خیال – ہوا

بات آندھی میں شاپر والی تو نہیں ہے، کیونکہ یہ نہایت غیر مہذب گفتگو ہے ۔۔۔ اور میں اس بات کی مذمت بھی کروں گا ۔۔ لیکن آندھی میں بھی اڑنے والی اشیاء کی کوئی سمت نہیں ہوتی ۔۔۔

جاتی وہیں ہیں ہوا جدھر کی ہو ۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ پوری گلی میں ایک ہی آنگن میں سب کچھ آگرے ۔۔ سیاست کی آندھی میں ایسے ہوتا ہے ۔۔ ارکان اسمبلی تو اڑتے ہی ہیں ، اڑ اڑ کر کسی ایک پارٹی کے انگن میں قطار لگا کربیٹھتے ہیں، پھر یہ نہیں دیکھتے کہ صیح کیا ہے ، غلط کیا ہے ۔۔۔ لیکن میں یوں نہیں کہوں گا۔

پانچ سال پہلے ایک ہوا چلی تھی ، انتخابات میں کافی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تو ، ن لیگ کے پاس اکثریت دیکھ کر ن لیگ میں شامل ہونے چلے آئے ۔ مجھے وہ منظر یاد ہے ، رائیونڈ کے شاہی محل میں قطار میں امیدواران نوازشریف سے ملاقات میں حمایت اور شمولیت کا اعلان کررہے تھے ۔ ارکان اتنے تھے کہ کچھ کو شہباز شریف ہی مل کر نمٹا لیتے تھے ۔ کئی دن تک یہ عمل جاری رہا تھا ۔۔۔ الیکشن سے پہلے شامل ہونے والے امیدواران الگ تھے ۔ کیونکہ ہوا ادھر کی تھی ۔

پانچ سال حکومت کے ساتھ گزارنے والے ، ہر آندھی طوفان میں حکومت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہونے والے ۔۔۔ جانے کیا ہوا کہ بچھڑنے لگے ۔

نوازشریف تو بس یہی کہہ کر دل کو بہلا لیتے ہیں، کی جو جفا اس نے تو کیا ہوا، وعدہ کوئی وفا کا بھی تو کیا نہ تھا ۔۔۔ وہ کہتےہیں جو گئے وہ تھے ہی پرائے ۔۔۔ ان کی یہ منطق میری سمجھ میں تو نہیں آئی ۔۔۔ پرائے لوگوں کے کاندھوں پر حکومت قائم کئے رکھی ۔۔۔ اور پھر دیکھیں ۔۔۔ یہ ہوا آج کل کدھر کی ہے ۔۔ مجھے تو دکھائی نہیں دیا ، یہ سب کدھر کو جارہے ہیں ۔۔۔ کیونکہ سنا ہے ہوا کہ ساتھ اقتدار کا ہما بھی منڈھیر بدلتا ہے ۔۔۔ کئی کبوتر جابیٹھتے ہیں تو سرخاب کا پر بھی اسی آنگن میں پھرتی مرغی کو لگ جاتا ہے جو سونے کا انڈہ دینے لگتی ہے ۔ لیکن اب اس مرتبہ کا مجھے نہیں معلوم کہ کس کی مرغی ، کس کا انڈہ ۔۔۔

جنوبی پنجاب ، ہزارہ ، فاٹا ، بہاولپور ، سمیت دیگر علاقے جہاں انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی ضرورت ہے ، وہاں صوبے بنانے کی ضرورت آج سے تو نہیں ہے ۔ وہاں تو عرصے سے ضرورت ہے ۔۔ لیکن یہ صوبے اور محرومی انتخابات سے پہلے یاد کیوں آتی ہے ۔۔۔ جب کہ پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے ہوا کے دوش پر محو پرواز ہوجاتے ہیں ۔ محرومی ، قیادت کا نظر انداز کرنا ، فنڈز نہ ملنا ، اختیارات نہ ملنا ، اور اوپر سے نوازشریف کے بیانات ، یہ کوئی آج سے ہی تو ایسے نہیں ہیں ۔۔۔

نوازشریف کے حوالےسے بیشتر ایسے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں کہ پارٹی چھوڑی جاسکے ۔۔۔ پھر ہر دفعہ نوازشریف زندہ باد ۔۔۔ اب ہوا ایسی چلی کہ بس ۔۔۔

مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں میں نے ۔۔۔ نہ میں کہنا چاہتا ہوں ، پڑھنے والے خود سے تحریر میں اکثر معنی نکال لیتے ہیں ۔ میں نے کب کہا کہ وہ پانچ سال اقتدار میں رہے اور پھر الگ ہوگئے ۔۔ میں نے یہاں مطلب کی ہے دنیا جیسا محاورہ بھی استعمال نہیں کیا۔ لیکن ویسے سوچنے کی بات ہے ، مولانا ڈوبتی ناؤ کو آخری جھٹکا لگنے تک کیوں چمٹے رہتے ہیں ، اور پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ اور ناؤ سے ایک ہی آواز آتی ہے ، میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں ۔۔۔

ہر کوئی آزاد ہے ، اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنےمیں ۔۔۔ لیکن یہاں میں خواجہ آصف کا مشہور زمانہ جملہ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ بدتہذیبی ہوجاتی ہے ۔۔ خواجہ آصف نے کہا تھا کچھ شرم ہوتی ہے ، کچھ حیا ہوتی ہے ۔۔ لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ 100 لوگ جا چکے ہیں ۔۔ باقی جانے والے ہیں ۔۔۔ اب یہ نئی کشتی پر وزن بڑھا کر ڈاواں ڈول کریں گے یا سب اپنے اپنے چپو چلا کر نئیا پار لگائیں گے ۔۔۔ یہ تو الیکشن میں لگ پتہ جائے گا ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے