تو کیا میاں صاحب عاقل بالغ نہیں ؟

نواز شریف کے لیے شائد اتنا نقصان دہ روزنامہ ڈان کو دیا جانے والا انٹرویو نہیں جتنا ان کی مرضی کے بغیر ہر جانب سے صفائیاں پیش کرنے کا عمل ہے۔ یہ صفائیاں بھی نواز شریف کو اعتماد میں لیے بغیر پیش کی جا رہی ہیں۔لہذا نہ صرف مسلم لیگی قیادت اور اندرونی ڈسپلن کے بارے میں کنفیوژن بڑھ رہا ہے بلکہ اگلے دو ماہ میں یہ پارٹی کس سنگل انتخابی حکمتِ عملی کو اپناتے ہوئے انتخابی اکھاڑے میں کودے گی ؟ اس بارے میں بھی کسی واضح سمت کا فقدان نظر آرہا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب پارٹی وفاداری کی دیواریں نقب کی زد میں ہیں۔

نواز شریف کے کشتیاں جلا کے آگے بڑھنے یا آر پار والے کھڑاک رویے نے نون کی قیادت کے لیے جزوی طور پر وہی صورت پیدا کر دی ہے جو بائیس اگست دو ہزار سولہ کو الطاف حسین کے مقابلے میں ایم کیو ایم پاکستان کی تھی۔

بھائی دراصل یہ کہنا چاہ رہے تھے ، بھائی کی بات کا یہ مطلب نہیں تھا ، بھائی کے بیان کو میڈیا توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے ، ہم بھائی سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان کی خود ہی وضاحت کر دیں وغیرہ وغیرہ۔اس مثال کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نواز شریف نے کوئی اتنا سنگین بیان دیا ہے جو الطاف حسین نے دیا تھا اور وضاحت کی گنجائش ہی نہ چھوڑی تھی۔ بلکہ یہ کہنا مقصود ہے کہ نون کی بحیثیت پارٹی پریشانی کا لیول کم و بیش وہی ہے جو بائیس اگست کو فاروق ستار وغیرہ کا تھا۔

اگر کسی کو صفائی میں کچھ کہنا ہی تھا تو یہ کہہ کر آگے بڑھا جا سکتا تھا کہ یہ نواز شریف کے ذاتی خیالات تو ہو سکتے ہیں ، وہی ان کی بہتر وضاحت کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ اپنے ہر ذاتی خیال کے بارے میں پارٹی کو بھی اعتماد میں لیں۔

مگر کیس اس وقت گنجلک ہوا جب وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس طوفان کی ذمے داری بھارتی میڈیا کو چڑھنے والے بخار اور اس بخار کے پاکستانی میڈیا پر پڑنے والے مبینہ اثرات پر ڈال دی، اس کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ جو میں نے کہا ہے اس میں غلط کیا ہے ؟ ایک کمیشن بناؤ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا اور یہ بھی طے ہو جائے گا کہ کون غدار ہے کون محبِ وطن۔

اب چھوٹے بھائی صاحب بڑے بھیا کی زبان تو پکڑنے سے رہے لہذا انھوں نے ساری ذمے داری اس شخص پر ڈال دی جس نے اس انٹرویو کا اہتمام کیا۔وہی شخص ہے جو نواز شریف کا بدترین دشمن ہے۔ اس شہبازی صفائی نے مزید سوالات کھڑے کر دیے۔پہلا یہ کہ ایسا کون سا صحافی یا سہولت کار ہے جو نواز شریف کے لیول کی کسی شخصیت کو ان کی مرضی کے بغیر انٹرویو کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

سوالات تو یقیناً صحافی کے ہیں کیا جوابات بھی صحافی کے ہی ہیں ؟ کیا نواز شریف کا بھی یہی خیال ہے کہ انھیں کسی بدترین دشمن نے انٹرویو کی جانب دھکیلا ؟ جس بدترین دشمن کی جانب شہباز شریف نے اشارہ کیا اس نے نواز شریف کو مسمرائز کر کے اپنی مرضی کے جوابات نکلوا لیے ؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف چہار جانب کے دباؤ کے سبب جس ذہنی کیفیت سے گذر رہے اس میں وہ اپنے تئیں بغیر کسی گائیڈ کے انٹرویو دینے کے قابل نہیں رہے اور ان دنوں انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے ؟

اور جو لوگ حمایت کر رہے ہیں کہ میاں صاحب نے ایسا کیا غلط کہہ دیا کہ سب ان کے پیچھے لٹھ لے کے پڑگئے؟ وہ ننھے بچے تو نہیں ہیں۔تین بار وزیرِ اعظم رہنے والا شخص کاروبارِ مملکت کا ایک ایک راز ، کمزوری اور طاقت جانتا ہے۔

اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ کس کا کس معاملے میں کیا کردارہے۔اس نے بطور وزیرِ اعظم شائد باقیوں کو یہ سمجھانے کی بھی کوشش کی ہو کہ ہم جس راستے اور پالیسیوں پر چل رہے ہیں وہ ہمارے خیال میں بھلے قومی راز ہوں مگر دنیا میں ہر وہ شخص یا ملک جو ہماری پالیسی کے پیندے تک پہنچنا چاہتا ہے اسے یہ قومی راز ایسے ہی نظر آرہے ہیں جیسے کہ شفاف پانی کے تالاب کی تہہ میں بیٹھی رنگ برنگی مچھلیاں۔لہذا ہم دنیا کو نہیں اصل میں خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ہمارے دشمن ہماری تاویلیں سن کر قہقہے لگاتے ہیں اور ہمارے دوست زیرِ لب مسکراتے ہیں۔ لہذا دنیا کو بدلنے کے بجائے خود کو بدلیں۔

سیاست میں آپ نے پہلے کیا کیا تیر مارے اس کی اہمیت نہیں۔اس وقت آپ کیا کر رہے ہیں اس کی اہمیت ہے۔کیا احمدیوں کو اقلیت قرار دینا،ایٹمی پروگرام شروع کرنا ، نوے ہزار قیدیوں کو گھر واپس لانا، اسلامی کانفرنس منعقد کرنا بھٹو کو پھندے سے بچا پایا ؟

جب شہباز شریف یا شاہد خاقان عباسی نواز شریف کی وکالت میں کہتے ہیں کہ انھوں نے ایٹمی دھماکے کیے ، پاکستان کو کرگل کی ہزیمت سے نکالا ، موٹرویز بنائے ، سی پیک لائے، لوڈ شیڈنگ کے خلاف جہاد کیا ، میٹرو اور اورنج لائن بچھائیں وغیرہ وغیرہ۔ان سے زیادہ حب الوطن کون ہوگا ؟ اس طرح کی خدمات یاد دلا کر آپ نواز شریف کو موجودہ گرداب سے کیسے نکال سکتے ہیں ؟ کیونکہ جو بھی گیم ہو رہی ہے وہ ماضی کی بنیاد پر نہیں حال کی شطرنجی بساط پر کھیلی جا رہی ہے۔اور اسے انھی مہروں سے کھیلنا ہے جو پٹنے سے بچ گئے ہیں۔

اب دو راستے ہیں ؟ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے الیکشن کا سامنا کریں اور اس کے نتیجے میں جو روکھی سوکھی ہاتھ آئے اگلے پانچ برس اسی پر گذارہ کریں۔یا پھر یہ نعرہ بنائیں کہ نواز شریف نے جو کہا اس میں الفاظ کے چناؤ میں تو غلطی ہو سکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ داخلہ ، خارجہ اور علاقائی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کی ضرورت نہیں۔ جب تک گھر ٹھیک نہیں ہوگا تب تک کچھ ٹھیک نہیں ہو گا۔

ممکن ہے کہ یہ نیریٹو بھی انتخابات میں بہت زیادہ نہ چل سکے لیکن ہر سیاسی انویسٹمنٹ محض آج کے لیے تو نہیں ہوتی۔آج نہیں تو کل بھلے کوئی بھی اقتدار میں ہو اگر ریاست کو آگے بڑھنا ہے اور دنیا پر اپنے اعتماد کو بحال کرنا ہے تو اس وقت مسلم لیگ ن یہ کریڈٹ لے سکے گی کہ ’’پالیسیاں بدلیں گی تو پاکستان بدلے گا‘‘ کا نعرہِ مستانہ ہم ہی نے لگایا تھا۔مگر یہ مشورے ڈال پر بیٹھے گھبریلو یا موقع شناس پرندوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتے کہ جن کا گذر بسر ہی سیاسی دھاڑی لگنے پر ہے۔بھلے ٹھیکیدار کوئی بھی ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے