اسلامی معاشرے کے لیے راہِ نجات

ہم جانتے ہیں کہ خاندان کی ابتدا مرد و عورت کے باہمی تعلق سے ہوتی ہے، یہی مرد و عورت کچھ دنوں کے بعد والدین کہلاتے ہیں، بچے جوان ہوتے ہیں، تو ازدواجی رشتے پھلتے پھولتے اور کنبے و قبیلے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کا کارواں آگے بڑھتا ہے اور یہ رنگا رنگ وحدتیں پھیلتی اور سنورتی ہوئی معاشرے کا روپ دھارلیتی ہیں؛ لیکن جب کسی معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان بادسموم کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں ہوتو علامہ اقبال کی پیشین گوئی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
کو مکمل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس معاشرتی تباہی و بربادی سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ قرآن و حدیث میں بتائے ہوئے واضح نقوش اور تاب ناک راہیں ہیں۔

خاندان کے اِدارے کے لیے طلاق کا لفظ پیغام اجل ہے، اس کی تباہی دنیا کے بیش تر ملکوں میں خطرناک و باکی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق مغربی ممالک میں خاندانی اِدارے تیزی سے بربادی اور ویرانی کی راہ پر گامزن ہیں، اس کا ہلکا سا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک سال ۱۹۹۰/ میں امریکہ میں ۱۶۲۰۰۰/ شادیاں ہوئیں اور ۴۲۶۳۵ طلاق کے واقعات رونما ہوئے۔ آسٹریلیا میں ۱۱۶۹۴۵/ شادیاں ہوئیں اور ۱۱۱۷۰۰۰/طلاقیں، ڈنمارک میں ۳۰۸۹۴/ شادیاں اور ۱۵۱۵۲ طلاقیں، سوئزرلینڈ میں ۴۶۶۰۳/ شادیاں ہوئیں اور ۱۳۱۸۳/ طلاق کے واردات پیش آئے۔ یہی حال کم وبیش دگر ممالک کا ہے جہاں خاندانی اِدارے برق رفتاری سے اجڑ رہے ہیں جب کہ ان ملکوں میں باضابطہ شادی کا رواج کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور بغیر شادی کے اکٹھے رہنے کو محبوب ترین عمل تصور کرتے ہیں۔

اِس کے علاوہ نیوز ویک میں ۱۶/جولائی ۱۹۹۰/ کو شائع شدہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سال تیس چالیس عورتوں پر جسمانی تشدد ہوتا ہے، ہر اٹھارہ سیکنڈ کے بعد ایک عورت تشدد کا نشانہ بنتی ہے، امریکہ میں مقیم ہر چار عورتوں میں سے تین کم از کم ایک مرتبہ تشدد کے جرم کا نشانہ بن چکی ہوتی ہیں۔

اس کے برعکس ساری دنیا کو انسانیت کی لڑی میں پرونے کے لیے آنے والے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش اسلوبی سے طلاق دیے جانے کو بھی ”ابغض المباحات“ (جائز کاموں میں سب سے برا) قرار دیا ہے۔ پھرمیاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں یہ طریقہ نہیں ہے کہ نوبت فوراً طلاق تک پہنچ جائے؛ بلکہ ایک طرف خاتون سے کہا گیا ہے کہ اگر اس کا شوہر بدمزاج ہے تو جدائی کے بجائے صلح و آشتی کی راہیں تلاش کی جائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں بیوی پر کچھ حقوق کی کمی بیشی پر آپس میں صلح کرلیں اور صلح ہر حال میں بہتر ہے۔ (النساء: ۱۲۸)

دوسری طرف مرد کو تلقین کی گئی کہ اگر عورت بدمزاج، سرکش، بداخلاق اور بدسلوکی پر آمادہ ہوتو پہلے اسے نصیحت کرو، پھر اسے خواب گاہ میں تنہا چھوڑ دو؛ تاکہ اسے احساس ہوکہ عارضی جدائی مستقل جدائی کا باعث بھی ہوسکتی ہے پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہو تو اسے سرزنش کرو اگر صلح پر آمادہ ہوجائے تو اسے اذیت دینے کے بہانے مت تلاش کرو اور اگر کام بنتا نظر نہ آئے تو پھر معاملہ دونوں خاندانوں کے سربرآوردہ افراد کے پاس لے جاؤ کہ شادی اسلامی معاشرے میں محض لڑکے لڑکی کا معاہدہ نہیں بلکہ یہ دو خاندانوں میں مودت والفت پیدا کرنے کا موجب ہے۔ اگر دو طرفہ فیصلہ کرنے والے راہِ مصالحت تلاش کرنا چاہیں تو خاندان ٹوٹنے سے بچ جائے گا؛ لیکن اگر کوئی راہِ مصالحت تک رسائی ممکن نہ ہو تو مرد مخصوص حالات اور شرائط کے مطابق ایک طلاق دے؛ تاکہ فریقین کے درمیان نظر ثانی کی راہیں وَا رہیں۔

قرآن وحدیث کی ان تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان کے ادارے کو بچانے کے سلسلے میں اسلامی شریعت کس قدر حساس ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں لوگ آغاز ہی تین طلاقوں سے کرتے ہیں اور جب ان کے حواس بحال ہوتے ہیں اورعقل ٹھکانے لگتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ لٹ گیا ہے پھر مختلف فقہی مذاہب کے دروازے پر دستک دے کر علما کے سامنے دست بستہ واپسی کی راہیں معلوم کرتے پھرتے ہیں۔ جو شخص یک بارگی تین طلاق دیتا ہے وہ قرآن وحدیث کی صریح نص کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے جو یقینا عظیم جرم ہے، کیا یہ مجرم کسی سزا کا مسحق نہیں؟ اگر ایک آدمی ظہار و ایلا وغیرہ کے بعد کفاروں سے گزرکر واپس آسکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ طلاق کے سلسلے میں قطعی نص کی صریح خلاف ورزی کرنے والے کے لیے کوئی تعزیری سزا نہ ہو۔ اگر اس جرم کی سزا مقرر کردی جائے کہ مردوں کو پتہ ہو کہ مجھے دس کوڑے یا ایک سال قید، یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا کچھ نہ کچھ سزا لازماً بھگتنا پڑے گی تو کسی شخص کو بھی اتنا غصہ نہیں آئے گا کہ وہ نصوص قرآنیہ کو پامال کرتا ہوا خاندانی ادارے کو تہ وبالا کردے۔

یہ مذہب اسلام ہی ہے جو طلاق کے ناگزیر فیصلے کے بعد بھی نفرت کی دیوار کھڑی ہونے نہیں دیتا؛ بلکہ مطلقہ عورت کو بھی بہت سے حقوق ملتے ہیں۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کردیا جائے۔ (البقرہ: ۲۴)

آج کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں بھی اگر مطلقہ بیوی اپنے بچوں کی پرورش کررہی ہے تو اسے ہماری عدالتیں صرف بچے کا خرچ دیتی ہیں جب کہ قرآن حکیم ان کو الگ سے اس کا خرچ دلاتا ہے۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا حمل وضع نہ ہوجائے پھراگر وہ تمہارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تواس کی اجرت انھیں دے دو۔ (الطلاق:۶)

یہ بحث ایک نومسلم خاتون ”خوالہ لکاتا“ کی رائے پر ختم کی جاتی ہے جو اس نے اسلامی پردے پر گفتگو کرتے ہوئے دی ہے؛ کچھ عورتیں صرف اس وقت عمدہ پوشاک زیب تن کرتی ہیں جب وہ گھروں سے باہر نکلتی ہیں انھیں یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ گھروں کے اندر کس طرح رہتی ہیں؛ لیکن اسلام میں عورت اپنے شوہر کے لیے دل کش ہونے کی کوشش کرتی ہے اور شوہر بھی اپنی بیوی کے لیے پرُشکوہ اور بارعب نظر آنے کی کوشش کرتا ہے ایک دوسرے سے متعلق اسی قسم کے جذبات ازدواجی زندگی کو پُرلطف اور پُرمسرت بناتے ہیں، کوئی عورت کسی مرد کی توجہ اپنی جانب کیوں مبذول کرانا چاہتی ہے جب کہ وہ ایک شادی شدہ عورت ہے کیا وہ اس بات کو پسند کرتی ہے کہ دوسری عورتیں اس کے شوہر کو اپنی طرف مائل کریں؟ اِس طرح کوئی بھی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام خاندان کے استحکام کے لیے کتنا معاون و مددگار ہے؟ حالیہ دنوں میں اعلیٰ خاندان کی انگریز عورتوں کی مسلم نوجوانوں میں دل چسپی کا محض سبب یہ ہے کہ اسلام کا خاندانی نظام محکم اور پائیدار ہے جو محض نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان ہے اگر آج کی انتہائی بزعم خود ترقی یافتہ اقوام بھی اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہوجائیں تو ان کی بھی تقدیر سنورسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے