ریاستی موقف اور انحراف کا کانگو وائرس

میاں نواز شریف نے ملتان میں ایک آدھا ادھورا جملہ بول کر اپنی سیاست ڈبو لی ہے نیز یہ کہ پاکستان کے ریاستی موقف سے انحراف کر کے قومی وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ریاستی موقف کے پشتینی کاریگر اس لطیفہ غیبی پر بے حد خوش ہیں۔ موقع اچھا ہے، رک کر ریاستی موقف کا تاریخی تناظر کریدنا چاہئے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ میاں نواز شریف جیسے منتوں دعاؤں سے پالے ہوئے رجل رشید کی عقل سلیم کو آخر کیا ہو گیا ہے؟

حال ہی میں دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی یادداشتوں میں 1988 کے ان ایام کا تذکرہ کیا ہے جب جنیوا معاہدے پر بات چیت چل رہی تھی۔ ایک اجلاس میں جنرل ضیاالحق نااہل سیاست دان محمد خان جونیجو اور اس کے ساتھیوں پر اس قدر غصے میں آ گئے کہ جوش خطابت میں صوفے سے نیچے گر پڑے۔ چوہدری شجاعت وضع دار آدمی ہیں، انہوں نے وہ گالیاں ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں سمجھا جو جنرل ضیا نے فوجی میس کی لغت میں زین نورانی کو دی تھیں۔ انہی دنوں ‘‘جو صورت نظر آئی’’ کے عنوان سے بھائی فاروق عادل کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ فاروق عادل کی شخصی شرافت میں کیا کلام ہے۔ تحریر ایسی شائستہ کہ انسان اور لفظ کا احترام سکھاتی ہے۔ حمید گل مرحوم کے خاکے میں لکھتے ہیں۔ سوال کیا گیا کہ افغان جنگ میں مجاہدین کی عسکری کامیابی میں اسٹنگرمیزائلوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔

امریکی یہ میزائل 1981-82 میں فراہم کرنے پر تیار تھے لیکن یہ معاملہ 86۔ 87 تک التوا میں رکھا گیا، کیوں؟ اس سوال پر مفکر جہاد حمید گل اس قدر برافروختہ ہوئے کہ انٹرویو چھوڑ کر چلے گئے۔

ان دو بظاہر الگ الگ واقعات میں ایک باہم ربط موجود ہے۔ افغان جنگ بڑے تناظر میں دو سپر پاورز کی پراکسی لڑائی تھی لیکن پاکستان میں ضیا آمریت کی طوالت کی ضمانت بھی تو تھی۔ چنانچہ افغان تنازع کا خاتمے کا تصور بھی ضیاالحق کے لئے سوہان روح تھا۔ افغان جہاد کے آٹھ برس میں ہمارا ریاستی موقف بہت واضح تھا۔

ہم مجاہدین کی اخلاقی اور سفارتی مدد کر رہے تھے۔ اشتراکی سوویت یونین کے خلاف اس ارفع جدوجہد میں ہمیں چین اور اسرائیل سے مدد لینے میں بھی عار نہیں تھا۔ مشکل یہ پیش آئی کہ 1988ء میں عالمی بساط پر اس پراکسی وار کا مقصد پورا ہو گیا، لیکن ہماری ہیئت مقتدرہ کی داخلی ضرورت ختم نہیں ہوئی۔ دنیا نے اپنا سرکاری موقف بدل لیا، ہم فروری 1989 سے ستمبر 2001 تک تن تنہا اس موقف پہ قائم رہے۔ حتیٰ کہ اس موقف کے پیوند بھی گھس کر چیتھڑوں میں بدل گئے۔

دنیا کی ہر ریاست مختلف معاملات پر ایک سرکاری بیانیہ اختیار کرتی ہے۔ اسے عوام میں قابل قبول بنانے کے لئے خوشنما نعرے گھڑتی ہے، سفارتی سطح پر بین الاقوامی قوانین سے اس موقف کا جواز تراشا جاتا ہے لیکن معروضی حالات پہ نظر رکھی جاتی ہے۔ ہر ریاستی موقف کسی نہ کسی سطح پر اپنی طبعی عمر پوری کر لیتا ہے۔

آئیے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔ امریکہ اور چین میں پچیس برس تک باپ مارے کا بیر تھا۔ پھر فروری 1972ءکی ایک صبح صدر نکسن پیکنگ کے ہوائی اڈے پہ اترے اور چو این لائی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اشتراکی نظرئیے سے وابستگی ریاستی بیانیہ تھی۔ سطح آب پہ لہریں گننے والے سوویت بلاک کے خاتمے کو گوربا چوف سے منسوب کرتے ہیں۔ اشتراکی نظام تو بریژنیف کے 16 سالہ جمود میں اپنی طبعی عمر پوری کر چکا تھا۔ گوربا چوف نے پریسٹرائیکا اور گلوسناسٹ کی مدد سے ایک نیا روسی بیانیہ تشکیل دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس اور جرمنی کے درمیان ناقابل بیان نفرت پائی جاتی تھی۔

پھر جنوری 1963 میں چانسلر ایڈنائر اور صدر ڈیگال نے معاہدہ ایلیزے پر دستخط کر کے دشمنی دفن کر دی۔ ساٹھ کروڑ چینی ربع صدی تک ہاتھوں میں ماؤ کی لال کتاب اٹھائے نیلے یونیفارم میں ملبوس رہے، 58ء کا قحط دیکھا، 66ء کا ثقافتی انقلاب بھگتا۔ 1978میں ڈینگ شیاؤ پنگ نے چین کی معیشت بدل ڈالی۔ بھارت نے 1991 میں معیشت کا نہرو ماڈل مسترد کر دیا۔ 1962ء میں نیلسن منڈیلا قید ہوئے تو پرتشدد سرگرمیوں میں یقین رکھنے والے دہشت گرد تھے، 1989 میں رہا ہونے والا نیلسن منڈیلا امن اور رواداری کا علمبردار تھا۔ مسلم اکثریتی دنیا میں سعودی عرب قدامت پسند معاشرت کا امام تھا۔ ابھی حالات ایک عبوری عہد میں ہیں لیکن بیانیہ تو بدل چکا۔ چند ماہ پہلے تک امریکا اور شمالی کوریا ایٹمی بٹن دبانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ اگلے چند ہفتوں میں کم اور ٹرمپ میں ملاقات طے پا گئی ہے۔ 1978ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی پاداش میں مصری صدر انور سادات کو جان دینا پڑی تھی، آج مصر اور اردن تو ایک طرف، خود سعودی حکمران اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ ان سب مثالوں سے مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ ریاست اپنے مفاد میں ایک موقف مرتب کرتی ہے اور جب اس موقف کی معاشی اور سیاسی افادیت ختم ہو جائے تو اسے آہستہ آہستہ بدل دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے ایک طاقتور منصب دار نے پچھلے دنوں جب یہ کہا کہ ہم چالیس برس پہلے کی جانے والی غلطیوں کی فصل کاٹ رہے ہیں تو دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ چار دہائی پہلے مرتب کیا جانے والا ریاستی موقف اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔

مشکل اس میں یہ پیش آتی ہے کہ ہر ریاست میں سرکاری موقف ناگزیر طور پر چند گروہوں اور طبقات کے لئے معاشی اور سیاسی پیوستہ مفادات تشکیل دیتا ہے۔

ریاست کی عملداری قائم ہو تو بیانیہ تبدیل کرنے میں حائل رکاوٹیں دور کر لی جاتی ہیں۔ لیکن اگر ریاست میں حاکمیت کا سوال غیر متعین ہو تو بیانیہ تبدیل نہیں ہوتا بلکہ ریاست میں قطبی کشمکش شروع ہو جاتی ہے، یعنی ایک قوم کے اندر طاقت کے ایک سے زیادہ ناقابل مفاہمت مراکز تشکیل پا جاتے ہیں۔ طفلان گلی کوچہ نواز شریف کے ایک جملے کو لے کر سڑکوں پہ نکل آئے ہیں، انہوں نے اسی انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ایک ریاست میں بیک وقت ایک سے زیادہ حکومتیں نہیں چلائی جا سکتیں۔

یہ بات تو 25 دسمبر 2011ء کو قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہی تھی۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ محترمہ شیری رحمن اور محترم رحمان ملک کی حب الوطنی کو میٹھا برس لگا ہے۔ یاد دلانا چاہئے کہ دسمبر 2008ء کے فوراً بعد امریکی سینیٹر جان کیری پاکستان آئے تھے اور صدر مملکت (تب) آصف علی زرداری سے ملے تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین سے صرف یہ دریافت کر لیں کہ اس ملاقات میں صدر زرداری کا سب سے پہلا جملہ کیا تھا؟

ریاستی موقف معروضی حالات میں بہترین راستے کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے لیکن اسے اگر نامیاتی افادیت ختم ہونے کے بعد بھی جاری رکھا جائے تو وطن سے حقیقی محبت کرنے والوں میں انحراف کا کانگو وائرس پھیل جاتا ہے۔ سوویت یونین میں یہ وائرس گوربا چوف نے نہیں، پاسٹرناک اور سخاروف نے پھیلایا تھا۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر رخصت ہو گئی ہیں لیکن انحراف کا وائرس کسی کی ذات کا محتاج نہیں، زمینی حقائق میں نمو پاتا ہے۔ اختر حسین جعفری نے کہا تھا؛ ’لکھو کہ اس واقعہ کے اندر، جو تھی کہانی، بدل گئی ہے‘۔ یہی بات اپنے رنگ میں ن م راشد نے لکھی تھی۔

درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے
کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو گئی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے