خالص جھوٹ بھی نایاب ہے

کہنے کو پچھلے ایک سو برس میں جس قدر علمی و سائنسی تحقیق ہوئی ہے، وہ گذشتہ سات ہزار برس کی مجموعی کاوش سے بھی زیادہ ہے۔پچھلے پچاس برس میں جس قدر طباعت ہوئی، وہ پچھلے تمام زمانوں سے دس گنا زائد ہے۔اسی دوران جو مادی ترقی ہوئی ، اس کی مجموعی ماضی میں کوئی نظیر نہیں۔

اس اعتبار سے ذہنی ارتقا، تازہ کاری، سوالات کی اٹھان ، جوابات کے معیار اور نظریاتی بلوغت بھی پچھلے ادوار کے مقابلے میں کئی گنا مزید بہتر ہونی چاہیے تھی۔کیا ایسا ہی ہے یا تمام تر تیز رفتار علمی و مادی ترقی سے کہیں تیز تضادات و جہالت کی رفتار ہے اور سچ بھلے کسی بھی رنگ و نوعیت کا ہو اس کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

چنانچہ نیم حکیمیت اور نیم عالمانہ پن کا نہ صرف بول بالا ہے بلکہ اس کے راج کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جو جتنا جاہل اتنا ہی بڑا عالم ،جو جس قدرعطائی اتنا ہی بڑا مسیحا۔کچھ عرصے پہلے تک جھوٹ اس اعتبار سے معصوم تھا کہ کہیں نہ کہیں پکڑا جاتا تھا۔اب خالص جھوٹ بھی عنقا ہے۔کیونکہ سچ تو اپنی عریانی چھپانے کے لیے کہیں دبکا پڑا ہے اور جھوٹ اس کی پوشاک چرا کے چہار جانب ڈنڈا گھماتے دندنا رہا ہے۔ بلکہ یہ بات بھی پرانی ہو چلی۔اب تو جھوٹ اپنا سچ خود ایجاد کر رہا ہے ، ایڈورٹائزنگ کر رہا ہے اور دھڑا دھڑ بک رہا ہے۔

اگر میں آج چوک پر کھڑا ہو کے کہہ دوں کہ میں نے افریقہ میں فیروزی گلاب دیکھا ہے تو کچھ لوگ اس پر بھی یقین کر لیں گے۔کیونکہ یہ بات وسعت اللہ خان جیسا ذمے دار لکھاری کہہ رہا ہے۔ ان میں سے چند ایسے فدائی بھی ہوں گے جو شائد ہر اس شخص کا سر پھاڑ دیں جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ گلاب سرخ ، کالا اور سفید تو ہوتا ہے فیروزی ہرگز نہیں۔

یہ زمانہ ’’ کیا کہہ رہا ہے ؟‘‘ پر دھیان دینے کا نہیں ’’کون کہہ رہا ہے ؟‘‘ پر اعتبار کا ہے۔میں منبر پر بیٹھ کر کوئی بھی واقعہ کسی مستند حوالے، سیاق و سباق سے ہٹ کے یا توڑ مروڑ کے یا مفہوم بدل کے سنا دوں گا اور سامنے بیٹھے معتقدین حق اور سچ سمجھیں گے۔اگر کوئی سنکی اٹھ کے کچھ پوچھنے کی کوشش بھی کرے گا تو باقی مجمع اسے جھڑک کے بٹھا دے گا۔ زیادہ ضد کی صورت میں مار پیٹ بھی ہو جائے گی۔

اگر میں خلافِ عقل بات بھی کروں تو اس میں بھی میرے چاہنے والوں کے لیے کوئی رمز پوشیدہ ہوگا، بھلے وہ رمز کبھی بھی ان کے ہاتھ نہ آئے۔اگر میں تمام منطق ، ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ کوئی بات کروں گا تو جو لوگ مجھے پسند نہیں کرتے وہ میرے دلائل اور ثبوتوں کو سچائی سمیت پہلے سے تیار دماغی بھٹی میں جھونک دیں گے۔

یعنی بات سچ جاننے اور سمجھنے کی جستجو کی نہیں بلکہ تمام تر محنت پہلے سے ذہن میں موجود تصورات کو شکست سے بچانے اور نئے حقائق کو رد کرنے کی ہے۔یہ حق الیقین کے بجائے اندھے یقین سے سچائی کو زیر کرنے کا دور ہے۔

میں خود کیوں پڑھوں ؟ کیا میرا رہنما یا پروہت جھوٹ بول رہا ہے؟ میں خود کیوں کھوج لگاؤں ؟ کیا مجھے اپنے رہنما یا مرشد کی باتوں پر شک ہے؟ توبہ توبہ یہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔

ایک زمانہ تھا لوگوں کی باقاعدہ برین واشنگ کرنا پڑتی تھی۔اب لوگ خود ہی برین واشنگ کر لیتے ہیں۔بس ذرا سا اپنی پسند کا پاؤڈر مل جائے۔

آپ امریکا کی کسی بھی جنوبی یا وسطی یا ساحلی ریاست میں جا کر آج پوچھیں کہ مسلمان کیسے ہوتے ہیں ؟ وہ بتائے گا کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں۔کیا تمہاری آج تک کسی مسلمان سے ملاقات ہوئی؟ نہیں ہوئی۔میں کیوں کسی دہشت گرد سے ملوں ؟

تمہیں کس نے بتایا کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں ؟ مجھے مجھے مجھے میرے دوست والٹر نے بتایا۔اور والٹر کو کہاں سے پتہ چلا؟اسے ریورن رچرڈ نے سمجھایا۔اور ریورن رچرڈ کو کیسے پتہ چلا ؟ سنو تم میرا وقت ضایع کر رہے ہو۔کیا تم مسلمان ہو؟ہاں۔نکل جاؤ میرے ملک سے یو ٹیررسٹ۔۔

ہم ہندو لوگ مسلمانوں سے اس لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ بہت ساری شادیاں کرتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنا کر بھگا لے جاتے ہیں۔کیا سب مسلمان ایسا کرتے ہیں ؟ سب تو نہیں مگر زیادہ تر یہی کرتے ہیں۔یہ تم نے کہیں پڑھا یا کسی نے تمہیں بتایا؟ہم زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں۔مگر پریشد کے نیتا رام لال جی نے بتایا ؟ رام لال جی کو کیسے پتہ چلا؟ رام لال جی بہت پڑھے لکھے سیانے آدمی ہیں۔انھیں سب پتہ ہے۔وہ ہم سے کاہے کو جھوٹ بولیں گے۔

یہودی کتے ہائے ہائے۔تم یہودیوں کے خلاف کیوں نعرے لگا رہے ہو؟کیونکہ وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ مطلب ؟مطلب یہ کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم کرتے ہیں۔مگر فلسطینیوں پر تو اسرائیلی یہودی ظلم کرتے ہیں۔یہودی تو ممبئی میں بھی رہتے ہیں ، امریکا میں بھی ، جرمنی میں بھی اور ایران میں بھی۔ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ کوئی خیال نہیں۔سب یہودی کتے کے بچے ہوتے ہیں۔مگر یہودی تو مسلمان بادشاہوں کے طبیب ، سفارتکار اور خزانے کے رکھوالے بھی رہے ہیں؟ یہ سب تم پڑھے لکھوں کی بکواس ہے۔سب یہودی بدمعاش اور سازشی ہوتے ہیں۔

میں دو ہزار نو میں اسلام آباد کے بھارتی سفارتخانے کے باہر ویزے کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ایک اور صاحب بھی تھے جو پبلشر تھے اور دلی جا رہے تھے۔اتنے میں ایک الگ تھلگ بیٹھا جناح کیپ لگائے فرنچ کٹ نوجوان بھی ہم دونوں کی طرف آیا اور گفتگو میں شامل ہو گیا۔

اچانک ایک نمبر پکارا گیا اور وہ نوجوان کھڑکی کی جانب لپکا۔ہمیں کچھ اس طرح کی گفتگو سنائی دی۔جی پندرہ دن کے لیے چاہیے۔ہاں جی دلی اور وہاں سے قادیان۔ نہیں جی میرا کوئی رشتے دار وہاں نہیں۔یہ دعوت نامہ قادیان کی جماعت نے بھیجا ہے۔ٹھیک ہے۔اوکے سر۔تھینک یو۔

میرے ساتھ بیٹھے پبلشر نے کہا ’’ یہ نوجوان تو قادیانی ہے ؟‘‘میں نے کہا ہو سکتا ہے۔نہیں جی سو فیصد۔اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں اس سے ہاتھ بھی نہ ملاتا۔میں نے پبلشر سے پوچھا کہ آپ کبھی کسی قادیانی سے ملے ؟ لاحول ولا قوت میں کیوں ملنے لگا۔آپ ملتے ہیں ؟ جی ہاں ملنا پڑتا ہے، میں صحافی ہوں۔ٹھیک ہے آپ کی مجبوری ہے مگر کوشش کریں کہ ملنا نہ پڑے۔یہ ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے والے لوگ ہیں۔

اتنی دیر میں پبلشر صاحب کا کھڑکی سے نمبر پکار لیا گیا اور بات بیچ میں ہی رہ گئی۔جی سر۔۔ہاں جی وشوا ناتھن پبلشنگ کمپنی نے دعوت دی ہے۔دو ہفتے سر۔جی وشوا ناتھن صاحب ہی کے پاس ٹھہروں گا۔بالکل سگے بھائیوں جیسے ہیں۔ہاں جی۔۔۔جی سر۔۔تھینک یو پرکاش صاحب، اللہ آپ کو خوش رکھے۔تھینک یو ویری مچ سر۔

ہمارے میٹرک کے سائنس ٹیچر نے پہلے دن ہی بتا دیا کہ بچو یہ کتاب چونکہ نصاب ہے اس لیے پڑھنا اور امتحان دینا آپ کی مجبوری ہے مگر اس میں کئی باتیں ایسی ہیں جو دین کے خلاف ہیں۔اس لیے پڑھتے وقت یہ بات ضرور دھیان میں رکھنا۔

آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ پاکستان کس نے لوٹا ؟ زیادہ تر جواب ملے گا سیاستدانوں نے۔ثبوت ؟ آپ کو تو ہر بات کا ثبوت چاہیے۔لوٹ مار کرنے والے کیا ثبوت چھوڑتے ہیں ؟ ثبوت یہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر جمع ہیں اور ان میں سے اسی فیصد سیاستدان ہیں۔یہ اعداد و شمار آپ کو کہاں سے ملے ؟ ہر جگہ موجود ہیں۔مثلاً کوئی ایک ذریعہ حوالہ یا بینکنگ رپورٹ بتا دیں۔اتنا تو مجھے نہیں معلوم مگر آپ خود بتائیں کیا ہمارے سیاستدان کرپٹ نہیں ؟ صرف سیاستدان ہی کرپٹ ہیں ؟ نہیں جی یہ تاجر ، صنعت کار سب کر پٹ ہیں ؟ کوئی ایسا طبقہ جو کرپٹ نہ ہو ؟ بس جی ہم تو انھی کا سنتے رہتے ہیں۔ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو سچ ہو گا۔

یہ ہے وہ عمومی فضا جس میں کسی کو سچ جھوٹ کی حاجت نہیں۔ہر مال بک سکتا ہے۔بس بیچنے والا ہونا چاہیے۔ پوشاک ، حلیہ ، سوٹ اور لچھے دار زبان کافی ہیں، مجھے اور آپ کو کسی بھی بات کا یقین دلانے کے لیے، جان دینے کے لیے جان لینے کے لیے۔

جو لوگ خود نہیں پڑھتے انھیں پھر دوسرے پٹی پڑھتے ہیں۔جو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے انھیں ٹھوکر بصیرت عطا کرتی ہے، جو اپنے کانوں سے نہیں سنتے وہ بابہرہ بہرے ہیں۔اور پھر سب ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ہم آگے کیوں نہیں بڑھ رہے ، ہم گول گول کیوں گھوم رہے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے