حادثات ہمارے ہی مقدرمیں کیوں؟؟؟

گزشتہ دنوں وادی نیلم میں سیر کے لئے آئے افراد کےساتھ افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس میں پل ٹوٹنے کی وجہ سے بارہ لوگ جان کی بازی ہارے۔اس افسوسناک واقعہ کی وجہ سے پورے ملک میں ہر ایک غم محسوس کررہا تھا۔۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ پہلا حادثہ تھا ۔۔؟؟
ان راستوں میں بنائے گئے ناقص پلوں اور سڑکوں کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ہر سال بہت سی قیمتی جانوں کے ضیاع کی خبریں ہم سنتے ہیں مگر ہم افسوس کے سو کچھ نہیں کرتے اور پھر ایک مذید حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔۔ملکی سیاحت پہلے دم توڑرہی ہے جبکہ ایسے واقعات ان علاقوں میں قدرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کیلئے بھی منفی پیغام کا باعث بنتی ہیں۔ان حادثات کے بعد اب اگر ٹریفک حادثوں کی بات کی جائے توایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اوسطاً 25 افراد روزانہ ٹریفک حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ہر صبح اخبارات میں بے شمار ٹریفک حادثات کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ہر روز کئی افراد ان ٹریفک حادثات میں اپنی قیمتی جانیں گنوابیٹھتے ہیں اور بہت سے عارضی یا مستقل معذوری کا شکار ہو جا تے ہیں۔ مگر پریشانی لاحق ہوتی ہے توصرف متاثرہ شخص یا حادثے کے شکار افراد کے اہلیخانہ کو نہ تو کوئی قومی ادارہ ہے جو اس پر فالو اپ رپورٹ بنائے اوران وجوہات اور خامیوں کی نشاندہی کرئے جس کے سبب یہ حادثہ رونما ہوا۔۔۔نہ ہی متعلقہ ادارے کوئی ایکشن لیتے ہیں۔۔۔میرے لندن قیام کے دوران ایک دن میں جہاں مہمان تھا لینڈ لائن پر فون کال آئی کہ آپ کے ساتھ کو ئی حادثہ تو پیش نہیں آیا۔۔ میں حیران تھا یہ کیسی کال ہے تو استفسار پر معلوم ہوا کہ یہاں پر سی سی ٹی وی کیمروں اور دیگر نیٹ ورکس کے علاوہ حادثات کی تحقیقات کرنے والے ادارے اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ ہماری نظر سے اوجھل کو ئی وقوعہ تو نہیں ہوا۔اگر انہیں کو ئی ایسا فرد مل جائے تو وہ معلومات کیلئے رقم تک دیتے ہیں اور ایسا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں کہ جو حادثہ ہوا وہ دوبارہ نہ ہوسکے۔۔
مگر ہمارا تو والی وارث ہی کو ئی نہیں صرف میرے گاوں کی مین شاہراہ لاہور سرگودھا روڈ سکھیکی پر ایک سال 2015 کے دور ان اسی سے زائد حادثات ہو ئے جن میں ساٹھ سے زائدبچے نوجوان بزرگ افراد جان کی بازی ہارگئے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔۔۔!!
جنازہ اٹھا اور روڑ پر ٹریفک پھر رواں دواں۔۔اب کچھ دن بعد کوئی اور مائی کا لال مرے گا۔۔!!!
اسلام آباد ایکسپریس وے اور ملحقہ لنک روڈز پر حادثات بھی روز کا معمول ہیں،گزشتہ دنوں ہمارے دفتر کے سید سرفراز شاہ اپنے بیٹے کے ہمراہ موٹرسائیکل پر فیض آباد کے پاس لنک روڈ پر جارہے تھے کہ موڑ کے غلط ڈیزائن کی وجہ سے کار کی ٹکر سے دنوں شدید زخمی ہوگئے۔اس جگہ روزانہ حادثے ہوتے ہیں۔ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات میں تیز رفتاری، غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑک کی دونوں اطراف ناجائز تجاوزات،سڑکوں کا غلط ڈیزائن،روڈز کی خستہ حالی، زائد مدت ٹائر وں کا استعمال ،غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، سخت سزاوں کا فقدان، جہالت،کم شرح خواندگی ،بدعنوانی اور ہمارے رویئے شامل ہیں۔جب تک ہم اپنے رویوں کو درست نہیں کریں گے اس وقت تک ٹریفک حادثات میں کمی نہیں آسکتی۔ ٹریفک سے متعلق شعورکی بیداری کے لئے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا ضروری ہے ۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عام آدمی کو روڈ پر چلنے کے دوران اپنی حفاظت ، ٹریفک قوانین پر عمل درآمدکاشعوردے۔نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے تحت روڈز سیفٹی بہت بہتر ہوچکی ہے لیکن شہروں اور قصبوں کی سڑکوں پر صورتحال پہلے سے بھی ابتر ہے۔ان حادثات کی روک تھام کے لیے قوانین کو مزید سخت بنانا اورنئے اداروں کی تشکیل اور متعلقہ اتھارٹیز کو فعال کرنا ہوگا۔سڑک پر حادثے اور اس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کی وجہ بننے والےڈرائیورز کو عبرتناک سزائیں دی جائیں اور انکے لائسنس تاحیات کینسل ہونے چاہیں۔ بہت ضروری ہے کہ متعلقہ اداروں کو فعال کیا جائے جو تمام شاہراہوں کی باریک بینی سے چیکنگ کریں۔ جہاں کہیں بھی حادثے کی وجہ بننے والے روڈ میں بہتری کی ضرورت ہو فوراً کیاجائے تاکہ بے گناہ لوگ بلاوجہ موت کے منہ میں نہ جائیں۔جس طرح پل ٹوٹنے کاواقعہ پیش آیا ہوسکتا ہے کہ اس پر اگر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوتا کہ "یہ پل پانچ لوگوں کیلئے ہے”تویہ افسوسناک واقعہ نہ ہوتا، ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے ایک ریسرچ ٹیم بھی قائم کی جائے جو موجودہ دور کے ٹریفک مسائل پر تحقیقی رپورٹ بنا کرسفارشات مرتب کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے