کیا پاکستان میں بیروزگاری خراب تعلیمی معیار کی وجہ سے ہے؟

حال ہی میں ایک دوست کو اپنے آفس میں ایک انٹری لیول کا ایڈمنسٹریٹیو اینڈ فنانس آفیسر چاہیے تھا۔ اس نے ایک متعلقہ ویب سائٹ پر نوکری کا اشتہار دیا تو 500 سی ویز موصول ہوگئیں۔ سی ویز کا جائزہ لینے کے بعد اسے صرف 7 سی ویز مناسب لگیں جنہیں اس نے انٹرویو کے لیے بلایا۔

2 امیدوار انٹرویو میں آئے نہیں اور بعد میں کہا کہ وہ بھول گئے تھے۔ 5 انٹرویوز کرنے کے بعد بھلے ہی اس نے ان میں سے بہترین شخص کو چنا، مگر اس کے باوجود میرے دوست کو ایسا لگا جیسے اس شخص کو موقع دینے کے لیے اس نے اپنی امیدوں پر سمجھوتہ کیا ہو۔

اس کی شارٹ لسٹ میں موجود تمام امیدواروں کے پاس پوسٹ گریجوئیٹ ڈگریاں تھیں اور کچھ کے پاس چند سالوں کا تجربہ بھی تھا۔ مگر پھر بھی انٹری لیول کی نوکری کے لیے درست شخص کی تلاش مشکل ثابت ہوئی۔

ہمارے ملک میں تعلیم و روزگار کے درمیان تعلق میں کوئی شدید خرابی موجود ہے۔ ویسے تو عام طور پر اسے صرف اسکل مس میچ قرار دیا جاتا ہے مگر یہ واضح طور پر اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم یہ شکایت اکثر سنتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز کے گریجوئیٹس پیدا کر رہی ہیں جبکہ ہمیں سائنسدانوں، انجینیئرز، تکنیکی اور ہنرمند افراد کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری صنعتوں کو درکار ہنر اور ہماری یونیورسٹیوں کے پیدا کردہ گریجوئیٹس میں جوڑ نہ ہو، مگر مندرجہ بالا مثال اس کے بارے میں نہیں ہے۔

ہم نے بھی ایسی ہی ایک انٹری لیول کی ملازمت کے لیے چند سال قبل اشتہار دیا تھا۔ ہمیں اس ملازمت کے لیے 1100 درخواستیں موصول ہوئیں۔ تمام سی ویز کا جائزہ لینے کے بعد ہم صرف 10 امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرسکے۔ ان 10 میں سے صرف 3 ایسے تھے جو ہماری توقعات کے قریب تھے۔ 1100 میں سے صرف 3؟ یہ صرف ہنری عدم توازن کی وجہ سے تو نہیں ہوسکتا۔

دوسرے معیاروں پر بھی کہانی مختلف نہیں ہے۔ سول سروس کے امتحان میں کامیابی کی شرح ہر امتحان میں 2 اور 3 فیصد تک گرچکی ہے۔ دسیوں ہزار امیدوار امتحان میں شرکت کرتے ہیں مگر پبلک سروس کمیشن اعلان کرتا ہے کہ بمشکل 200 افراد ہی اسے پاس کرسکتے ہیں۔ یہاں کن ہنروں میں عدم توازن ہو رہا ہے؟

لگتا ہے کہ یہاں دیے گئے معاملات میں بڑا مسئلہ معیارِ تعلیم کا ہے۔ ہمارے طلباء کو جو تعلیم دی جاتی ہے وہ اتنی خراب ہے کہ یونیورسٹیوں سے نکلنے والے زیادہ تر طلباء کے پاس مارکیٹ میں کسی بھی ملازمت کے لیے بنیادی صلاحیت بھی نہیں ہوتی، یہاں تک کہ ایک اچھا شہری بننے کے لیے بھی نہیں۔

ان کی انگریزی اور اردو بھی خراب ہوتی ہے، اعداد و شمار کی صرف بنیادی سمجھ ہوتی ہے، ان کی تعلیم انہیں رابطے کے بنیادی طریقے، دوسروں سے کیسے پیش آنا ہے، یہاں تک کہ خود کو کیسے سنبھالنا ہے، اس کے طریقے بھی نہیں سکھاتی۔ مگر سب سے زیادہ اہم اور نقصاندہ بات یہ ہے کہ انہیں یہ تعلیم منطق، استقرائی اور استخراجی دلائل، تنقیدی اور یہاں تک کہ عام فہم سوچ بھی نہیں سکھاتی، اور عام طور پر انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ سیکھا کیسے جاتا ہے۔

گزشتہ 4 سے 5 سالوں میں مجھے کئی سطحوں پر بھرتیوں کا تجربہ حاصل رہا ہے۔ گریجوئیٹ پروگرامز کے لیے داخلوں کے ٹیسٹ سے لے کر ایڈمنسٹریٹیو اور فنانس اسٹاف، ریسرچ اسسٹنٹس، جونیئر فیکلٹی، پروفیسرز، ڈینز اور یہاں تک کہ اداروں کے سربراہوں تک کی بھرتیوں کے انٹریوز کرتے ہوئے میں نے سیکڑوں انٹرویوز کیے ہیں اور کچھ ملازمتوں کے لیے تحریری امتحان بھی لیے ہیں۔

میرا تجربہ کہتا ہے کہ صرف کچھ ملازمتیں ایسی تھیں جن کے لیے افراد کو اچھا امیدوار بننے کے لیے چند مخصوص ‘ہنر’ کی ضرورت تھی۔ کچھ معاملات میں ہمیں ایسے ریسرچ اسسٹنٹس کی ضرورت تھی جو کہ کچھ کمپیوٹر پروگرامز میں سابقہ تجربہ رکھتے ہوں۔

زیادہ تر ملازمتوں کے لیے امیدوار کی تعلیم کا معیار، ان کے تجربے کا معیار (اگر متعلقہ ہو تو)، امیدوار کی شخصیت اور ملازمت سے متعلقہ سوالوں اور مسائل کو حل کرنے سے متعلق امیدوار کی صلاحیت کو پرکھا جاتا ہے۔ معیارِ تعلیم اس صورت میں ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔

انٹرویوز اور تحریری امتحانات میں امیدوار نہ صرف خراب زبان و بیان کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ایک بھی ٹھوس دلیل پیش نہ کرکے وہ اپنے خراب معیارِ تعلیم کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ مضمون کیسے پڑھا جاتا ہے اور یہ کہ لکھاری کے مقصدِ تحریر کو کیسے سمجھا جائے۔

وہ پڑھی گئی تحریر میں چھپے ہوئے مطالب نہیں سمجھ پاتے، تحریر کا عمومی معنوں میں مطلب اخذ نہیں کر پاتے، پڑھی گئی تحریر کی حقیقی دنیا میں مثالیں نہیں ڈھونڈ پاتے، اس کا اپنے حالات سے تعلق قائم نہیں کر پاتے اور نہ ہی اس کے خلاف یا اس کے حق میں دلائل پیش کر پاتے ہیں۔

تحریری الفاظ یا انسان کے ارد گرد موجود ماحول سے تنقیدی تعلق کی کم از کم صلاحیت اس لیے ضروری ہے تاکہ آپ کسی بھی ملازمت کی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ زیادہ تر امیدوار ایسا نہیں کرپاتے۔

مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ان کی تعلیم نے انہیں اپنے ماحول سے مؤثر انداز میں پیش آنے کے لیے ہنر فراہم نہیں کیا؛ کئی لوگوں کو ان کی تعلیم نے اس قدر اپاہج بنا دیا ہے کہ وہ ملازمت کے دوران یہ ہنر حاصل نہیں کرپاتے۔ بہت کم ملازمتیں ایسی ہیں جہاں ملازمت کے دوران تربیتی سیشنز منعقد نہیں ہوسکتے۔

لیکن اگر ایک دو سال کے تجربے کے باوجود کوئی شخص اپنی ملازمت کے ساتھ درست انداز میں پیش نہیں آسکتا تو کوئی مسئلہ موجود ہے۔ ان کے سیکھنے کے انداز میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوگا۔

بلاشبہ ایسا نہیں ہے کہ اچھے امیدوار دنیا سے ختم ہوچکے ہیں یا یہ کہ تمام ادارے خراب تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ درحقیقت ہمارے ملک میں کئی تعلیمی ادارے اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں مگر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔

ایسے اداروں کے اچھے طلباء کو شناخت ملتی ہے اور انہیں اس کا فائدہ بھی ملتا ہے، مگر مسئلہ ان دیگر لاکھوں کے لیے ہے جو 16 سے 18 سال اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لگا دیتے ہیں اور خراب تعلیم و تربیت کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تباہ کن یہ کہ ان کی تعلیمی عادات اور طریقے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے تبدیل ہونا اور سیکھنے میں مہارت حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنا کیسے شروع کیا جائے، اس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے