دشمن مگرمچھ ۔سمجھدار مچھلیاں

میں نے مچھلیاں پکڑنے کے لئے سمندر میں کنڈی ڈالی اور پھرمچھلی کے انتظارمیں سگریٹ سلگا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد کنڈی میں حرکت ہوئی ۔ میں نےفوراً ایک جھٹکے سے اسے اوپرکی طرف کھینچا مگر میں نے دیکھاکہ نہ صرف یہ کہ کوئی مچھلی نہیں پھنسی بلکہ کنڈی کے ساتھ لگا گنڈویا (کینچوا) بھی غائب تھا۔ میں نے ایک اور گنڈویا کنڈی میں پھنسایا اور ڈوری سمندر میں پھینک دی اور ایک دفعہ پھر بگلہ بھگت بن کر بیٹھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے ’’اباسیاں‘‘ آنے لگی تھیں مگر مچھلی تھی کہ پھنسنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔

اتنے میں امید کی ایک ہلکی سی کرن نمودار ہوئی یعنی ڈوری میں ایک بار پھرحرکت پیدا ہوئی۔ میں نے فوراً اسے اپنی طرف کھینچا مگر اس دفعہ بھی نہ صرف یہ کہ اس میں مچھلی کوئی نہیں تھی بلکہ وہ دوسرا گنڈویا بھی غائب تھاجو میں نے کنڈی کے ساتھ اس غرض سے پھنسایا تھا کہ یہ مچھلی کی خوراک بنے گا اور اس کے ذریعے مچھلی میری خوراک بنے گی۔ اب مجھ پرجھنجھلاہٹ سی طاری ہونے لگی تھی۔

ایک تو اس خیال سے کہ اتنی دیرمیں کوئی مچھلی نہیں پھنسی تھی اور دوسرے یہ سوچ کر کہ مچھلیاں مجھے بیوقوف بنا رہی تھیں۔ وہ اس صفائی سے گنڈوئے پر ہاتھ صاف کرتی تھیں کہ خود کنڈی کی زد میں آنے سے بچ جاتی تھیں بلکہ تیسری دفعہ جب ڈوری میں حرکت ہوئی اور میں نے اسے اپنی طرف کھینچا تو مجھے مچھلیوں کے ہنسنے کی آواز بھی آئی۔ مجھے ان کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا اور مجھے یوں لگا جیسے وہ سب مل کر میری توہین کر رہی ہوں۔

میں نے ایک بار پھراپنے غصے پر قابو پایا۔میں دراصل جان گیا تھاکہ غصے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے اس کا سیاسی حل تلاش کرناشروع کیا اورتھوڑی دیر بعد میں یہ حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں نے ڈوری دریامیں سے نکالی۔ اسے اپنے تھیلے میں بند کیااور مترنم آواز میں گانا شروع کردیا۔

ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی کتنا پانی

مجھے یوں لگا جیسے یہ گیت میرے علاوہ کسی نے نہیں سنا حتیٰ کہ اس جنگل میں اس کی بازگشت بھی سنائی نہ دی۔ میں نے ایک بار پھر اپنا سارا ترنم یکجاکیااور آواز میں سوزپیدا کرتے ہوئے کہا۔

ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی کتنا پانی
مگراس بار بھی سمندر میںمکمل خاموشی تھی۔

تیسری بار میری آواز میں واقعی غم کا عنصر پیدا ہوگیا اور یہ غم احساس شکست کی وجہ سے پیدا ہواتھا چنانچہ جب میں نے اس دفعہ

؎ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی کتنا پانی
کہا تومیری آنکھوں میں آنسو بھی تھے۔

اتنے میں، میں نے دیکھا کہ ایک مچھلی دریاکی سطح پر نمودارہوئی۔ اس نے کچھ دیر کے لئے غور سے میری طرف دیکھااور پھر کھڑکھڑ کرہنسناشروع کردیا۔

جب وہ کھل کر ہنس چکی تو اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’یہ تم کیا بے معنی ساگیت گا رہے ہو۔

تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ تم اس قسم کے رجعت پسندانہ سلوگنز سے اب ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتے۔‘‘ میں نے اس مچھلی سے کہا ’’میں نے تمہاری بات سن لی ہے لیکن اگر تم میری بات بھی سن لو توشاید ہم کسی نتیجے پرپہنچ جائیں۔‘‘ پیشتراس کےکہ یہ مچھلی کوئی جواب دیتی ایک اورمچھلی نے پھدک کرپانی سے اپنا سر باہر نکالا اور کہا ’’تمہارے قول اور فعل میں تضاد ہے۔ ایک طرف تم ہرا سمندرکہہ کرہمیں امن اور سلامتی کا تصور دے رہے ہو مگر دوسری طرف تم ہمیں شکارکرنے کےلئے کنڈی بھی سمندر میں ڈالتے ہو۔ ‘‘

میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے اس مچھلی سے کہا ’’میںنے تمہاری بات سن لی ہے لیکن اگر تم میری بات بھی سن لو تو شاید ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں ‘‘ مگراس نےپانی میں غوطہ لگایا اور سمندر کی تہہ میں چلی گئی اوراس کے ساتھ دوسری مچھلی بھی غوطہ لگا کر نظروں سے غائب ہوگئی۔

اب میرے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھاکہ میں ان نافرمان مچھلیوں کو ان کے کئے کی پوری سزا دیتا چنانچہ میں نے کنڈی کو تھیلے میںہی رہنے دیا اور اور اس کی جگہ ایک بڑا ساجال نکال کر سمندر میں پھینک دیا اور ایک دفعہ پھر سگریٹ لگا کر مچھلیوں کے پھنسنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ سمندر میں سے کھسرپھسر کی آواز یں آرہی ہیں اورپھریہ آوازیں بلند ہوتی چلی گئیں۔ مگر پھر رفتہ رفتہ یہ آوازیں مدھم ہونا شروع ہوئیں حتیٰ کہ سمندر میں مکمل خاموشی چھاگئی۔

مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہر طرف سناٹوں کاراج ہے حتیٰ کہ مجھے ان سناٹوں سے خوف آنےلگا۔ اتنے میں جال میں حرکت ہوئی۔ میرا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا میں نے فوری طور پرپوری قوت سے جال کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی مگر میں نے محسوس کیاکہ جال کی دوسری طرف مجھے کوئی کھینچ رہاہے۔ میں نے ایک دفعہ پھر اپنی ساری قوتیں مجتمع کیں مگرمیر ےپائوں زمین سے اکھڑ رہے تھے۔

پیشتر اس کے کہ میں ایک جھٹکے کے ساتھ سمندر میں جاگرتا لاکھوں مچھلیاںسطح آب پر نمودارہوئیں اور انہوں نے بیک آواز کہا ’’تم اگر اپنی اورہم سب کی سلامتی چاہتے ہو تو جال کا یہ سرا جوتمہارے ہاتھ میں ہےفوراً چھوڑ دو۔‘‘ میں نے اپنی انا کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے اپنے لہجےمیں خوداعتمادی پیدا کرتے ہوئےکہا۔

’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘اس پر ان بے شمارمچھلیوں میں سے ایک مچھلی پانی پر سے پھدک کر ساحل کے قریب پہنچی اور کہا میں ان لاکھوں مچھلیوں کی طرف سے جو اس وقت سطح آب پرمیرے ساتھ ہیں تم سے ہاتھ جوڑ کر التماس کرتی ہو کہ تم جال کا یہ سرا جو تمہارےہاتھ میں ہے فوراً چھوڑ دو کہ اس میں تمہاری سلامتی ہے۔‘‘ مجھے اس مچھلی کے لہجے میں ایک عجیب سااضطراب نظر آیا۔ میں نے پوری قوت سے زمین میں اپنے قدم گاڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’یہ تم بار بار میری اوراپنی سلامتی کا مشترکہ ذکرکیوںکر رہی ہو؟‘‘

اس پر اس مچھلی نے مزید مضطرب انداز میں کہا ’’باتوں کے لئے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ تم وہی کرو جو میں کہہ رہی ہوں کیونکہ جال کے اس طرف تم اور جال کی دوسری طرف اس سمندر کا سب سے بڑا مگرمچھ ہے۔ ہم میں سے کچھ نادان مچھلیوں نے اس کی مدد طلب کی ہے۔ مگر یہ نہیں جانتیں کہ یہ مگرمچھ جو ان کا غم خوار بن کر انہیں اپنے قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے تم سے نجات دلانے کے چکر میں یہ ہم سب کو کھا جائےگا۔ سمندر کے دوسرے کنارے کی مچھلیوں کواس مگرمچھ کا تجربہ ہوچکاہے اور ہم نہیںچاہتیں کہ یہ تجربہ اس کنارےپر بھی دہرایا جائے۔‘‘

یہ سن کر مجھے یوںمحسوس ہوا جیسے جال پرمیری گرفت کمزور ہو رہی ہے اور پھر میں نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیئے۔اس بار یوں لگا جیسے سمندر میںزلزلہ آگیا ہو،پانی کی تندو تیزموجیں ساحل سے اپنا سر ٹکرانے لگیںاور پانی ساحل سے باہر پہنچنے لگا۔ سمندر میں طوفان سا آگیا تھا۔

مگرکچھ ہی دیر بعد اس طوفان میں کمی آگئی۔
لہریں پرسکون ہونا شروع ہوئیں اورسمندر اپنی روٹین کےمطابق بہنے گا۔ میں نے مچھلیاں شکارکرنے والاجال سمندر میںپھینکا اور پھر واپس گھرکوجاتے ہوئے ایک دفعہ ہولے سےکہا

ہرا سمندر گوپی چندر

بول میری مچھلی کتنا پانی

اس پر لاکھوں کروڑوں مچھلیاں ایک بار پھر سطح سمندر پر نمودارہوئیں اور انہوں نے خوشی سے بھری ہوئی آواز میں اپنے ہاتھوں کومشرق اورمغرب کی طرف پھیلاتے ہوئے کہا ’’اتنا پانی‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے