گیم تھیوری اور انتخابات

مثال قدرے پیچیدہ ہے ۔فرض کریں ایک شخص کو پولیس رنگے ہاتھوں منشیات فروخت کرتے ہوئے گرفتار کرتی ہے، اس کا نام الف تصور کر لیں، اسی روز پولیس ایک علیحدہ چھاپے میں دوسرے شخص کو بھی رنگے ہاتھوں منشیات فروخت کرتے ہوئے گرفتار کرتی ہے، اس کا نام ب تصور کر لیں،دونوں کو ایک دوسرے سے الگ حوالات میں رکھا جاتا ہے، سرکاری وکیل انہیں بتاتا ہے کہ تمہاری کم ازکم دو سال سزا یقینی ہے۔اس دوران معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں صاحبان پچھلے ہفتے ہونے والی ایک ڈکیتی میں بھی ملوث تھے اور اس جرم کو اگر ملا لیا جائے تو سزا دس برس ہو سکتی ہے ۔

اب سرکاری وکیل انہیں سمجھاتا ہے کہ منشیات کی دو سال سزا توپکی ہے البتہ تم میں سے جو ڈکیتی کا اعتراف جرم کر لے گا اسے رعایت مل جائے گی او ر کُل سزا تین برس ہو جائے گی۔ سو صورتحال یوں بنی کہ اگر الف اور ب دونوں اقرار جرم کرلیں تو انہیں تین تین برس جیل کاٹناپڑے گی، اگر دونوں اقبال جرم نہ کریں تو دونوں کو منشیات کے جرم میں دو دو برس قید ہو گی اور اگر الف اقبال جرم کرلے اور ب نہ کرے تو الف کو رعایت ملے گی اور ایک سال جیل ہوگی جبکہ ب کو تعاون نہ کرنے اور جرم ثابت ہونے کی پاداش میں دس سال جیل میں گزارنے ہوں گے، اسی طرح اگر ب اعتراف جرم کر لے اور الف نہ کرے تو الف کو دس سال اور ب کو ایک سال سزا ہوگی ۔بظاہر تودونوں کے لئے وہ صورتحال آئیڈیل ہے کہ دونوں ڈٹے رہیں اور یوں منشیات کیس میں دو دو برس گزار کر چھوٹ جائیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں کیونکہ دونوں علیحدہ علیحدہ حوالات میں بند ہیں،مثلاً الف کو نہیں پتہ کہ ب اقرار کرے گا یا انکار، فرض کریں کہ ب اقرار جرم کرے گا تو اُس صورت میں الف کے لئے بھی اقرار جرم کرنا ہی بہترین آپشن ہے کیونکہ الف کو انکار کی صورت میں دس سال بھگتنا ہوں گے۔

دوسری طرف اگر ب انکار جرم کرے تو پھر بھی الف کے لئے اقرار جرم کرنا ہی بہترین آپشن ہوگا کیونکہ اقرار کی صورت میں ایک سال اور انکار کی صورت میں دو سال قید ہو گی۔پس ثابت ہوا کہ آئیڈیل صورتحال وہ ہوگی جس میں الف اور ب دونوں ایسا فیصلہ کریں (اس مثال میں وہ اقبال جرم ہی ہوگا)جو ہر صورت میں اُن کے لئے فائدہ مند ہو اور اس کا نتیجہ دوسرے کے فیصلے پر(dependent) منحصر نہ ہو۔ اسی کو گیم تھیوری کہتے ہیں۔ یعنی ایسی صورتحال سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنانا جس میں مختلف لوگ اپنے فائدے کے بڑھاوے کے لئے فیصلے کریں اور کسی ایک شخص کے لئے بہترین فیصلہ ایسا ہو جو کسی بھی صورتحال میں کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے قطع نظر اِس سے کہ دوسرے لوگ کیا قدم اٹھاتے ہیں۔اسے امریکی نوبل انعام یافتہ پروفیسر جان نیش کے نام پر Nash Equilibriumکہا جاتا ہے۔ گیم تھیوری کا تصور اِن پروفیسر صاحب نے بدل کر رکھ دیاتھا۔رسل کرو کی فلم A beautiful mindاسی پر بنی ہے ۔

گیم تھیوری کی ایک شکل Reverse Inductionبھی ہے ،فارسی میں اِس ترکیب کا ترجمہ ’’القا ء معکوس ‘‘ ہوگا، اردو کا پتہ نہیں۔اس کی سادہ مثال لیتے ہیں ۔فرض کریں بدقسمتی سے آج آ پ کا دفتر میں بہت مصروف دن ہے، فائلوں کا ڈھیر لگا ہے، کچھ بور قسم کی میٹنگز میں بھی شرکت کرنی ہے،آپ کا اسٹاف بھی کچھ کچھ دیر بعد آ کر آپ سے اہم معاملات میں ہدایات لے رہا ہے، ان حالات میں اگر کوئی بن بلایا ملاقاتی آ جائے جسے آپ ملنے سے انکار نہ کر سکیں اور اُس ملاقاتی نے کم ازکم ایک گھنٹہ آپ کی جان نہ چھوڑنی ہو تو آ پ کیا کریں گے ؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ آج کے مصروف دن میں اسے ایک گھنٹہ دیں اور نتیجے میں اپنا تمام شیڈول درہم برہم کرلیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور اسے کہیں کہ آج ملاقات نہیں کی جا سکتی، اس کا نتیجہ یقیناً اچھا نہیں نکلے گا اور موصوف ہمیشہ کے لئے آپ سے ناراض ہو جائیں گے، تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ فوراً چائے منگوانے کی بجائے پوچھیں کہ سر آپ چائے پئیں گے ،اگر بندہ معقول ہوا تو انکار کرکے جلد جان چھوڑ دے گا مگراِس معقولیت کا امکان کم اور نا معقولیت کا زیادہ ہے، چوتھا طریقہ یہ ہے کہ آپ کہیں سر آپ سے تو گپ لگانے کا بہت مزا آنا تھا مگر آج میری گیارہ بجے میٹنگ ہے اور میرا اسٹاف ایسا نالائق ہے کہ سب کام مجھے خود کرنا پڑتا ہے، غالب امکان ہے کہ اس بیان کے نتیجے میں آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔

یہ تمام کامن سینس کی باتیں ہیں، کوئی راکٹ سائنس نہیں، لیکن اگر ان باتو ں کو باقاعدہ حکمت عملی کا روپ دے کر ایک تھیوری کی شکل میں ڈھالا جائے تو اسے Reverse Inductionکہیں گے، اِس طریقہ کار میں آپ کسی بھی صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ نتائج کا پہلے سے احاطہ کرتے ہیں اور پھر عقلی بنیاد پر ہر نتیجے کی ’’بیک ورڈ ‘‘پڑتال کرتے ہیں کہ بہترین نتیجہ کس حکمت عملی کے تحت نکلے گا۔ یعنی ایک ان چاہے ملاقاتی سے جان چھڑانے کے چار ممکنہ طریقے تھے، آپ نے چاروں کا ممکنہ نتیجہ دماغ میں سوچا اور پھر اُن میں سے ایک پر عمل کیا جس میں ناکامی کا احتما ل سب سے کم تھا۔ یہی گیم تھیوری ہے۔مکان کرائے پر دینے سے لے کر تنخواہ بڑھانے کیلئے مذاکرات کرنے تک اور حیاتیات میں ارتقاء کے تصور کو سمجھنے سے لے کر جنگی حکمت عملی تک سب میں گیم تھیوری کام آتی ہے ۔

تیسری اور آخری مثال۔فرض کریں کہ کسی ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں تو اُس ملک میں سیاسی جماعتیں کیا حکمت عملی اپنائیں کہ انہیں انتخابات میں کامیابی ملے۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ تمام پلیئرز کا تعین کیا جائے، اِن پلیئرز کی استعداد کا اندازہ لگایا جائے، پھر اُن تمام ممکنہ اقدامات کا احاطہ کیا جائے جو یہ پلیئرز مختلف صورتحال میں کرسکتے ہیں، یہ دیکھا جائے کہ کس پلیئر کے کس عمل کی کیا قیمت ہوگی جو اسے چکانا ہوگی، کیا یہ قیمت اُس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال اور ممکنہ فائدے سے کم ہو گی یا زیادہ ہوگی، اگر فائدہ کم ہوگا اور قیمت زیادہ ہوگی تو کیا ایسا عمل کرنا کسی بھی پلیئر کے مفاد میں ہوگا ! اس قسم کے سوالات اور ممکنہ جوابات کی فہرست بنا کر ایک ماڈل ترتیب دیا جا سکتا ہے جس میں ہر پلیئر اس بات کا تعین کرے کہ اُس کے بہترین مفاد میں کیا ہے، اُ س مفاد کو حاصل کرنے کی کیا قیمت چکائی جاسکتی ہے، اس مفاد کو حاصل کرنے کے لئے جب ایسا پلیئر کوئی قدم اٹھائے گا تو اس کا مخالف پلیئر بھی کوئی قدم اٹھائے گا سو ایسی صورتحال میں اُس سے اگلا اقدام کیا ہوگااور اس اقدام کو کیسے رد کیا جائے گا۔مثلاً بحرالکاہل میں واقع ایک جزیرے (اِس سے زیادہ دور میں نہیں سوچ سکتا) کی ایک جماعت اگر انتخاب لڑ رہی ہے تو تین ممکنہ نتائج ہو سکتے ہیں، پہلا، اسے مرکز میں کامیابی ملے، دوسرا، اسے صوبے میں کامیابی ملے اور تیسرا، اسے کہیں بھی کامیابی نہ ملے۔

مخالف پلیئرز چاہیں گے کہ تیسرا نتیجہ آئے، جس کے لئے جواب میں انہیں بھی کچھ اقدام کرنے پڑیں گے، ہر اقدام کی ایک قیمت ہے جو اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا کر انہیں چکانی ہے ۔یہ فیصلہ اب ان پلیئرز کا ہوگا کہ کون کس اقدام کی کتنی قیمت چکانا پسند کرتاہے اور کلیدی بات یہ ہوگی کہ کیا یہ قیمت اس حاصل کردہ نتیجے سے کم ہوگی یا زیادہ ہوگی؟یہی گیم تھیوری ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے