غداری اور بے وفائی

ایک اچھا صحافی فرمان کے تابع ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اپنے عمل سے ہمیں بتایا کہ صحافی کی قوت شامہ ایسی حساس ہونی چاہئے کہ صاحب حکم کی منشا سمجھ سکے۔ کان کی تربیت ایسی ہو کہ لان میں اگتی گھاس کی آواز بھی سن سکے اور آنکھ ایسی عقاب کہ پریس ریلیز اور ٹویٹ میں الجھ کے نہ رہ جائے، اپنے دانہ ہائے رزق پر نظر رکھے۔ ممنوعہ موضوع سے گریز کرے اور جہاں اذن اظہار ملے، ایسی رواں بحر میں غزل کہے کہ نوآموز مطربہ کو گانے میں دقت نہ پیش آئے۔ کسی نے کہا تھا کہ جو سوال پوچھنے کی اجازت نہ ہو، وہی بنیادی سوال ہوتا ہے۔ تاہم اچھے صحافی کو بنیاد پرست نہیں ہونا چاہیے۔ درشن جھروکے پر توجہ دینی چاہئے، جانے کب دے دے صدا کوئی حریم ناز سے…

1940 ء میں جرمن فوج نے فرانس پہ قبضہ کر لیا۔ ایک محب وطن حکومت بھی کھڑی کر دی۔

قابض افواج کی طرف سے حکم جاری کیا گیا کہ تمام سرکاری اہلکار حکومت وقت سے تعاون کا حلف اٹھائیں یا سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ بیشتر نے ضمیر بیچ دیا۔ جنگ کا زمانہ تھا، خوراک کی قلت تھی۔ ضمیر کیا چیز تھی، روٹی کے ٹکڑے پر عصمت دستیاب تھی۔ جنگ زور آوری کا کھیل ہے۔ استاد محترم کہتے تھے کہ جنگ اور قحط سے پناہ مانگنی چاہئے۔ کیونکہ اس دوران اقدار سلامت نہیں رہتیں۔ اعتماد کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر نیم تاریک گوشے میں خطرہ نظر آتا ہے اور آنکھیں مسلسل سراب دیکھتی ہیں۔ 1944 میں پیرس آزاد ہوا تو جرمن قابض فوجوں کے ساتھ تعاون کرنے والوں کے لئے ایک اصطلاح تراشی گئی Collaborator۔ اس کا ترجمہ شریک جرم نہیں ہو سکتا، اسے غدار بھی نہیں کہہ سکتے۔ سر سے اجتماعی بندوبست کا سائبان اٹھ گیا تو کچھ جان بچانے کو بھاگے اور کچھ طالع آزما ہو گئے۔ عزیز حامد مدنی نے کہا تھا، طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش / ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں۔ جاننا چاہئے کہ جہاں جنگ ہوتی ہے، کسی نہ کسی کی تجوری میں دولت جمع ہوتی ہے۔ جہاں قحط ہوتا ہے، کہیں نہ کہیں کوئی گودام اناج سے لبالب بھرا ہوتا ہے۔ جہاں زورآوری کی حکومت ہو، قانون کی بالادستی اور دیانت کا سکہ بے قیمت ہو جاتا ہے۔

2004ء میں جان ڈیوگن نے اس موضوع پر ایک خوبصورت فلم بنائی تھی،Head in the Clouds۔ کبھی دیکھئے گا اور اگر تفہیم میں دقت پیش آئے تو ادارہ جنگ جیو کے مایہ ناز صحافی عبدالرؤف سے رابطہ کیجیے گا۔ عبدالرؤف تاریخ، صحافت، ادب اور فلم پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ صحافت پر کاٹھی ڈالنے والوں کو وقت گزرنے کے بعد برا کہنا بہت آسان ہے، کبھی یہ بھی سوچا جائے کہ اہل صحافت نے صحافت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ رکیے، ہماری اردو روایت میں نوحہ ایک خاص مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ بائبل مقدس میں نوحہ یرمیاہ نبی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ I beheld, and, lo, there was no man, and all the birds of the heavens were fled. (Jeremiah 4:25) اقبال نے اپنے رنگ میں یہی شکوہ کیا تھا… قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں/ گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات۔

اپریل 1949ء میں روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے دلی میں اپنے نامہ نگار کے حوالے سے ایک خبر دی، اس پر چھ مئی 1949ء کو سولہ اخبارات نے مشترکہ اداریہ شائع کیا، عنوان تھا، غداری۔ کلیدی جملہ تھا، ’مذکورہ اخبار نے، ہماری سوچی سمجھی رائے میں، ریاست سے غداری کا ارتکاب کیا ہے… سول اینڈ ملٹری گزٹ کے خلاف تعزیری کارروائی کرنی چاہیے‘۔ ضمیر نیازی روایت کرتے تھے کہ اس معاملے پر گفت و شنید کے لئے حمید نظامی، الطاف حسین اور فیض احمد فیض شریک مجلس تھے۔ الطاف حسین گرج رہے تھے، حمید نظامی کا لہجہ مدہم تھا اور فیض مضطرب تھے۔ صرف چراغ حسن حسرت نے یہ اداریہ شائع کرنے میں کچھ مزاحمت کی لیکن ایک روز بعد یہ اداریہ امروز میں بھی شائع ہو گیا۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ بند کر دیا گیا۔ آج یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ خبر درست تھی یا غلط، لیکن مئی 1949ء میں غداری کا غلغلہ تھا۔ مارچ 1951 میں پنڈی سازش کیس سامنے آیا تو اخبارات نے غداروں کے لئے پھانسی کا مطالبہ کیا۔ مارچ 1954 میں فضل الحق نے مشرقی پاکستان میں 309 ارکان کی اسمبلی میں 300 نشستیں جیت کر حکومت بنائی۔ صرف دو ماہ بعد نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا ایک انٹرویو فضل الحق کی حکومت کو لے ڈوبا۔ الزام وہی کہ فضل الحق نے غداری کی ہے۔

سات اکتوبر 1958ء کو اسکندر مرزا نے 1956ء کا آئین توڑ ڈالا۔ مارشل لا نافذ کرنے کے حکم نامے کی آخری سطر بامعنی تھی، "جہاں تک غداروں کا تعلق ہے ، میں ان سے یہی کہوں گا کہ اگر ممکن ہو تو وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں…” ٹھیک بیس روز بعد ایوب خان نے پستول کی نوک پر اسکندر مرزا کو جلا وطن کر دیا۔ سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں… سیٹھ قاسم کے نولکھا ہار کی کہانیاں بھی دفن ہو گئیں کیونکہ اسکندر مرزا تو جلاوطنی میں ایک ہوٹل کی ملازمت پہ مجبور تھے۔

اپریل 1959ء میں مارشل لا حکومت نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پہ قبضہ کر لیا۔ جواز یہ کہ پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار سے دفاع، امور خارجہ اور قومی سلامتی کو خطرات لاحق تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے بقلم خود لکھا کہ یہ اخبارات ’اپنے ہی گھر میں اجنبی‘ بن کے رہ گئے تھے۔

محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو زیڈ اے سلہری نے "ایوب اور سیاستدان” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔

یہ صحافت کے نصاب میں شامل ہونی چاہیے تاکہ طالب علم سیکھ سکیں کہ عالی جاہ کی خوشامد کیسے کی جاتی ہے۔ قائد اعظم کے مزار کی آڑ لے کر قوم پہ پتھر کیسے برسائے جاتے ہیں۔ فروری 1968ء کے اخبارات پڑھیے، کیا ہم نے اطلاع دی کہ آرمی چیف یحییٰ خان نے ایوان صدر پہ قبضہ کر کے صدر کو یرغمال بنا لیا ہے؟ ان دنوں اخبارات اگرتلہ سازش کیس سے بھرے تھے کیونکہ مجیب الرحمن پر غداری کا الزام تھا۔ مارچ 1969ء میں یحییٰ خان ایوان صدر میں رونق افروز ہو گئے تو ایک صحافی نے لکھا، ’جنرل ایوب خان نے عوام سے چھینے ہوئے حقوق پر اپنی شخصیت کا پرشکوہ محل تعمیر کرنا چاہا لیکن جنرل یحییٰ خاں انتہائی حالات میں، عوام کے بنیادی حقوق عوام کو لوٹانے کے لئے مضطرب نظر آتے ہیں… وہ تو صرف پاکستان کی سالمیت کا امیج سنوارنا اور نکھارنا چاہتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کا گہرا شعور رکھتے ہیں کہ حالات نے مارشل لا کو ناگزیر بنا دیا تھا‘۔

مغربی پاکستان کے تمام اخبارات کی سنہ 1971 کی فائل دیکھ لیجیے۔ کیا اہل صحافت نے اہل وطن کو مطلع کیا کہ وطن میں خانہ جنگی ہو رہی ہے؟ ہم نے تو ایک سطر میں خبر دی، ’بدقسمتی سے اس اہتمام میں ہتھیار ڈالنا بھی شامل ہے‘…ایک برس نہیں گزرا تھا کہ ستمبر 1972 میں لندن پلان اور غداری کے الزامات پھر جاگے۔ غداری کا الزام 1974 میں ولی خان اور ان کے 55 ساتھیوں پہ بھی لگایا گیا۔ ولی خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درست تھا یا غلط، جنوری 1978ء میں ضیا الحق نے حیدر آباد ٹریبیونل ختم کر دیا۔ جنرل ضیا الحق نے ریاست سے غداری کے ساتھ مذہب دشمنی کا تکملہ بھی بڑھا دیا۔

1992ء میں ہم نے جناح پور سازش کیس کے نقشے برآمد کیے۔ اس دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف وقفے وقفے سے سیکورٹی رسک قرار پاتے رہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔

ڈان لیکس میں ہم نے وزیر اطلاعات کو خبر رکوانے میں ناکامی پہ برطرف کیا تھا۔ ہم محض وضع داری میں صحافت کے چند روشن نام گنواتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری سیاست غداری کی فرد جرم سے عبارت ہے اور ہماری صحافت بے وفائی کا نوحہ ہے۔ ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیم زہد کر لے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے