سچا اور کھرا لیڈر

موتی بکھرے ہوئے بھی ہوں تو قیمتی ہوتے ہیں لیکن جب کوئی انہیں محبت، عقیدت، محنت اور کمال درجہ کی مہارت کے ساتھ مالا میں تبدیل کردے تو اس کا امپیکٹ بھی ہزار گنا بڑھ جاتا ہے اور وہ انمول بھی ہوجاتی ہے۔ہم میں سے جنہیں اسکول، کالج، یونیورسٹی اور پڑھا لکھا گھرانہ نصیب ہوا وہ بچپن سے بڑھاپے تک بابائے قوم محمد علی جناح کے بارے پڑھتے سنتے اور پھر سوچتے رہتے ہیں کہ’’ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘۔

کہاں دیوقامت قائد اعظم کہاں یہ بونے؟بابائے قوم پر ملکیوں، غیر ملکیوں، مسلمانوں غیر مسلموں نے اتنا کچھ لکھا کہ اس موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے دیوانگی درکار ہے۔سٹینلے والپرٹ، راجرڈی لونگ، جان نائیٹ، ہیکٹر بولائیتھو(جس کا میں نے کبھی ترجمہ بھی کیا تھا)، جسونت سنگھ، دراب پٹیل، عائشہ جلال،کیلاش چندر، ہیرالعل، شریف الدین پیرزادہ اور سکندر حیات صرف چند نام ہیں جن کے علاوہ ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح، معالج ڈاکٹر الٰہی بخش اور پہلے ائیر اے ڈی سی انکل عطاربانی(رضا ربانی کے والد جو میرے والد کے کلاس فیلو اور بچپن کے دوست بھی تھے) نے بھی لکھا جو قائد کو قریب سے جانتے تھے۔ منٹوصاحب نے قائد کے ڈرائیور کے حوالہ سے ’’میرا صاحب‘‘ جیسا شاہکار تخلیق کیا تو کسر بابائے طنز و مزاح مشتاق احمد یوسفی صاحب نے بھی نہ چھوڑی۔

آپ نے قائد کو آگرہ میں بطور وکیل دیکھا اور لکھا’’سرتاپا چہرہ ہی چہرہ تھا‘‘ پتلون کی ریزرشارپ کریز تک نے کاٹ کے رکھ دیا تو جس شخصیت پر بےشمار ہیوی ویٹ لکھ چکے اس پر قلم اٹھانے، کمال دکھانے کے لئے واقعی کسی ضیا شاہد کی ضرورت تھی۔ضیا شاہد کی اپروچ ہی انوکھی ہے۔ قائد اعظم کی دیومالائی سی شخصیت کے دلچسپ اور عجیب، ناقابل یقین ناقابل فراموش واقعات کی مالا پرو کر اپنی یوتھ کے گلے میں ڈال کر ان کی گردنیں فخر سے بلند کردی ہیں۔

اس احساس کمتری سے نکال دیا ہے کہ ہم صرف لالچی، موروثی، روایتی، خود غرضی کے مارے یہ للو پنجو سیاستدان ہی پیدا نہیں کرتے، ہمارے دامن میں جناح جیسے سیلف میڈ، خود دار، باوقار، دیانتدار، بااصول ، محنتی، مخلص’’سچا اور کھرا لیڈر‘‘ بھی ہے، صرف پتھر اور سنگریزے ہی نہیں……

کوہ نور بھی ہے۔لکھتے ہیں’’قائد اعظم کا حلیہ کچھ یوں تھا۔ قد 5فٹ ساڑھے گیارہ انچ، رنگ گورا،آنکھیں گہری بھوری، دائیں گال پر تل‘‘۔’’سگریٹ کریون اے پسند تھا۔ کھیل میں کرکٹ، بلیئرڈ او ر شطرنج کے شوقین تھے۔ پھولوں میں گلاب اور کارنیشن پسند تھے۔ پسندیدہ درخت صنوبر تھا۔

پسندیدہ ڈرامہ نگار و شاعر شیکسپیئر اور شیلے تھے‘‘۔اپنے موجودہ بہروپیے لیڈروں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ واقعہ پڑھئیے۔’’ایک بار صوبہ سرحد کے دورے میں پارلیمانی بورڈ کے ارکان قائد سے ملنے آئے۔ ان میں خان عبدالقیوم خان، ڈاکٹر سی سی گھوش اور قائم شاہ شامل تھے۔ سادہ لوح مسلمانوں کو قائد سے الگ کرنے کے لئے پشاور اور صوبہ سرحد میں کانگریس سے تعلق رکھنے والوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ مسٹر جناح انگریزی لباس اور ہیٹ پہنتے ہیں۔

ایک مقامی لیڈر پیر بخش قائد کے پاس آئے اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ شام کے جلسے میں انگریزی ٹوپی کے بجائے رومی ٹوپی پہن کر جائیں۔ قائد نے مشورہ سنا تو غصے میں بولے ’’مسٹر پیر بخش میں مکرو فریب کی سیاست کو پسند نہیں کرتا۔ میں مسلمانوں کے ساتھ فریب نہیں کروں گا۔ میں جو لباس پہنتا ہوں وہی پہن کر پشاور کے مسلمانوں کے سامنے سٹیج پر جائوں گا۔

لوگوں کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ میں کس قسم کا لباس پہنتا ہوں بلکہ انہیں یہ دیکھنا چاہئے میں کیا کہہ رہا ہوں‘‘۔ذرا دیکھیں قائد کے بارے ان کے حریف و دیگر کیا کہتے ہیں مثلاً گاندھی جی نے ان کی وفات پر کہا …….’’یہ حقیقت ہے کہ مسٹر جناح اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔ وہ سیرت و کردار کی ان بلندیوں پر تھے جہاں کوئی طمع، کوئی خوف، کوئی طعنہ انہیں اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا تھا۔

وہ عزم و ہمت کا پہاڑ تھے جسے خریدا نہیں جاسکتا تھا‘‘۔اسی موقع پر نہرو نے کہا’’مسٹر جناح اعلیٰ کردار اور سیرت کے مالک تھے اور یہی وہ موثر حربہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے زندگی بھر ہر معرکہ سر کیا‘‘۔مائونٹ بیٹن نے کہا’’ مسٹر جناح اگر کسی فریق سے سمجھوتہ کرتے تھے تو اصولوں کو قربان نہ کرتے ہوئے مردانہ وار سمجھوتہ کرتے تھے۔ یہ اس عظیم لیڈر کی بڑی خوبی تھی۔مشہور مصنف صحافی بیورلی نکلسن نے 1943میں لکھا…….

’’مسٹر جناح ایشیا کے سب سے زیادہ اہم شخص ہیں۔ انڈیا کے سیاسی نقشے پر مجھے مسٹر جناح بونوں کے درمیان ایک قدر آور دیو ہیکل شخصیت نظر آتے ہیں‘‘۔ایک بار’’ڈان‘‘ کے سابق ایڈیٹر الطاف حسین مرحوم سے فرمایا ’’کسی موضوع پر غور کرو اور اپنے دل میں فیصلہ کرو، اگر تم اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہو کہ ایک خاص نظریہ یا اعتراض پیش کرنا ضروری ہے تو بالکل وہی لکھ ڈالو جو حقیقتاً تم نے محسوس کیا ہے۔ کبھی پس و پیش نہ کرو، اس خیال سے کہ کوئی ناراض ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے قائد اعظم کی ناراضگی کی بھی پروا نہ کرو‘‘۔ایک بار ریلوے پھاٹک بند ملا، اے ڈی سی نے کھلوادیا،تو فرمایا’’واپس جائو اور پھاٹک بند کرائو‘‘ …….

کہاں میرٹ اور ڈسپلن کے یہ دشمن جو سانڈوں کی طرح ملک میں دندناتے پھرتے ہیں اور کلیم کرتے ہیں مسلم لیگ کی وارثت ۔وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب پر بروقت شریف لے آئے۔ وزیر اعظم سمیت بہت سے وی آئی پیز ’’لیٹ‘‘ تھے۔

آپ نے کارروائی شروع کرادی اور ان سب کی کرسیاں اٹھوادیں۔کیا کیا لکھوں؟اس کتاب کے95فیصد سے میں واقف تھا لیکن اس کا امپیکٹ ہی کچھ اور ہے۔ میرا بس چلے تو اس کتاب کا رس ہر پاکستانی نوجوان اور ہر سیاستدان کی رگوں میں انجیکٹ کردوں۔تھینک یو ضیا صاحباک اور قصہ مسلم لیگی امیدوار کے مخالف نے’’خرچہ‘‘ ادا کرنے پر اس کے حق’’بیٹھنے‘‘ کی آفر کی تو فرمایا’’میں یہ سیٹ خریدنا نہیں چاہتا‘‘……اسے کہتے ہیں ووٹ کی عزت، ووٹ کے خریدارو!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے