کاروان علم فاؤنڈیشن

محمد زبیر کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر تونسہ شریف کے ایک پسماندہ گاؤں سے تھا‘والد گریڈ 4کے سرکاری ملازم تھے‘زبیر پانچویں کلاس میں تھا جب والدانتقال کر گئے‘والد کی معمولی تنخواہ پانچ افرادکے گھرانے کی لائف لائن تھی‘زبیر کی والدہ نے اس مشکل وقت میں خود کام کرکے تین بچوں کا پیٹ پالنے کا فیصلہ کیا۔

زبیر بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا‘ماں نے اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے غربت کے شکنجے سے نکلنے کی تلقین کی‘زبیر سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھا‘ اس نے خوب محنت کی اور میٹرک کے امتحان میںاسکول میں ٹاپ کر لیا‘وہ اس کے بعد گاؤں سے پندرہ کلو میٹر دور تونسہ شریف کے ڈگری کالج میں ایف ایس سی میں داخل ہو گیا‘کالج کے اساتذہ نے اس کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے اسے اکیڈمی میں بھی داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔

یہ کام مشکل تھا کیونکہ زبیر روزانہ بمشکل کالج آنے جانے کا کرایہ پورا کرتا تھا‘بہرکیف وہ اکیڈمی چلا گیا‘ وہاں اساتذہ نے یتیم ہونے کی بنا پر اسے بلا معاوضہ پڑھنے کا موقع دے دیا‘اس نے ایف ایس سی کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا‘انٹری ٹیسٹ دیالیکن وہ میڈیکل کالج میں معمولی فرق سے داخلہ لینے سے محروم ہوگیا‘اس نے ہمت نہ ہاری‘ دوبارہ انٹری ٹیسٹ دیا اور اس کا داخلہ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں ہوگیا۔

داخلہ فیس رشتہ داروں‘دوست احباب اور مخیر حضرات نے جمع کرا دی لیکن اس کے لیے میڈیکل کالج کے روزمرہ کے اخراجات اور تعلیمی فیس کی وجہ سے ایم بی بی ایس جاری رکھنا نا ممکن ہورہا تھا‘ زبیر کواس دوران کاروان علم فاؤنڈیشن کے بارے میں معلوم ہوا‘اس نے اسکالرشپ کے لیے درخواست دی اور اس کواسکالرشپ جاری ہو گیا‘اس کو تمام تعلیمی اخراجات کے علاوہ کتب اور ماہوار خرچ کے لیے بھی مالی مدد فراہم کی جانے لگی‘ اس نے پانچ سال مکمل اطمینان سے تعلیم جاری رکھی اور ایم بی بی ایس کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔

اس کے بعد ڈاکٹرمحمد زبیر نے ایف سی پی ایس کرنے کا فیصلہ کیا ‘شیخ زاہد اسپتال لاہور سے گیسٹر وانٹالوجی میں اسپیشلائیزیشن کی اور ایف سی پی ایس کے امتحانات میں گولڈ میڈل حاصل کیامگر خوشی کا یہ لمحہ دیکھنے سے پہلے اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا‘ ڈاکٹر محمد زبیر آج کل نشتر اسپتال میں سینئر رجسٹرار کے طور پر ملازمت کررہے ہیں‘ڈاکٹر محمد زبیر کے پاس بہت سے مریض ڈیرہ غازی خان کے گردو نواح سے بھی آتے تھے۔

ان مریضوں کے پاس ملتان آنے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھالہٰذا ڈاکٹر محمد زبیر نے اتوار کوڈیرہ غازی خان جاکرمریضوں کا علاج شروع کر دیا‘ خوشحالی آئی تو ڈاکٹر محمد زبیر کو یاد آیا وہ اپنی والدہ کو حج کروانا چاہتا تھا مگر اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی لہٰذا ڈاکٹر زبیر نے اپنی مرحومہ والدہ کے ایصال ثواب کے لیے اپنی نانی کو حج کروادیا‘ڈاکٹر محمد زبیرکو غریب مریض صحت یاب ہوکر دعا دیتے ہیں تواس کے دل سے کاروان علم فاؤنڈیشن کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔

دوسری کہانی جاوید اقبال کی ہے‘اس باہمت نوجوان نے ضلع رحیم یارخان کے ایک پسماندہ گاؤں چک نمبر52/A‘بستی بلوچاں کے نہایت غریب گھرانے میں آنکھ کھولی‘والد کو مکانوں کی تعمیر میں گارا اور اینٹیں اٹھا کر رزق حلال کماتے دیکھا‘ غربت نے اینٹیں اٹھانے والے ہاتھوں میں بندوق تھما دی‘جاوید اقبال کا والد ڈاکو بن گیایوں اس غریب گھرانے کی بدقسمتی کے دن شروع ہوگئے‘گھر پر پولیس کے چھاپے پڑنے لگے۔

جاوید اقبال کی والدہ نے حرام کی کمائی کو گھر میں داخل نہ ہونے دیا اور اپنے شوہر سے قطع تعلق کر لیانتیجتاً اس عظیم خاتون کو اپنے کم عمر بچوں کے ساتھ مزدوریاں کرنا پڑیں‘جاوید اقبال نے پڑھائی جاری رکھی مگر اس کے بھائی حالات سے دل برداشتہ ہوکرمزدوری کرنے لگے‘ایک نے حجام کا کام سیکھ لیااور دوسرا مزدور بن گیا‘جاوید اقبال آٹھویں کلاس میں تھا‘ پولیس نے ان کے گھر چھاپہ مارا اوراس کو تھانے لے گئی‘ وہ کئی دن حوالات میں رہا۔

اہل علاقہ کی گواہی اور تحقیق پر اسے چھوڑ دیا گیا‘کئی دن بعد اسے رہائی ملی تو اس کا خیال تھا اسکول سے ان کا نام خارج ہو چکا ہوگالیکن اساتذہ نے حاضری رجسٹر میں اس کی رخصت درج کررکھی تھی‘ان مشکل حالات کے باوجود اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی‘پولیس کے بار بار چھاپوں سے تنگ آکر ان لوگوں نے مظفر گڑھ کے ایک نیک دل زمیندار سے مدد کی درخواست کی‘اس نے انھیں اپنی زمینوں پر رہائش اور اناج دے دیامگر جاوید اقبال کی غیرت مند ماں نے مدد لینے کے بجائے مزدوری کرنے کو ترجیح دی۔

وہ اپنے تینوں بیٹوں کے ہمراہ کھیتوں میں مزدوری کرنے لگی‘جاوید اقبال تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا‘اس نے زمیندار کے منشی سے خواہش کا اظہار کیا تو وہ اسے قریبی علاقے کے نجی اسکول میں لے گیا‘اسکول انتظامیہ نے اس کا ٹیسٹ لیا اور اسے بلامعاوضہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع دے دیا‘وہاں اس نے مڈل کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا‘ اسکول کی پڑھائی اورکھیتوں میں مزدوری کے ساتھ ساتھ جاوید اقبال نے قرآن پاک کی سورتیں بھی حفظ کرنا شروع کردیں۔

وہ ہر نماز میں اپنے والد کے راہ راست پر آنے کی دعا کرنے لگا‘اللہ نے اس کی دعا قبول کی اور اس کے والد نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا‘سزا کاٹی اور جرم سے ہمیشہ کے لیے تائب ہوکر گھر آگیااور پھر سے مزدوری کے لیے بیلچہ اٹھا لیا‘جاوید اقبال نے ایک دن دیوار پر احمد پور شرقیہ کے ایک نجی تعلیمی ادارے کا اشتہار پڑھا تو وہ اس اسکول میں پہنچ گیا‘ اپنے معاشی حالات بتائے‘اسکول نے اسے داخلہ دے دیا لیکن وہ ایک اقامتی تعلیمی ادارہ تھا‘وہ رہائش‘کھانے اور فیس کی مد میں دوہزار روپے ماہوار وصول کرتا تھا۔

ادارے نے اس کی آدھی فیس معاف کردی مگرصرف تین ماہ تک اس کے گھروالے اسے ایک ہزار روپے ارسال کرسکے‘اسے اپنا تعلیمی سفر رکتا ہوا محسوس ہونے لگا‘ایک دن وہ تہجد کے وقت بیٹھا دعا کررہا تھا کہ ایک استاد کو اس کے حالات معلوم ہوگئے لہٰذا اسکول انتظامیہ نے اس کے تمام اخراجات معاف کردیے‘ اس نے میٹرک کا امتحان 86فیصد نمبروں سے پاس کیا‘اب ایف ایس سی میں داخلہ لینے کے لیے پیسے نہیں تھے‘کسی نے اسے رحیم یارخان کے ایک نجی تعلیمی ادارے کے بارے میں بتایا۔

اس ادارے کے طلبہ ہر سال ایف ایس سی کے امتحانات اعلیٰ نمبروں سے پاس کرتے تھے‘ کالج نے اس کی تمام فیس معاف کردی‘اس نے رہائش اور کھانے کے لیے رحیم یار خان میں اپنے رشتہ دار سے درخواست کی‘انھوں نے اسے چند ماہ رہائش اور کھانا دیا لیکن پھر معذرت کرلی‘جاوید اقبال نے ہمت نہ ہاری اور اس نے مقامی مسجد کی انتظامیہ کو اپنے حالات سے آگاہ کیا۔

انتظامیہ نے جاوید اقبال کو مسجد میں رہائش دے دی‘ تین وقت کا کھانا اسے اس کا ایک کلاس فیلو دینے لگا یوں چار سال تک مسجد انتظامیہ اور کلاس فیلو نے اسے نہایت عزت اور احترام سے رہائش اور کھانا فراہم کیا‘ جاوید اقبال نے گریجوایشن کا امتحان بھی اعلیٰ نمبروں سے پاس کرلیا‘وہ اس کے بعد نوکری تلاش کرنے لگا مگر اس کے ایک مہربان استاد نے اسے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان میں داخل کرادیا۔

یونیورسٹی میں پہلے سمیسٹر میں اس کو کاروان علم فاؤنڈیشن کے بارے میں علم ہوا‘اس نے درخواست ارسال کردی‘فاؤنڈیشن نے اس کے یونیورسٹی کے تمام اخراجات کے علاوہ ماہوار خرچ اور دیگر ضروریات کے لیے اسکالرشپ دے دیا‘جاوید اقبال کمپیوٹر سائنسز میںپی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے ‘ یہ سافٹ وئیر انجینئرنگ میں مصنوعی ذہانت(Artificial intelligence)کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا خواہش مند ہے۔

ہمارے معاشرے میںاگر درد ِدل رکھنے والے افراد اور کاروان علم فاؤنڈیشن جیسے ادارے نہ ہوں تو محمد زبیر جیسے باصلاحیت طالب علم معدے اور جگر کے اسپیشلسٹ نہ بن سکتے اور جاوید اقبال کا ایم ایس سی کمپیوٹر سائنسزکا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتا‘اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں خوشحال اور ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں محمد زبیر اور جاوید اقبال جیسے نوجوانوں کی راہ میں بچھے مالی مشکلات کے کانٹوں کو ہٹانا ہوگا۔

کاروان علم فاؤنڈیشن 2003ء سے پانچوں صوبوں‘فاٹا اور آزاد کشمیر کے غریب لیکن باصلاحیت طلبہ کو اسکالرشپ دے رہی ہے‘ ادارے کے تعاون سے ہر سال سیکڑوں طلبہ میڈیکل‘انجینئرنگ‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘کامرس‘مینجمنٹ اور سوشل سائنسز کے مضامین میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے اپنے گھرانوں کا سہارا بن رہے ہیں‘کاروان علم فاؤنڈیشن پندرہ سال سے وظائف دے رہی ہے اور اس کا دائرہ کار اب پورے پاکستان تک پھیل چکاہے۔

پاکستان کی کوئی یونیورسٹی‘میڈیکل کالج‘انجینئرنگ یونیورسٹی یا کالج ایسا نہیں جہاں اس ادارے کے تعاون سے طلبہ تعلیم حاصل نہ کررہے ہوں‘کاروان علم فاؤنڈیشن کے دروازے ضرورت مند طلبہ کے لیے سارا سال کھلے رہتے ہیں‘طلبہ کو تعلیم کے دوران جس مرحلے پر بھی مدد درکار ہو یہ کاروان علم فاؤنڈیشن سے رابطہ کرتے ہیں اور فاؤنڈیشن ان کی مدد کردیتی ہے۔

کاروان علم فاؤنڈیشن درخواست گزار طلبہ کو سالانہ فیس‘سمیسٹر فیس‘کرایہ ہاسٹل‘ماہوار خرچ طعام‘کتب‘کرایہ آمدورفت وغیرہ کی مدات میں وظائف جاری کرتی ہے‘کاروان علم فاؤنڈیشن زیر کفالت طلبہ کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کو گھریلو اخراجات کے لیے بھی وظائف دیتی ہے تاکہ باصلاحیت طلبہ مکمل اطمینان اور یکسوئی سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

مخیر حضرات کے فراہم کردہ ز کوٰۃ و عطیات سے اب تک 5786طلبا و طالبات کو 139,683,855روپے کے اسکالرشپ جاری کیے جاچکے ہیں‘ ان میں 986یتیم طلبہ اور 355خصوصی طلبہ(نابینا‘پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں۔ مالی اعانت حاصل کرنے والوں میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹر)کے1377‘بی ڈی ایس(ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری)کے52‘فزیوتھراپی(ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے49‘ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز)کے123‘ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی)ک ے108‘ایم ایس سی کے144‘ایم اے کے140‘ایم کام کے41‘ ایم بی اے کے58‘ایم پی اے کے 05‘ایم فل کے20‘بی ایس سی انجینئرنگ کے1443‘ بی کام آنرز کے161‘ بی ایس آنرز کے777‘ بی بی اے کے 64‘اے سی سی اے کے 19‘سی اے کے 04‘بی ایس ایڈ‘بی ایڈ کے 42‘ ایل ایل بی کے15‘بی اے آنرز کے48‘ بی اے کے74‘ بی ٹیک کے 25‘ ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے164‘ ایف ایس سی کے529‘ایف اے کے95‘آئی کام کے56‘ڈی کام کے05‘آئی سی ایس کے17میٹرک کے 131 طلباو طالبات شامل ہیں۔

میں پاکستانی خصوصاً بیرون ملک مقیم اہل وطن سے درخواست کروں گایہ اپنی زکوٰۃ و عطیات کاروان علم فاؤنڈیشن کو دیں‘ کاروان علم فاؤنڈیشن پوری دنیا میں موجود پاکستانیوں کے مالی تعاون سے چل رہی ہے‘ فاؤنڈیشن نے کبھی حکومتی امداد یا کسی غیر ملکی این جی اوسے فنڈنہیں لیا۔آپ اپنے عطیات میزان بینک کے اکاؤنٹ نمبر0240-0100882859 میںجمع کروا سکتے ہیں یا پھر اپنے چیک67۔کشمیر بلاک حفیظ تائب روڈعلامہ اقبال ٹاؤن لاہورکے پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے موبائل نمبر0321-8461122اور ویب سائٹ www.kif.comپر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے