بابا اسکول

آپ اگر بینکاک سے شمال کی طرف سفر کریں تو 80 کلومیٹر بعد تھائی لینڈ کا صوبہ فرانا خون سی اوتھایا (Phra Nakhon Si Ayutthaya) آ جاتا ہے‘ حکومت نے صوبے کی سب ڈسٹرکٹ چیانگ راک نوئی (Chiang Rak Noi)میں ایک دلچسپ تجربہ کیا‘ یہ دنیا کا دلچسپ ترین تجربہ ہے‘ حکومت نے ٹاؤن میں بزرگوں کا پہلا اسکول قائم کر دیا۔

اسکول میں صرف 60 سال سے زائد عمر کے لوگ داخلہ لے سکتے ہیں‘ یہ داخلہ تین ماہ کیلیے ہوتا ہے‘ ہفتہ وار کلاسیں ہوتی ہیں اور تمام بزرگ طالب علم باقاعدہ یونیفارم پہن کر‘ بیگ لے کر اور اسکول کی بس میں بیٹھ کر اسکول آتے ہیں‘ اسکول میں اس وقت30 بزرگ خواتین اور بزرگ حضرات طالب علم ہیں‘ یہ اسکول تنہائی اور بے کاری کے شکار بزرگوں کیلیے جنت ہے۔

دنیا میں لوگ عموماً ساٹھ سال کی عمر کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں‘ یہ اس کے بعد مرنے تک بے کاری کا شکار رہتے ہیں‘ بچے شروع میں والدین کا خیال رکھتے ہیں‘ یہ انھیں وقت بھی دیتے ہیں لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے پاس بھی وقت کم ہوتاچلا جاتا ہے‘ یہ لوگ اپنی پروفیشنل لائف اور بچوں کے بکھیڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور یوں ان کے بزرگ تنہا سے تنہا ہوتے چلے جاتے ہیں۔

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو رہا ہے‘ دوسری جنگ عظیم تک اوسط عمر پچاس سال ہوتی تھی‘ لوگ پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے دوران دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے‘ ساٹھ سال کے بعد تک زندہ رہنے والے لوگ طویل العمر اور خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی انگریز کے دور میں ہندوستان میں ریٹائرمنٹ کی عمر 45 سال تھی‘ ہندوستان کے تمام سرکاری ملازم 45 سال کی عمر میں نوکری سے فارغ ہو کر گھر چلے جاتے تھے لیکن پھر ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔

دنیا میں اس وقت اوسط عمر 72 سال ہو چکی ہے‘ امریکا میں خواتین92سال اور مرد 90 سال تک زندہ رہتے ہیں‘ دنیا میں سو سال سے زائد بوڑھوں کا سب سے بڑا بریگیڈ جاپان میں ہے‘ وہاں سو سال سے زائد عمر کے 67 ہزار 824 لوگ ہیں جب کہ کل آبادی کے 27 اعشاریہ 7 فیصد لوگوں کی عمریں 65 سال سے زیادہ ہیں‘ یہ 3 کروڑ 51 لاکھ اور 40 ہزار لوگ بنتے ہیں چنانچہ آپ اگر کبھی جاپان جائیں تو آپ کو ہر شہر کی گلیوں‘ سڑکوں اور شاپنگ سینٹروں میں بوڑھے ملیں گے‘ ان میں اکثریت بوڑھی خواتین کی ہو گی۔

جاپان میں چند سال پہلے تحقیق ہوئی تو پتہ چلا بڑھاپے میں مرد خواتین کے مقابلے میں جلد فوت ہو جاتے ہیں‘ سو سال سے زائد عمر کے 67 ہزار 824 لوگوں میں خواتین کی تعداد 53 ہزار 700 ہے جب کہ مرد صرف 14 ہزار 124ہیں گویا سو سال تک پہنچ کر دس میں سے 9 مرد فوت ہو جاتے ہیں صرف ایک بچتا ہے جب کہ دس میں سے 9 خواتین سو سال کی دہلیز پار کر جاتی ہیں۔

جاپان کی تحقیق کے مطابق 2040ء تک جاپان میں بزرگوں کی شرح (65 سے اوپر) آبادی کا 35 اعشاریہ 3 فیصد ہو جائے گی گویا ملک میں ایک تہائی لوگ بزرگ اور بیروزگار ہوں گے اور حکومت کو ان کی ’’ٹیک کیئر‘‘ کیلیے اربوں ڈالر درکار ہوں گے‘ تھائی لینڈ بھی جاپان جیسی صورتحال کا شکار ہے‘ تھائی لینڈ کے 75 لاکھ لوگوں کی عمریں 65سال سے زیادہ ہیں‘ یہ تعداد 2040ء تک ایک کروڑ 70 لاکھ ہو جائے گی۔

یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ کے مطابق دنیا میں اس وقت 9 میں سے ایک شخص 60 سال سے اوپر ہے‘ 2050ء تک پانچ میں سے ایک شخص کی عمر 60 سال سے زائد ہو جائے گی‘ یہ تبدیلی سب سے زیادہ ترقی پذیر اور غیرترقی یافتہ ملکوں کو متاثر کریگی‘ ترقی پذیر ملکوں میں اس وقت نوجوان زیادہ ہیں۔

یہ نوجوان ایکسر سائز بھی کرتے ہیں‘ یہ کھانے اور پینے میں بھی احتیاط کرتے ہیں اور یہ پچھلی نسلوں کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار بھی ہیں چنانچہ یہ بڑی آسانی سے ساٹھ سال کی حد عبور کر جائینگے‘ یہ لوگ اگر 80 سال یا 90 سال زندہ رہتے ہیں تو یہ باقی بیس سے تیس سال کیا کرینگے؟ دنیا میں اس وقت ایسے 18 ممالک ہیں جن میں ایک کروڑ سے زائد بزرگ موجود ہیں‘ ان میں سات ملک ترقی پذیر ہیں‘ پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔

پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ 13 لاکھ لوگوں کی عمریں 60 سال سے زیادہ ہیں‘ یہ تعداد کل آبادی کا ساڑھے چھ فیصد بنتی ہے‘ یہ لوگ2050ء تک بڑھ کر 4 کروڑ 35 لاکھ ہو جائینگے اور یہ کل آبادی کا 15اعشاریہ 8 فیصد ہو گا‘ چین‘ بھارت اور فلپائن میں بھی بزرگوں کی تعداد 2050ء تک چار گنا بڑھ جائے گی اور ان تمام لوگوں کو پنشن بھی چاہیے ہو گی۔

صحت بھی‘ گھر بھی اور کیئر بھی اور یہ انھیں کون دے گا؟ دنیا میں اس وقت آبادی‘ بیروزگاری‘ تعلیم اور صحت بہت بڑے مسئلے ہیں‘ آج سے بیس 22 سال بعد بزرگ بھی مسائل کی اس فہرست میں شامل ہو جائیں گے جس کے بعد آپ کو سڑک پر ہر تیسرا شخص بزرگ دکھائی دے گا اور حکومت کو اس بزرگ کی ’’ٹیک کیئر‘‘ کرنا پڑے گی۔

یہ مسئلہ کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ یہ مسئلہ اچھی خوراک‘ مہلک بیماریوں کے علاج اور ’’ہیلتھ اوئیرنیس‘‘ کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے‘ دنیا میں پچھلے چالیس برسوں میں صحت کے ادراک میں اضافہ ہوا‘ لوگ اب ایکسرسائز بھی کرتے ہیں‘ یہ متوازن اور اچھی خوراک بھی کھاتے ہیں‘ یہ بروقت میڈیکل ٹیسٹ کرا کر جان لیوا بیماریوں کا اندازہ بھی کر لیتے ہیں اور یہ ان کا علاج بھی کرا لیتے ہیں چنانچہ لوگوں کی عمریں لمبی ہو رہی ہیں۔

سوال یہ ہے یہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کے اضافی تیس چالیس برسوں میں کیا کریں گے؟تھائی لینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے اس مسئلے کو محسوس بھی کیا اور اس کے حل کیلیے پہلا اینی شیٹو بھی لیا‘ حکومت نے بزرگوں کا پہلا اسکول کھول دیا‘ اسکول سے بزرگوں کی زندگی میں تین بڑی تبدیلیاں آئیں‘ بڑھاپے کا پہلا وار تنہائی ہوتا ہے۔

بوڑھوں کے دوست احباب بیمار ہو جاتے ہیں‘ انتقال کر جاتے ہیں یا پھر ان کی موومنٹ کم ہو جاتی ہے ‘ بچے اپنی زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں چنانچہ بزرگ اکیلے ہو جاتے ہیں اور یہ لکھی پڑھی بات ہے تنہائی انسان کیلیے سب سے بڑی تکلیف ہوتی ہے‘ اسکول نے بزرگوں کو ادھیڑ عمری میں نئے دوست بنانے کا موقع فراہم کر دیا‘ بوڑھے اکٹھے ہوتے ہیں‘ یہ بچوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مکس اپ ہوتے ہیں اور یہ دوستیاں بنانا شروع کر دیتے ہیں۔

بڑھاپے کا دوسرا ایشو ایکٹویٹی کی کمی ہوتی ہے‘ بزرگ نے کہیں جانا نہیں ہوتا‘ یہ سارا سارا دن گھر پر رہ کر بے زار اور چڑچڑے ہو جاتے ہیں‘ یہ ایکٹویٹی پیدا کرنے کیلیے بچوں اور بہوؤں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر یہ ہمسایوں کے ساتھ چخ چخ میں لگ جاتے ہیں‘ اسکول نے بزرگوں کو ایکٹویٹی دے دی‘ یہ اب اسکول کیلیے اٹھتے ہیں‘ یونیفارم پہنتے ہیں‘ بیگ تیار کرتے ہیں۔

چھوٹے بچے کی طرح اسکول بس میں سوار ہوتے ہیں‘ لیکچر سنتے ہیں‘ نوٹس لیتے ہیں اور ہوم ورک لے کر گھر جاتے ہیں‘ یہ اسکول میں بچوں کی طرح اسپورٹس بھی کرتے ہیں اور بڑھاپے کا تیسرا اور آخری ایشو بے مقصدیت ہوتا ہے‘ انسان اپنی زندگی کو بے مقصد اورلایعنی سمجھنے لگتاہے‘ اسکول نے بزرگوں کو زندگی کا مقصد دے دیا‘ یہ اب اسکول سے زندگی کے آخری فیز کو بامقصد بنانے کا آرٹ سیکھ رہے ہیں‘ اسکول آہستہ آہستہ ایسا سلیبس تشکیل دے رہا ہے جو بزرگوں کے بڑھاپے کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنا دے گا۔

بزرگوں کے اسکول نے بوڑھوں کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں برپا کیں یہ آپ سومجیت تیراروج سے سنئے‘ سومجیت کی عمر 77 سال ہے‘ اس کا کہنا ہے ’’میں پورا ہفتہ اسکول کا انتظار کرتی ہوں‘ میں اسکول کے دن یونیفارم پہنتی ہوں‘ بال بناتی ہوں اور اسی طرح تیار ہو کر اسکول کیلیے نکلتی ہوں جس طرح میں بچپن میں جاتی تھی‘ بس میں میرے ساتھ میرے ہم عمر بھی ہوتے ہیں‘ ہم سفر کے دوران بچوں کی طرح ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو چھیڑتے بھی ہیں یوں ہماری تنہائی بھی دور ہو جاتی ہے اور ہم خوش بھی ہو جاتے ہیں‘‘۔

سومجیت کا کہنا تھا ’’میرے خاوند کا انتقال 40 سال پہلے ہو گیا تھا‘ میں نے ملازمتیں کیں‘ اپنے بچوں کو پالا‘ بچے بڑے ہوئے‘ ان کی شادیاں ہوئیں‘ بچوں کے بچے ہو گئے اور یہ اب اپنے بچوں میں مصروف ہو گئے ہیں‘ میں اکیلی ہو چکی ہوں‘ میرے بچے ہفتے میں ایک دن میرے پاس آتے ہیں لیکن میری تنہائی کم نہیں ہوتی‘ اسکول نے میرا اکیلا پن ختم کر دیا‘ میں اب خوش ہوں‘‘ چو جارٹ اسکول کی ایک دوسری طالبہ ہیں‘ چوجارٹ نے اسکول کے آخری دن الوداعی گاؤن پہن رکھا تھا۔

وہ بار بار کہہ رہی تھی ’’بڑھاپے میں ایک ایک دن گن کر زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا‘ میں دن گن گن کر موت کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن پھر میری زندگی میں یہ اسکول آیا اور میں بچپن میں واپس چلی گئی‘ میرے نئے دوست بنے‘ میں نے بے شمار نئی چیزیں سیکھیں اور میں آج بہت خوش ہوں‘‘۔تھائی لینڈ کا یہ تجربہ آنے والے دنوں میں پوری دنیا کیلیے نیا ٹرینڈ بن جائے گا۔

کاش ہمارے ملک میں بھی کوئی درد دل رکھنے والا شخص یہ تجربہ کرے‘ یہ بوڑھوں کا پہلا اسکول بنائے اور لاکھوں بزرگوں کی دعائیں سمیٹے‘ بڑھاپا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے آپ یہ بوڑھوں سے پوچھئے اور آپ پھر ان بوڑھوں کو ایک دن کیلیے کسی اسکول میں داخل کرا کر دیکھیے‘ آپ کو ان کی اذیت رحمت میں تبدیل ہوتی نظر آئے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے