کے پہلے مرحلے کے نتیجے میں‘ چینی شرح ترقی پر بے حد معمولی اثر پڑے گا۔ بہرحال دونوں بڑی معاشی طاقتوں کے مابین حالیہ تجارتی تنازعات اگر چند دہائیاں نہیں تو چند سال ضرور چلیں گے۔ اس دوران امریکہ اور چین‘ دونوں اپنے اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لئے زور لگاتے رہیں گے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے