پولیس کی عزت کب ہو گی ؟

کیپٹن آکاش ایبٹ آباد کے رہنے والے تھے ، یہ پاک فوج میں گئے اور جلد ہی شہید ہو گئے، وزیرستان کی جنگ میں انکا خون بھی شامل ہے، انکی لاش جب ایبٹ آباد لائی گئی تو چار سو خاموشی تھی، ہر آنکھ اشک بار تھی ، ملک بھر کے میڈیا نے انہیں کوریج دی ، انکی ماں کے آنسو اور خطوط دنیا بھر نے دیکھے ، قلم کاروں نے قلم اٹھایا اور آکاش کو سلامی دی ، لوگ آج تک کیپٹن آکاش کو نہیں بھولے ، فوج جب بھی کوئی تقریب رکھتی ہے تو یہ اپنے اس جوان کو یاد رکھتی ہے ، لوگوں کے سامنے جب خاکی وردی کے کسی جوان کی لاش آئے تو لوگ دکھی ہوتے ہیں مگر یہ رویہ پولیس کے باب میں دیکھنے کو نہیں ملتا ، کیوں ؟ کیا کبھی پولیس کے افسران نے اس پر غور کیا ہے ؟ خون دونوں کا ایک جیسا ہے،دونوں وطن کے محافظ کہلاتے ہیں ، دہشت گردوں کی اندھی گولی کا نشانہ دونوں بنتے ہیں، اور تو اور دہشت گردوں کی گولی کا پہلا نشانہ پولیس بنتی ہے بعد میں فوج بنتی ہے، پھر بھی پولیس سے پیار نہیں کیا جاتا ، کیوں ؟

مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں پر حملہ ہوا تو پولیس اہلکاروں کی لاشیں گاڑیوں کی چھتوں پر رکھ کر گھروں کو روانہ کی گئیں تھیں ، اس نا انصافی کے خلاف کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھی ، کسی نے صدائے احتجاج بلند نہیں کی ، کسی نے کلمہ حق نہیں کہا ، کم ہی آنکھیں تھیں جو اس دن روئی تھیں ،اکثریت آنکھوں میں خشکی تھی ، کسی کے دل میں رحم نہیں ابھرا ، پولیس خود ہی روئی خود ہی چپ ہوئی ، کسی قلم کار ، کسی شاعر ، کسی ادیب ، کسی گلوکار نے اپنے فن کا جادو جگانا مناسب نہیں سمجھا ، سوال یہ ہے کیا اس میں عوام کا ہی قصور ہے یا پولیس کا بھی قصور ہے ؟ میرا خیال ہے پولیس زیادہ قصور وار ہے ،

سچی بات تو یہ ہے ہماری عوام پولیس سے محبت نہیں کرتی بلکہ پولیس سے خوف کھاتی ہے ، خوف نفرت کو جنم دیتا ہے محبت کو نہیں ، محبت سے محبت جنم لیتی ہے ، عوام تھانے جائے تو پولیس اہلکاروں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ پاکستانی چوکی میں نہیں بلکہ بھارتی چوکی میں آ گئے ہوں ، پولیس ظالم سے بھی پیسے لیتی ہے اور مظلوم سے بھی ، ظالم تھانے کو خوش رکھنے کا فن جانتا ہے جبکہ مظلوم کے پاس یہ فن نہیں ہوتا ، مظلوم جب تھانے جاتا ہے تو اس سے ہتک آمیز سلوک ہوتا ہے ، پہلی بار تھانے جانے والا شخص پولیس کے رویے کو دیکھ کر اپنے دل سے پولیس کی محبت کو خیر آباد کہہ دیتا ہے ، اللہ اللہ کر کے اگر ایف آئی آر کٹ جائے تو پھر تیل پانی کے بہانے پیسہ دینے پڑتے ہیں، تب جا کر کام چلتا ہے ، مجھے بتائیں ایک کیس کے سلسلے میں تھانے جانے والا شخص کیا پولیس کے بارے میں اچھی رائے رکھے گا ؟ کتنے لوگ ایسے ہیں جو پولیس سے محبت رکھتے ہیں ؟

حالیہ دنوں میں دو واقعات میرے جاننے والے نوجوان دوستوں کیساتھ پیش آئے تو حیرانی ہوئی کہ پولیس کیا کر رہی ہے ؟ انہیں اپنے شہیدوں کے خون کی بھی لاج نہیں ؟ یہ زمانے کے تھپیڑوں سے کیوں نہیں سیکھ رہے ؟ بے رخی سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے ؟ لوگ آنکھیں پھیرے ہوئے ہیں اور پولیس پر جوں بھی نہیں رینگتی ، ہوا کچھ یوں ہوا کہ ایک دوست کے ہاسٹل کا سیکورٹی کیمرہ ٹھیک نہیں تھا ، پولیس کے جوان کو علم ہوا تو وہ چائے پانی لینے پہنچ گیا ہمارے دوست نے پولیس اہلکار کو چائے پانی نہیں دیا تو اس نے پرچہ کاٹ دیا ، اور پھر فون پر دھمکیاں دیتا کہ میں تمھیں گھر سے اٹھاوں گا اور تمھیں بے عزت کروں گا ، ایک عام شخص کیساتھ یہ رویہ ہو گا تو وہ پولیس کی خاک عزت کرے گا ؟ دوسرا واقعہ شادی کے موقع پر پیش آیا ، نوجوانوں نے فائرنگ کی تو پولیس دولھے کا شناختی کارڈ لے گئی ، شناختی کارڈ تب واپس کیا جب چھت کے لیے سات ہزار کی چادریں لیں، ایک بائیس تئیس سالہ نوجوان اپنے محافظوں کا یہ سلوک دیکھ کر شاید ہی دل میں پولیس کو محبت دے سکے ،

پولیس جب رات چلنے والی گاڑیوں کو تنگ کرے گی ، دن کو ٹریفک اہلکار غریبوں پر چالان کرے گی ، نرم رویے کے بجائے سخت رویہ رکھے گی ، بچوں جوانوں بوڑھوں اور عورتوں سے توہین آمیز یکساں سلوک کرے گی تو پھر پولیس کی عزت نہیں ہو گی ، پھر پولیس کے جوانوں کا خون رائیگاں جائے گا ، پھر کوئی ادیب شاعر قلم نہیں اٹھائے گا ،پھر پولیس اے وطن کے سجیلے جوانو جیسے ترانوں کی خود کو حقدار نہ سمجھے ،

ابھی بھی وقت ہے ، پولیس خود کو تبدیل کرے ، عمران خان آج ہے تو کل نہیں، مگر آپ آج بھی ہیں اور کل بھی ، عوام آج بھی ہے کل بھی ہونگے ، خلیج ختم کیجئے ، پولیس اور عوام کے درمیان جو دیوار حائل ہے اسے گرانے کی کوشش کیجئے ، تنخواہ سرکار ویسے بھی آپ کو دیتی ہے اور یہ تنخواہ عوام کے ٹیکس سے ملتی ہے، عوام خون پسینہ دیکر آپ کے بچوں کے رزق کا اہتمام کرے اور آپ عوام سے پیار بھرے لہجے میں بات بھی نہ کریں تو یہ زیادتی ہے آپ عوام کو محبت دیجئے ، لہجہ نرم کر لیجئے ، پھر دیکھیں کیسے لوگ آپ کی قدر کرتے ہیں، اگر فوج کا ایک جوان مر جانے کے بعد زندہ رہ سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں رہ سکتے ؟ آپ کی موت پر آپ کے لیے کیوں نہیں رویا جا سکتا ؟ عوام کو دوش نہ دیا جائے عوام غفور آفریدی نامی پولیس افسر کے تبادلے کے خلاف سات دن سڑکوں پر احتجاجا بیٹھی رہی وہ بھی تو کالی وردی والا ہی تھا ، آپ آگے بڑھیں پھر دیکھیں عوام کیسے آگے بڑھتی ہے اس پہلو پر تھوڑی دیر رک کر سوچیں تو سہی ؟ ہو سکتا ہے کسی افسر کا سوچنا عزت کا باعث بن جائے _

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے