خونریزی سے بچاؤ کے لئے ایک تجویز

ہم اگلے انتخابات میں بندربانٹ کے لئے ماردھاڑ اور گالم گلوچ میں مصروف ہوگئے۔ سب یہ سمجھ بیٹھے ہیں اور بہت غلط سمجھ بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ ختم ہوگیا۔

حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ۔ نئی صف بندی کے لئے وقتی خاموشی ضرور آئی ہے لیکن دہشت گردی کے بنیادی عوامل ختم ہر گز نہیں ہوئے ۔دہشت گردی انتہاپسندی سے جنم لیتی ہے اور انتہاپسندی پاکستان میں کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے ۔

قبل ازیں ہمیں سلفیوں اور دیوبندیوں کے بعض حلقوں کی انتہا پسندی کا سامنا تھا لیکن اب چند بریلوی حلقے بھی اس طرف مائل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو مذکورہ دونوں حلقوں سے زیادہ بڑا چیلنج ثابت ہوسکتے ہیں۔ مذہبی کے ساتھ اب لسانی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر بھی انتہاپسندی جنم لے رہی ہے اور ظاہر ہے کہ ہر انتہاپسندی کا منطقی نتیجہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں بدامنی کے ایک بنیادی عامل یعنی افغانستان کے حالات ٹھیک تو کیا ہوتے مزید خراب ہورہے ہیں ۔وہاں ایسی تباہی آتی نظر آرہی ہے کہ خاکم بدہن ہم ماضی کی تباہیوں کو بھول جائیں گے ۔

حکومتی سطح پر الزامات میں کمی ضرورآئی ہے لیکن افغانستان کے اندر یہ تاثر بدستور قائم ہے کہ افغان بدامنی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے ۔دوسری طرف افغان سرزمین کاپاکستان کے خلاف استعمال بدستور جاری ہے اور وہاں براجماں ہندوستانی لابی نئی صف بندیوں اور نئی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ مشرق وسطیٰ سے بھی عسکریت پسند وں کی واپسی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے ۔ افغانستان کے شمال میں ازبک اور تاجک عسکریت پسند داعش کے نام پر سرگرمیاں بڑھارہے ہیں تاہم داعش کا زیادہ زور پاکستان سے متصل افغان علاقوں میں ہے ۔ اس سے بڑا المیہ افغان حکومت کا اندرونی انتشار ہے ۔

تین سالہ التوا کے باوجود پارلیمانی انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹیں پیش آرہی ہیں ۔ افغان صدرڈاکٹر اشرف غنی، ان کے نائب صدر رشید دوستم اور چیف ایگزیکٹو کے اختلافات بڑھ رہے ہیں بلکہ رشید دوستم تونائب صدر ہوکر بھی اپنی حکومت کے خوف سے بیرون ملک جاکر بیٹھ گیا ہے ۔جبکہ افغان سیاست میں لسانی تعصبات کا اثر بھی نمایاں ہورہا ہے ۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے امریکہ کی پالیسی کی سمت معلوم نہیں ۔وہ پاکستان سے تعاون بھی چاہتا ہے لیکن اس سے دشمنی پر بھی اتر آیا ہے ۔

افغانستان میں اسے روس کی مدد درکار ہے لیکن دوسری طرف اس کے خلاف بھی سازشوں میں مصروف ہے ۔ روس سمجھتا ہے کہ شمالی افغانستان میں داعش کو امریکہ کی زیرسرپرستی اس کے لئے مضبوط کیا جارہا ہے جس کے جواب میں وہ طالبان اور دیگر گروپوں کو بطور پراکسی استعمال کرنے لگا ہے ۔ ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی دوبارہ خرابی کی وجہ سے اب افغانستان میں ان دونوں ممالک کی پراکسی جنگ بھی مزید شدت اختیار کررہی اور جنوبی افغانستان میں طالبان کی حالیہ کارروائیوں کو ایرانی انٹیلی جنس کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے ۔

یوں افغانستان سے کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں مل رہی اور ظاہر ہے کہ وہاں کے اثرات یا پھر وہاں کے حالات کے ردعمل سے پاکستان کا سردست محفوظ رہنا مشکل نظر آتا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ افغانستان میں براجماں پاکستان مخالف گروپوں نے اگلے انتخابات کے تناظر میں تیاری کے لئے خاموشی اختیار کی تھی اور کسی بھی وقت وہ دوبارہ پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہوسکتے ہیں ۔

افغان طالبان نے سردی ختم ہوتے ہی افغانستان میں ’’الخندق آپریشن‘‘ کے تحت کارروائیوں کا آغاز کرکے افراتفری پھیلادی ہے اور لامحالہ جوں جوں ان کی کارروائیاں بڑھیں گی توں توں پاکستان کے اندر ردعمل میں بھی اضافہ ہو گا ۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر لسانی بنیادوں پر جو لاوا پھٹ پڑا ہے اس کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کی گرفت بھی کافی کمزور ہوگئی ہے اور اس سختی کے ساتھ اب دہشت گردوں کا راستہ نہیں روکا جاسکے گا جس طرح گزشتہ چند سالوں میں روکا جارہا تھا۔ اس بات کا بھی خدشہ موجود ہے کہ ان علاقوں میں اب مذہبی کے ساتھ ساتھ لسانی بنیادوں پر بھی عسکریت پسندی اور اس کے خلاف سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کا آغاز ہو۔

یہ سب کچھ ایسے عالم میں ہوگا یا ہورہا ہے کہ جب امریکہ کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیںاور ہندوستان مغربی سرپرستی مل جانے کے بعد غرارہا ہے ۔ دوسری طرف گزشتہ چند ماہ کے دوران ہماری وزارت خارجہ کی کارکردگی بوجوہ ناگفتہ بہ رہی اور ہم ان چیلنجز کے مقابلے کے لئے داخلی محاذ پر کوئی تیاری کرسکے اور نہ خارجہ محاذ پر ۔

میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ آرمی چیف بنتے ہی جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے معاملے پر خصوصی توجہ دی ۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ اپنے پیش روئوں کے برعکس وہ کھلے دل کے ساتھ غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور افغانستان کے حوالے سے بھی ماضی کی غلطیوں کا دفاع کرنے کی بجائے انہوں نے اصلاح کی کوششیں شروع کردیں جن میں سے بعض سے میں ذاتی طور پر آگاہ ہوں۔ اپنی اس سوچ اورذاتی کوششوں کی وجہ سے انہوں نے افغان سفیر ڈاکٹر عمرزاخیلوال جو افغان صدر کے خصوصی نمائندے بھی ہیں، کا اعتماد بحال کرایا۔ ڈاکٹراشرف غنی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے میاں نوازشریف اورجنرل راحیل شریف پر حد سے زیادہ اعتماد کیا اور ان کے بقول (میری ذاتی رائے میں اس میں افغان سائیڈ سے بھی بعض غلطیاں ہوئیں) پاکستان کی خاطر داخلی محاذ پر غیرمقبول بن جانے کے باوجود میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے ان کے ساتھ وعدے پورے نہیں کئے ۔

یوں وہ دوسری انتہا پر جاچکے تھے اور دوبارہ کسی قسم کے انگیج منٹ پر تیار نہیں تھے تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ اور افغان سفیر کی کوششوں سے وہ دوبارہ باہمی رابطوں کی بحالی پر آمادہ ہوگئے ۔ اب الحمد للہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ دونوں ممالک افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈیرٹی (APAPPS) بنانے پر تیار ہوگئے ۔ اس ایکشن پلان کے تحت چھ ورکنگ گروپس بنیں گے جن میں اہم ترین سیکورٹی اداروں کا ورکنگ گروپ ہے جبکہ اس سے بڑی پیش رفت یہ ہے کہ دونوں ممالک کی افواج میں کوآرڈینیشن بہتر بنانے اور ایک دوسرے کے اقدامات کی تصدیق کے لئے دونوں ممالک میں آرمی کے لیزان آفیسر تعینات ہوں گے ۔

اس پیش رفت نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری اور امن کی بحالی کے لئے ایک نیا دروا کردیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی بھرپور کوششوں کے باوجود افغان طالبان اب بھی افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں ۔ طالبان امریکہ سے براہ راست مذاکرات پرتو تیار ہیں لیکن امریکہ ان سے براہ راست مذاکرات کی بجائے افغان حکومت سے مذاکرات پر زور دے رہا ہے ۔ جبکہ خود افغان حکومت کا بھی امریکہ سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ طالبان سے براہ راست مذاکرات نہ کرے ۔ اب یہ گتھی سلجھانا دونوں ملکوں کی قیادت کے لئےبڑا چیلنج ہے ۔

اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس وقت جو سیاسی انتشار افغانستان میں ہے اور جس طرح ٹکرائو اور سیاسی کدورت کی فضا پاکستان میں ہے ، اس کے ہوتے ہوئے دونوں ممالک ورکنگ گروپس کے ضمن میں ایک دوسرے کی توقعات پر کیسے پورا اتریں گے ۔ہم جانتے ہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اس لئے ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا کیونکہ یہاں دھرنوں کا معاملہ گرم ہوگیا جس کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور فوج دونوں داخلی محاذ پر الجھ گئے ۔ اب بھی خدشہ ہے کہ سیاسی ہلے گلے اور اداروں کے تنائو کے چکر میں کہیں ہم دوبارہ افغانستان کو مایوس نہ کردیں ۔

یہی خدشہ افغانستان کی طرف بھی ہے کہ افغان حکومت کی صفوں میں برپا انتشار اور بیرونی ایکٹرز کے ہوتے ہوئے وہاں کی حکومت پاکستان کے توقعات پر کیسے پورا اترے گی ۔ اس لئے کسی ایسے میکنزم کی ضرورت ہے کہ دونوں ممالک کے داخلی سیاسی عوامل ا س باہمی پروسس کو متاثر نہ کریں ۔ اس ضمن میں میری ایک تجویز ہے کہ پاکستان سائیڈ اپنی طرف سے افغانستان کے معاملات کے لئے ایک طاقتور اور بااختیار خصوصی ایلچی مقرر کرے اور یہی کام افغانستان بھی کرے ۔ دونوں ایلچی ہمہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔

وہ اپنے اپنے ممالک میں دوسرے ملک کی توقعات اور خدشات کے تناظر میں اداروں اور ورکنگ گروپس کے مابین کوآرڈینیشن کاکام کریں اور اگر داخلی عوامل کی وجہ سے شخصیات یا ادارے عدم توجہی کا شکار ہورہے ہوں تو وہ ان کو متوجہ کرتے رہیں۔ اسی طرح کسی بھی جانب سے کوئی شکایت آجانے کی صورت میں وہ بروقت ازالے کی کوشش کریں اور ظاہر ہے یہ کام معمول کے سفیر یا دفتر خارجہ کے بیوروکریٹک چینل سے نہیں ہوسکتے ۔ ایلچی یا کوآرڈینیٹر جو بھی ہو ، وہ اتنا مضبوط اور طاقتور ہونا چاہئے کہ وہ ہمہ وقت دونوں اطراف کی طاقتور شخصیات اور اداروں سے بات کرسکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے