PTI حکومت کےپہلے100دن

مجھے بہت اچھا لگاپہلی بات تو یہ کہ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 100دن کا ایجنڈا، پلان، منصوبہ، خواب، خواہش جو بھی کہہ لیں………بہت بھرپور، شاندار، جاندار اور چمکدار ہے۔ دوسری بات یہ کہ میرے دیرینہ ریڈرز گواہی دیں گے کہ ان خوابوں، خواہشوں میں میرے بے شمار کالموں کی گونج بہت واضح ہے۔

سنتے ہوئے بار بار محسوس ہوا کوئی مجھے میرے پرانے اور نئے کالم سنارہا ہے۔

محاورہ یہ ہے کہ عقل مند ایک طرح سوچتے ہیں جبکہ بےوقوفوں میں اختلاف نہیں ہوتا(Great mind think alike, and fools seldom differ) لیکن یہاں کیس ذرا مختلف ہے جس کی سمری یہ کہ موجودہ حالات میں ہر محب وطن ایک ہی طرح سوچنے پر مجبور ہے جبکہ ڈنگ ٹپائو ڈاکوئوں کی مختلف سوچ ان کی مجبوری ہے جس میں ان کا نہیں، ان کے’’ڈی این اے‘‘ کا قصور ہے۔

میرے لئے عمران خان کا یہ ایک جملہ کروڑوں منشوروں پر بھاری ہے کہ ………’’موٹر وے نہیں قوم بنانا اصل کامیابی ہے‘‘ چند مخصوص اور منحوس زبانوں نے اسے الفاظ کا گورکھ دھندا اور خواہشوں کا مجموعہ قرار دیا تو سیانوں کا یہ قول یاد آیا کہ’’شکل بری ہو تو بات ہی اچھی کرلو‘‘کچھ کے نزدیک پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 100دن کا یہ پروگرام ناقابل حصول اہداف پر مشتمل ہے تو اک بات یاد دلائوں کہ عمران خان کی پوری زندگی کا ہر ایک مرحلہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ بیحدمشکل پسند بلکہ ناممکن پسند آدمی ہے۔

اس نے زندگی بھر ناممکن کو ممکن کردکھانے کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے؟ابتدائی مراحل میں وہ اک عام سا کرکٹر تھا اور شاید کرکٹر بھی اس لئے تھا کہ اس کے گھرانے میں کرکٹ کی روایت تھی لیکن پھر اس نے مکمل یکسوئی، جان توڑ محنت سے ورلڈ کلاس کرکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

ٹیم کی جیت خام خیالی، خواہش اور خواب سے زیادہ کچھ بھی نہ تھی کہ یہ ایک اوسط درجہ کی ٹیم تھی لیکن وہ اس الہامی یقین کے ساتھ میدان میں اترا کہ فتح اس کے قدم چومے گی اور 70سالہ تاریخ میں پہلی اور اب تک آخری بار ورلڈ کپ کپتان نہیں پاکستان کے سرکا تاج بنا۔عام لوگوں کو تو چھوڑیں، ورلڈ کلاس ڈاکٹرز نے کہا مفت علاج والا کینسر اسپتال ممکن ہی نہیں، فیز ایبل ہی نہیں، کوئی نہ بھولے کہ یہ بات کوئی للو پنجو، رنگ با ز، بول بچن کا بادشاہ، گپوڑیا، ان پڑھ غیر صادق اور غیر امین نہیں……… ایکسپرٹس کررہے تھے۔

نامور اور سینئر ترین ڈاکٹرز عمران خان کو’’سمجھا‘‘ رہے تھے کہ جو تم پلان کررہے ہو، دیوانے کا خواب ہے لیکن دیوانہ باز نہ آیا بلکہ اس نے سیریز آف کینسر ہاسپٹلز میں ہاتھ ڈالا، بنا بھی دئیے چلا بھی دئیے۔

نمل یونیورسٹی گدلے پانی کا اک اور کنول، آدھی رات کا سورج، ویرانوں میں نور در نور کا ظہور، اک اور فتح اک اور معجزہ، اک اور ناممکن کا ممکن ہونا۔رہ گئی’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ تو مجھ سے زیادہ کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ’’اک آگ کا دریا تھا اورڈوب کے جانا تھا‘‘ جس کے بعد منیر نیازی شروع ہوتا ہے جس نے کہا تھااک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھاعمران نے یہ سارے دریا ہنستے کھیلتے عبور کئے۔ آج ’’پی ٹی آئی‘‘‘ ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ مکار، مالدار، فنکار سیاستدان زخم چاٹ رہے ہیں۔ اس نے یہاں بھی چومکھی جنگ لڑی، سب کو بیک وقت گریبانوں سے پکڑ کر گھسیٹتے گھسیٹتے ان کے اصل’’مقامات‘‘ پر لاپٹخا اور آج انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں؟

کدھر جائیں؟’’کام‘‘ آسان یا صرف مشکل ہوتا تو ممکن ہے وہ ہار جاتا لیکن کیونکہ ’’کام‘‘ بیحد مشکل بلکہ ناممکن ہے، اسی لئے مجھے سو فیصد یقین ہے وہ جیت جائے گا۔ سابق گورنر سٹیٹ بنک کی کتاب ہےGoverning the ungovernable للوئوں پنجوئوں، وژن سے عاری، ہوس پرست، پرلے درجہ کے لالچی اور نااہل سیاستدانوں نے واقعی پاکستان کو Ungovernableکر چھوڑا، اس خوبصورت ملک کو ایسے اونٹ میں تبدیل کردیا جس کی کوئی کل ہی سیدھی نہیں لیکن یہ ہمارا آج ہے………

آنے والا کل انشاء اللہ اس سے کہیں بہتر، برتر اور خوبصورت ہوگا۔پہلے 100روزہ پلان پر جو ماہ رمضان کے دوران پیش کیا گیا، پھر بات ہوگی، تفصیلات میں بھی جائیں گے کمی بیشی کی نشان دہی بھی کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے