مولانا، فاٹا اور مبینہ امریکی ایجنٹ کا معاملہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے سیاسی قائدین کی صفوں میں اگر کسی کا دامن مکمل طور پر کرپشن کے الزامات سے پاک ہے تو وہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب ہیں ۔ان کا یہ بھی اعزاز ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں کے جہازوں میں پھرتےہیں اور نہ انہوں نے اپنی ذات یا جماعت نااہل ترینوں، شوگر مافیایا قبضہ مافیا کے ہاں گروی رکھی ہے۔ پاکستانی سیاسی قائدین کی صفوں میں صرف آپ ہی ایسے شخص ہیں جو غریب کے گھر پیدا ہوئے، غریب کے گھر پلے بڑھے اور آج بھی بڑی حد تک غریبوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں ۔

حقیقتاً ایک کارکن ہیں، محنت اور قربانی کے بل بوتے پر جمعیت کے ناظم اعلیٰ بنے اور آج بھی جتنی محنت وہ کرتے ہیں ، پاکستان کے دیگر سیاسی اور مذہبی رہنما اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ ان خوبیوں کے باوصف وہ ایک خالص سیاسی انسان بھی ہیں اور یوں ان سے توقع کی جارہی تھی کہ امیر بن جانے کے بعد وہ جماعت اسلامی کو ایک مقبول عوامی جماعت بنالیں گے لیکن افسوس کہ پہلے تحریک انصاف کے ساتھ نتھی کرکے انہوں نے جماعت اسلامی کو پاکستان سے اٹھا کر عملاً ملاکنڈ ڈویژن تک محدود کیا ( لوگ مذاق اڑانے لگے ہیں کہ جماعت اسلامی نان کسٹم پیڈ گاڑی ہے جو صرف ملاکنڈ ڈویژن میں ہی چلتی ہے) اور اب رہا سہا بیڑہ (خاکم بدہن) وہ جماعت اسلامی کو جے یو آئی (ف) کے ساتھ نتھی کرکے غرق کردیں گے ۔

پہلے مسلم لیگ (ن) اور پھر پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کے ساتھ لگ کر جماعت اسلامی نے اپنا مذہبی تشخص کھو دیا اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ لگ کر سیاسی اور عوامی تشخص بھی کھودے گی۔ اس وقت جماعت اسلامی کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ کس طرح ایک خالص سیاسی جماعت بن جائے(کیونکہ دوبارہ خالص مذہبی تو بن نہیں سکتی) لیکن اسے ملی یکجہتی کونسل ، دفاع پاکستان کونسل اور اسی نوع کے دیگر ڈراموں کے بعد اب مولانا کی جھولی میں ڈال کر جماعت اسلامی کی قیادت نے ریورس گیئر لگا دیا۔ گزشتہ پانچ سال خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی حکومت کے ہاتھوں احتساب کا استحصال ہوتا رہا اور جماعت اسلامی مصلحتاً خاموش رہی اور اب وہ ایم ایم اے کی خاطر میاں نوازشریف کے گناہوں کو بھی کیش نہیں کراسکے گی کیونکہ اس حکومت کے تو مولانا صاحب بھی حصہ دار تھے ۔ جماعت اسلامی کے ساتھ سب سے بڑا ہاتھ تو یہ ہوگیا کہ ایم ایم اے کی مرکزی صدارت بھی مولانا لے اڑے اور خیبر پختونخوا کی صدارت بھی ان کی جماعت نے ہتھیالی۔ اسی طرح جماعت اسلامی اب جے یو آئی کے انتخابی نشان یعنی کتاب پر انتخاب لڑے گی لیکن ابھی سے جماعت اسلامی کو یوں نیچے لگا دیا گیا کہ اسمبلی کے فلور پر مولانا صاحب سراج الحق صاحب کو امریکی ایجنٹ کہہ رہے ہیں لیکن وہ اور ان کی پارٹی کے لوگ جواب بھی نہیں دے سکتے ۔

سراج الحق صاحب یہ کریڈٹ لے رہے ہیں کہ فاٹا انضمام کے لئے سب سے پہلی آواز ان کی جماعت نے اٹھائی ۔ فاٹا یوتھ جرگہ کے ساتھ ہر ملاقات میں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ فاٹا کے انضمام کی خاطر ہر سیاسی قربانی دینے کو تیار ہیں ۔ ابھی تک فاٹا انضمام کی خاطر پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی نے دھرنا نہیں دیا لیکن سراج الحق صاحب شدید بارش میں قبائلیوں کا لشکر لے کر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دے چکے ہیں اور پھر یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر اس اسمبلی سے یہ منظوری نہ ہوئی تو وہ بستروں سمیت یہاں ڈیرے ڈال کر مستقل دھرنا دیں گے۔

پارلیمنٹ کے اندر ان کی جماعت کے صاحبزادہ طارق اللہ صاحب اس مقصد کے لئے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں ۔ لیکن اب جبکہ فاٹا کے انضمام کے مخالفین کے تمام حربے ناکام ہونے کو ہیں اور حکومت نے انضمام کیلئے آمادگی ظاہر کردی تو مولانا فضل الرحمان صاحب نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر یہ دعویٰ کیا کہ فاٹا انضمام امریکی ایجنڈا ہے اور جو لوگ اس کے لئے کوشش کررہے ہیں ، وہ امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ گویا بالواسطہ انہوں نے سراج الحق صاحب پر بھی امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگادیا ۔ میرا خیال تھا کہ اسی وقت اسمبلی میں موجود جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ صاحب ، مولانا کو منہ توڑ جواب دے دیں گے لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔پانچ دن گزرنے کے باوجود جب جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو مجبوراً مجھے یہ تلخ فریضہ سرانجام دینا پڑ رہا ہے کیونکہ الحمدللہ مجھے ایسی کوئی مجبوری لاحق نہیں ۔

میں 2000سے فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کے لئے سرگرم عمل ہوں اور اب بھی جو کچھ ہورہا ہے اس میں تھوڑا بہت کردار میرا بھی ہے ۔ یوں جب مولانا اس کو امریکی ایجنڈا کہتے ہیں تو لوگوں کے ذہنوں میں لامحالہ یہ شک بھی جنم لیتا ہے کہ جیسے میں اور فاٹا یوتھ جرگہ کے جوان بھی امریکی ایجنٹ ہوں ۔ تاہم جماعت اسلامی کے رویے سے ایک تاثر یہ بھی جنم لیتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح وہ بھی فاٹا کے مسئلہ کو صرف سیاست کے لئے استعمال کررہی ہے ورنہ تو جے یو آئی کے ساتھ اتحاد سے قبل یہ شرط ضرور رکھتی کہ مولانا اس معاملے میں مزید رکاوٹ نہیں بنیں گے ۔

لیکن باقی ساری شرائط اور سیٹوں کی تقسیم کے فارمولے طے کرنے کے باوجود جماعت اسلامی نے فاٹا کے ایشو کو بطور شرط نہیں رکھا۔ جہاں تک مولانا صاحب کےدعوے کا تعلق ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ میں تو جب سے صحافت کے میدان میں آیا ہوں تب سے یہ دہائی دے رہا ہوں ۔ نائن الیون سے قبل جب امریکہ کو اس خطے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی تب بھی میں ایف سی آر کے خاتمے کے لئے اور فاٹا کے انضمام کے حق میں لکھ رہا تھا ۔ زندگی رہی تو ان کالموںکو من و عن کتابی شکل بھی دوںگا جس سے بخوبی اندازہ ہوسکے گا کہ میں کب سے فاٹا سے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لئے جدوجہد کررہا ہوں ۔

مولانا صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ گزشتہ سال تک فوج بھی فاٹا کے انضمام کی مخالف تھی اور اللہ بھلا کرے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر بٹ اور سابق کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت اللہ، کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ (جنرل ہدایت اور جنرل عاصم باجوہ وہ آرمی آفیسر تھے جنہوں نے فوجی سرکلز میں پہلی مرتبہ فاٹا کے انضمام کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا شروع کی)کا ، کہ جنہوں نے فاٹا مرجر کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ اب جو کچھ ہورہا ہے ان میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم کی کوششوں کا بنیادی کردار ہے ۔

میں غلط ہوسکتا ہوں لیکن اس کاز کے ساتھ میری کمٹمنٹ کا یہ عالم ہے کہ میں نے مولانا محترم جیسے عزیز اور مہربان دوست کی ناراضی مول لی اور اس کاز کے لئے عمران خان جیسے لیڈر کو بھی زندہ باد کہا لیکن اگر مولانا صاحب واقعی قبائلیوں کے ساتھ اس قدر مخلص ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ اس حکومت کا پانچ سال کیوں حصہ رہے جس کے وزیراعظم کی بنائی ہوئی کمیٹی نے فاٹا کے مرجر کے حق میں سفارشات پیش کیں اور ان کے اکرم خان درانی اس کابینہ میں کیوں بیٹھے رہے جس نے ان سفارشات کی منظوری ایک سال قبل دی تھی ۔

پھر سوال یہ ہے کہ مولانا صاحب اس حکومت کا کیوں حصہ ہیں جو ان کے بقول امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھارہی ہے ۔یا تو پھر ان کا امریکہ مخالفت کا دعویٰ محض دعویٰ ہے یا پھرآپ خود دل میں اس دعوے کو جھوٹ سمجھتے ہیں کہ فاٹا ادغام امریکی ایجنڈا ہے۔ میں زندگی میں پہلی بار اس کاز کے لئے اپنے صحافتی دائرے سے بھی نکل گیا لیکن مولانا صاحب اس کاز کی خاطر اس حکومت سے بھی نہیں نکل سکے جو ان کے بقول امریکہ کے اشارے پر فاٹا کے عوام کے ساتھ زیادتی کررہی ہے۔میرا اور مولانا کا کوئی مقابلہ نہیں۔

میں ایک معمولی مزدور اور آپ ایک بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں۔ میں ایک کسان کا بیٹا اور آپ حضرت مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ۔آپ عالم دین اور علماء کی جماعت کے سربراہ اور میں ایک ادنیٰ طالب علم لیکن مولانا جانتے ہیں قبائل کے کاز کی خاطر میں نے بہت سوں کو چھوڑا اور بہت سوں کو گلے لگالیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ مولانا صاحب انتخابی اغراض کے لئے سراج الحق کے ساتھ کیوں اتحادی بن گئے جو فاٹا کے انضمام کے لئے سب سے زیادہ آواز بلند کررہے ہیں ۔ کیا مولانا صاحب بھی سراج الحق کی طرح مبینہ امریکی ایجنٹ بن گئے یا پھر سراج الحق صاحب امریکی ایجنٹی سے تائب ہوکر فاٹا انضمام کے مخالف بن گئے ہیں۔اس سوال کا جواب مولانا کے ذمے بھی قرض ہے اور سراج الحق صاحب کے ذمہ بھی۔

جو ہونا تھا ہوگیا اور ان شاء اللہ بدھ کے روز فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی بنیاد پڑ جائے گی ۔ زندگی رہی تو میں وہ تفصیلات سامنے لائوں گا کہ اس معاملے میں کس نے کیا کردار ادا کیا ۔ یہ صحافتی زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ قبائلی عوام وہ تفصیلات جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا نام لے کر کیسے کیسے لوگوں نے ان کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور بعض کیسے گمنام سپاہی تھے کہ جن کا کسی نے نام تک نہیں لیا لیکن وہ خاموشی کے ساتھ ان کے حق کے لئے لڑتے رہے ۔ سردست میں اتنا عرض کروں کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایا ز صادق اور مشیر قانون بیرسٹر ظفراللہ کا کردار جب سامنے آئے گا تو قبائلی عوام یقیناََ ان کو اپنا محسن تصور کریں گے اور جب اندر کی باتیں کھلیں گی تو لوگ گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو بھی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی صفوں میں کھڑا دیکھیں گے ۔

عجیب تماشہ یہ ہے کہ اب جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی کوششوں سے حکومت مکمل انضمام پر آمادہ ہوگئی ہے تو حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی درپردہ رکاوٹ ڈال رہی ہیں ۔ اب وہ ڈر رہی ہیں کہ یہ کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کو مل جائے گا ، اس لئے پارلیمانی اجلاسوں میں ان کے نمائندے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ۔

ہم جیسے لوگ کوشش کررہے تھے کہ اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ فاٹا کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی ہوجائیں لیکن درون خانہ پی ٹی آئی بھی اسے اگلے سال کے اپریل تک لے جارہی ہے ۔

اس لئے فاٹا اصلاحات کمیٹی کےاجلاس کے بعد حکومتی ترجمانوں کے بجائے باہر آکر پرویز خٹک نے خوشی خوشی یہ اعلان کیا کہ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات اگلے سال اپریل میں ہوں گے ۔اس لئے جو لوگ اس وقت پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی سیاست چلارہے ہیں ،ان سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنے ان چہیتوں پر نظر رکھیں ۔

فاٹا کے معاملے میں ان جماعتوں کی قیادت کے وعدوں اور دعوئوں پر اعتبار نہ کریں ۔ ان کی اندر کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں تاکہ بدھ کے روز قومی اسمبلی سے ترمیم بغیر کسی رکاوٹ کے منظور ہوجائے ۔ پاکستان اور قبائلی عوام کے پاس یہ ہفتہ آخری ہفتہ ہے اور اگر حکومت کی طرف سے ایک سال کی تاخیر کے بعد اب پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی رکاوٹوں کی وجہ سے یہ ترمیم نہ ہوسکی تو پھر یہ کام مزید چار پانچ سال نہیں ہوسکے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے