ہجرت کے آداب اور تاریخ کی چک پھیری

ہماری تاریخ تو گویا بیوہ کی جوانی ٹھہری، موسموں کے آنے جانے میں اس دکھ کا مداوا تو ممکن نہیں جو پس عمر رواں ٹھہرا ہوا ہے۔ کچھ وقفے البتہ ایسے ضرور مل جاتے ہیں جہاں، بقول فراق گورکھپوری، ذہن سانس لیتا ہے۔ تاہم آج کل قوم اوبھی اوبھی سانسیں لے رہی ہے۔ یاد رہے کہ حالات کا تقاضا ان دنوں یہ بھی ہے کہ سانس لوں تو فضا کو دھواں دھواں نہ کروں۔ اس لئے پہلے کچھ ذکر ڈاکٹر ذاکر حسین کا ہو جائے۔

ہم میں سے ہر ایک کے شخصی دائرے میں کچھ افراد ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کا نام لینے سے تکان دور ہوتی ہے، جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ مجھ سے پوچھئے تو پچھلے سو برس کے مسلم ہندوستان میں مجھے ڈاکٹر ذاکر حسین کی ذات سے محبت ہے۔ علم، دانش، کردار، حریت اور زندہ دلی کا ایسا امتزاج چشم فلک نے کم دیکھا ہو گا۔ نوجوان نسل کے لئے رسمی تعارف کیا ہو گا یہی کہ 1897 میں پیدا ہوئے۔ 1969ء میں رخصت ہو گئے۔ بھارت کے تیسرے صدر تھے۔ مگر یہ تعارف ایسا ہی ہے جیسے کسی کو یہ بتانا کہ سمندر میں بہت سا پانی پایا جاتا ہے۔

ذاکر صاحب جن دنوں علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے تو بھی انہیں طالب علم کی بجائے استاد ہی سمجھا جاتا تھا۔ ترک موالات کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اس ضمن میں موافق رائے نہیں رکھتے تھے۔ علی برادران علی گڑھ تشریف لائے، ذاکر حسین طلبہ کی صف میں تشریف فرما تھے لیکن اس مجلس کی غایت سے قطعی بیگانہ۔ علی گڑھ کالج کی نیو برطانوی راج سے وفاداری پر اٹھائی گئی تھی۔

درسگاہ کا مجموعی ماحول مراعات یافتہ طبقے کی مصلحت کوشی کا آئینہ دار تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے خطابت کے جوہر دکھائے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ علی برادران، علی گڑھ کے طلبہ میں تلاطم پیدا نہیں کر سکے۔ مولانا شوکت علی صورت حال بھانپ گئے دونوں ہاتھ اٹھا کر فارسی کا فرسودہ شعر پڑھا، سپردم بتو مایہ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را۔ دوسرا مصرعہ پڑھتے ہوئے دونوں ہاتھ کچھ اس مایوس وارفتگی سے نیچے لائے گویا اپنے فرض سے سبکدوشی کا اظہار کر رہے ہوں۔ رشید احمد صدیقی نے دیکھا کہ ذاکر حسین کی آنکھوں سے اشک رواں ہیں۔ فرمایا "رشید صاحب الوداع۔

زندگی کا آغاز بخیر ہوا ہے، انجام کی دعا کیجیے”۔ رشید احمد صدیقی نے پوچھا کہ آپ تو اس تحریک سے متفق نہیں تھے۔ پھر یہ کیا ہوا؟

فرمایا میرے دلائل اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ کل آنے والے یہ خیال کریں کہ جب سخت امتحان درپیش تھا تو ذاکر حسین نے مقاومت کی بجائے دلیل کی آڑ لے لی۔ یہ ذاکر حسین کے اس سفر کا آغاز تھا جس میں جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ جرمنی سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ کر کے واپس آئے تو ایک سو روپے ماہوار پر برسوں جامعہ ملیہ کے پرنسپل رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے، صوبہ بہار کے گورنر رہے، بھارت کے صدر منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین آشفتہ طبع نہیں، معاملہ فہم تھے لیکن زیاں کا معاملہ کرنا اور اس پر قائم رہنا جانتے تھے۔ 1919ء میں کون جانتا تھا کہ ہندوستان کب آزاد ہو گا؟ نیز یہ کہ آزادی کا مرحلہ کن قیامتوں کے ہم رکاب آئے گا۔ جنہیں قوم کی تعمیر کرنا ہوتی ہے، وہ قدم نہیں گنتے اور مالیات کی میزان پہ نگاہ نہیں کرتے۔

ہمارے ملک میں ایک جملہ کثرت استعمال سے پامال ہو چکا۔ "قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم زیادہ مدت تک نہیں جیے، اگر زندگی انہیں مہلت دیتی تو شاید ہمارا سفر آسان ہو جاتا”۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم قریب بہتر برس کے ہو چکے تھے اور تپ دق سے ان کے پھیپھڑے جواب دے چکے تھے۔ دوسری طرف دیکھئے، گاندھی جی تو جنوری 1948 میں رخصت ہو گئے۔ آئین سازی سے لے کر جمہوری عمل کے استحکام تک بھارت نے معمولی اونچ نیچ کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔

قائد اعظم کا قضائے الہٰی سے رحلت پا جانا ہماری مشکلات کا حقیقی سبب نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پہ مسلم لیگ کی تنظیمی اور فکری بنیادیں کمزور تھیں۔ قائد اعظم پاکستان میں تیرہ مہینے زندہ رہے۔ اس مختصر مدت میں بھی بابائے قوم سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکے تھے۔ استخلاص وطن کی جدوجہد کے آخری مرحلوں میں ریاستی اہلکاروں کے ازلی کاسہ لیس جس عجلت میں مسلم لیگ کا حصہ بنے تھے یہ بالکل واضح تھا کہ ان کی بڑی تعداد پیوستہ مفادات کے تحفظ کے لیے اقتدار میں شرکت کی خواہشمند تھی۔ زرعی اصلاحات کے قضیے کو دیکھ لیجیے، سب معاملہ کھل جائے گا۔

سرحد میں پیر مانکی شریف اور قیوم خان، پنجاب میں ممدوٹ، دولتانہ اور میاں باری، سندھ میں کھوڑو، پیرزادہ اور غلام حسین ہدایت اللہ، بلوچستان میں خان آف قلات اور مشرقی بنگال میں سہروردی، ناظم الدین اور نورالامین… ناموں کی اس کہکشاں کو کاغذ پہ رکھ کے دیکھئے تو اس میں جمہوریت پسندی کی بجائے جمہوریت سے خوف کا زائچہ برآمد ہوتا ہے۔

دستور سازی کے ضمن میں کوشش یہی تھی کہ جہاں تک ممکن ہو تعویق اور التوا سے کام لیا جائے۔ ہسپانوی مصور فرانسسکو گویا نے اپنی تصویر پہ عنوان جمایا تھا، ‘‘جہاں عقل و خرد کو اونگھ آ جائے، وہاں عفریت جنم لیتے ہیں۔’’ ہمارے ملک میں یہ مخلوق چوہدری محمد علی، غلام محمد اور اسکندر مرزا کی صورت نمودار ہوئی اور پھر منطقی طور پر طاقت کا مرکزہ افسر شاہی کے قلم سے عساکر کی بندوق کو منتقل ہو گیا۔ جن بلاؤں کو میر سنتے تھے ان کو اس روزگار میں دیکھا۔

قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مسلم لیگ کو پاکستان میں حکومت کا ابدی استحقاق حاصل ہو گیا ہے لیکن ہماری تاریخ کے ابتدائی برسوں میں یہی دلیل اختیار کی گئی۔ ہندوستان کی تقسیم ایک آئینی اور سیاسی معاملہ تھا۔ سیاست میں اختلاف رائے ناگزیر ہے لیکن ہم نے ہر مخالف رائے کو غداری قرار دیا۔

جمہوریت میں ریاست سے وفاداری اور آئین کی پاسداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اگر ریاست کی بجائے کسی فرد، گروہ یا نقطہ نظر سے وفاداری کا تقاضا کیا جائے تو آمریت جنم لیتی ہے۔

کیا ہم نے راتوں رات ریپبلکن پارٹی میں شامل ہونے والوں سے سوال کیا کہ وہ کس سیاسی نقطہ نظر اور قومی تعمیر کے کس پروگرام کو لے کر اسکندر مرزا کی چھتری تلے جمع ہو رہے ہیں؟ کیا ہم نے کنونشن لیگ بنانے والوں سے سوال کیا کہ آپ کو بابائے قوم کے سیاسی تصورات اور ایوب آمریت میں کیا قدر مشترک نظر آئی؟ مشرقی پاکستان میں ضمنی انتخابات کے ڈھونگ میں اقتدار کی یہی غیر جمہوری کشش کارفرما تھی۔

کیا بھٹو صاحب نہیں جانتے تھے کہ 1977 کے انتخابات سے قبل ہزاروں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والوں کا سیاسی تشخص کیا تھا؟ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد جو مسلم لیگ تشکیل پائی، بنیادی طور پہ آج وہی جماعت مسلم لیگ نواز کہلاتی ہے۔ کیا میاں نواز شریف کو علم نہیں تھا کہ ان کی ذات با برکات میں ایسی کون سی الوہی کشش پیدا ہو گئی ہے کہ وہ راتوں رات قومی لیڈر بن گئے ہیں؟

یہ درست ہے کہ سیاسی عمل اور سیاست دان کی ساکھ بگاڑنے کے لیے منظم کوششیں کی گئی ہیں لیکن اگر بھٹو صاحب جام صادق علی کو، نواز شریف شیخ رشید کو اور بے نظیر بھٹو ذوالفقار مرزا کو پہچاننے میں ناکام رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے سیاسی عمل کے تاروپود کو دانستہ کمزور کیا۔ آج کل اسلام آباد میں ایک خاص رنگ کے پارچے کی بہت مانگ ہے۔ محترم عمران خان ہر آنے والے کے گلے میں کپڑے کا یہ ٹکڑا پہنا رہے ہیں۔

کبوتروں کے غول تیزی سے چھتریاں تبدیل کر رہے ہیں لیکن کسی میں یہ پوچھنے کا یارا نہیں کہ ہم انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں یا گزشتہ سے پیوستہ تمثیل کا اگلا حصہ دیکھنے جا رہے ہیں۔

سنا جا رہا ہے کہ یہ سوال پوچھنے کا موسم نہیں۔ سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے، بولو۔ نیز سمجھو کہ ہجرت واجب ہو گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ضمیر کا قرض کون ادا کرے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے