دس ہزار بمقابلہ تین سو

یہ وہ دور تھا جب انگریز مغل شہنشاہوں کے آگے کورنش بجاتے تھے، انہیں ظل الٰہی جیسے القابات سے پکارتے تھے، ان کے دربار میں تحائف سے لدے پھندے جاتے تھے، بادشاہ کا رعب و دبدبہ اُن کے لئے ویسا ہی تھا جیسا عام رعایا کے لئے ہوتا تھا، وہ بادشاہ کو ’’جان کی امان پاؤں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، اُس کے آگے رکوع کی حالت میں کھڑے ہوتے تھے اور اُس کے دربار سے الٹے پاؤں واپس جاتے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر نے 1707تک حکومت کی، اُس کے زمانے میں مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی، اُس کے بعد جب طاقت نوابوں اور مہاراجوں کے پاس گئی تب بھی انگریز اور فرانسیسی کمپنی بہادر کی جرأت نہیں تھی کہ نواب کے آگے دم مار سکیں، نواب کا حکم حرف آخر ہوا کرتا تھا، یورپین افسران نواب کے آگے بھیگی بلی بن کر پیش ہوتے، اُس سے تجارت میں رعایتوں کے طلب گار ہوتے، اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور اسے وہی عزت و تکریم دیتے جو اُس زمانے میں بادشاہ کو دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ 1746تک یونہی جاری رہا۔ پھر ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا جس نے برصغیر کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

ہندوستان میں ایک شہر ہے آرکوٹ، 1746میں نواب محمد انوار الدین، آرکوٹ کے پہلے نواب تھے، نواب صاحب کے زیر نگیں مدراس سے پونڈا چری تک کا پورا علاقہ تھا، اُس زمانے میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اورفرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران نواب صاحب سے مختلف قسم کی تجارتی رعایتیں لینے کے لئے اُن کے دربار میں حاضری دیا کرتے تھے۔ انگریزوں کے پاس مدراس کا علاقہ تھا جہاں انہوں نے نواب صاحب کی اجازت سے اپنے تجارتی گودام وغیرہ بنا رکھے تھے اور فرانسیسیوں کے پاس پونڈا چری کا علاقہ تھا۔ تجارتی سبقت لے جانے کے لئے دونوں میں سخت مقابلہ تھا جس کے نتیجے میں تلخی خاصی بڑھ چکی تھی۔

اسی کشمکش میں انگریزوں کا ایک بحری جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوا جسے فرانسیسیوں نے اپنے لئے خطرہ جانا، وہ بھاگم بھاگ نواب صاحب کے پاس پہنچے اور انہیں انگریزوں کی شکایت کی، نواب صاحب نے انگریزوں کے مقامی افسر کو بلا کر اُس کی سرزنش کی، نواب صاحب کا دبدبہ اس قدر تھا کہ انگریز افسر کی گھگی بندھ گئی اور وہ ’’جو حکم مائی باپ‘‘ کہہ کر یہ وعدہ کرتے ہوئے رخصت ہوا کہ جہاز واپس بھیج دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ بات مگر ختم نہ ہوئی۔ کچھ دنوں بعد فرانسیسیوں نے انگریزوں کے علاقے مدراس پر حملہ کر کے وہاں قبضہ کر لیا، اس قبضے کا مطلب تقریباً پورے شہر پر قبضہ تھا کیونکہ اُس زمانے میں انگریزوں کے ’’فیکٹری ایریا‘‘ کو نسبتاً محفوظ سمجھا جاتا تھا اور مقامی تاجر بھی وہیں آس پاس اپنے گودام تعمیر کر لیا کرتے تھے۔ اس مرتبہ انگریز افسر روتے دھوتے نواب صاحب کے سامنے پیش ہوئے اور فرانسیسیوں کی شکایت کی۔ نواب صاحب غصے میں آگئے اور فوراً فرنچ حکام کو حکم دیا کہ مدراس کا محاصرہ ختم کر دیں۔

فرانسیسی کورنش بجا لائے اور اپنے نوجوان افسر کو حکم بھیجا کہ وہ مدراس خالی کرکے واپس رپورٹ کرے، اُس زمانے میں فون یا فیکس کی سہولت تو تھی نہیں سو یہ حکم پہنچنے میں دیر لگی یا یوں کہیے کہ فرانسیسیوں نے نواب صاحب کا حکم ماننے میں تامل سے کام لیا۔ جب مدراس پر قبضہ ختم نہ ہوا تو نواب صاحب کو جلال آ گیا، انہوں نے اپنے بیٹے محمد علی کو دس ہزار کی فوج کے ساتھ مدراس بھیجا تاکہ فرانسیسیوں کے پٹھے کو سبق سکھایا جا سکے جو فقط تین سو لوگوں کے ساتھ وہاں قبضہ جمائے بیٹھا تھا۔ نواب صاحب کے صاحبزادے نے شہر سے باہر دریا کے کنارے فوجیں اتاریں اور شہر کا پانی بند کر دیا۔

فرنچ افسر کو جب اِس بات کا علم ہوا تو اُس نے رات کو، جب محمد علی کی فوج سو رہی تھی، حملہ کرکے پانی بحال کروا لیا۔ یہ بات سانڈ کو سُرخ رومال دکھانے کے مترادف تھی۔ محمد علی نے اگلے ہی روز مدراس پر دھاوا بول دیا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ نواب صاحب کی دس ہزار کی فوج، ایک نوجوان فرانسیسی افسر کی تین سو کی فوج سے شکست کھا گئی۔ تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ برصغیر کی تاریخ اس واقعے کے بعد وہ نہیں رہی جو 1746سے پہلے تھی۔ ٹھیک گیارہ سال بعد 1757میں جنگ پلاسی ہوئی جس میں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی، برصغیر پر انگریزوں کا تسلط قائم ہو گیا، وہ انگریز جو گیارہ برس پہلے تک کورنش بجایا کرتے تھے اب ہندوستان کے حکمران تھے۔

تین باتیں اہم ہیں۔ پہلی، کیا وجہ تھی کہ دس ہزار کی منہ زور فوج تین سو جوانوں سے شکست کھا گئی؟ جواب، ڈسپلن اور ہتھیار۔ یورپین افواج اُس وقت مغلوں سے کہیں زیادہ منظم تھیں، فوجیوں کی تربیت ایسے کی جاتی تھی کہ وہ محض ایک آواز پر حکم سمجھ جاتے، پروموشن کا پورا نظام تھا، پریڈ کا طریقہ کار تھا، بہادری کے تمغے وردی پر سجائے جاتے تھے، جبکہ مغلوں کی فوج ایسے منظم نہیں تھی، بادشاہ یا نواب کی وفاداری پر جنگ لڑی جاتی تھی، ایسے خوبصورت تمغے تھے نہ پریڈ اور باقاعدہ تربیت کا کوئی رواج۔ اصل فرق اسلحے کا تھا، ہندوستان میں توپ خانے جب ایک گولہ برساتے تو اگلے گولے کے درمیان دو سے اڑھائی منٹ کا وقفہ ہوتا، اس کے برعکس یورپین افواج کے پاس یہ ٹیکنالوجی آ چکی تھی کہ ان کی توپ لگاتار گولے برساتی تھی۔

نواب کی فوجوں نے جب مدراس پر پیش قدمی کی تو فرنچ توپوں نے ایسے ہی گولے برسا کر اُن کے قدم اکھاڑ دیئے، ہندوستانی فوج کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک بعد ایک گولہ یوں برسایا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ اِس واقعے کے بعد انگریزوں اور فرانسیسیوں کی برصغیر کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو گئی، اب انہوں نے تجارت میں رعایت لینے کے علاوہ مختلف نوابوں سے اسلحے کی اِس نئی ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بھی مذاکرات شروع کردیئے جس کے عوض انہیں مزید رعایتیں ملیں اور بالآخر ایک وقت وہ بھی آیا جب انگریز ریزیڈنٹ اور بادشاہ کے درمیان یہ معاملہ طے پایا کہ انگریز فوج، بادشاہ کے خرچے پر بادشاہ کی حفاظت کرے گی مگر انگریز کے تابع ہو گی اور بادشاہ کو سول معاملات میں چھوٹا موٹا اختیار حاصل رہے گا۔ (واضح رہے یہ آج کی نہیں دو سو سال پہلے کی بات ہے!)

تیسری اور سب سے اہم بات، حقیقت کا کشف۔ بعض اوقات اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کس فریق کے پاس کتنی طاقت ہے، اکثر کوئی گروہ یا فرد اپنی ساکھ یا تاثر کی بنیاد پر ہی طاقتور تصورکر لیا جاتا ہے، 1746میں نواب آف آرکوٹ کو انگریز اور فرانسیسی ایسے ہی طاقتور سمجھتے تھے، انہیں یہ علم ہی نہیں ہو سکا کہ اُن کی طاقت نواب صاحب سے بڑھ چکی ہے، اگر نوجوان فرنچ افسر ہمت نہ دکھاتا تو شاید نواب صاحب کی طاقت کا تاثر قائم رہتا، مگر ایک معمولی واقعے نے ہندوستانیوں کی طاقت کا پول کھول دیا۔

ذاتی زندگی میں بھی ہم اکثر خود کو پہچان نہیں پاتے، یہ حقیقت ہم پر منکشف ہی نہیں ہوتی کہ ہم میں خدا نے کتنی صلاحیت اور طاقت رکھی ہے، اِس کا ادراک ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی نا گہانی آفت ہم پر پڑتی ہے اور پھر ہم میں وہ قوت بیدار ہو جاتی ہے جس سے ہم نا آشنا ہوتے ہیں۔ قوموں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ قوموں کو بھی اکثر اپنی طاقت کا انکشاف نہیں ہو پاتا اور وہ اِس غلط فہمی میں رہتی ہیں کہ شاید اُن میں تاریخ کا دھارا بدلنے کی صلاحیت نہیں جبکہ حقیقت میں تاریخ بدل چکی ہوتی ہے، صرف تاریخ کی سچائی کو بے نقاب کرنا باقی ہوتا ہے۔1746کی سچائی اپنی جگہ موجود تھی کہ مغل سلطنت کی طاقت زوال پذیر ہے، فرانسیسیوں نے صرف اسے بے نقاب کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے