آج کا دن تاریخی کیوں؟

آج کا دن میرے لئے ،میری صحافتی زندگی کا تاریخی دن ہے ۔صرف میرے لئے نہیں بلکہ ہر پاکستانی کے لئے یہ ایک تاریخی دن ہے ۔ آج قومی اسمبلی میں فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کا بل پیش ہورہا ہے ۔ اس بل کی قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے منظوری کے بعد فاٹا کے عوام بھی باقی پاکستانیوں کی طرح مکمل طور پر پاکستانی بن جائیں گے ۔ اس کے بعدمیرے باپ دادا کا یہ علاقہ ، غیروں کا علاقہ یعنی علاقہ غیر نہیں کہلائے گا بلکہ اپنے جسم کا حصہ اور اپنوں کا اپناعلاقہ کہلائے گا۔

یوں ان شا ء اللہ جلد قبائلی عوام بھی غیرنہیں بلکہ باقی پاکستانیوں کی طرح پاکستانی بن جائیں گے ۔ اس کے بعد یہاں کے لوگ بھی باقی پاکستانیوں کی طرح اپنے صوبے کے مالک ہوں گے۔ اپنے ووٹوں سے اپنے لئے ایسے ایم پی ایز کا انتخاب کریں گے جو ان کی مرضی کا وزیراعلیٰ منتخب کریں گے نہ کہ ماضی کی طرح باہر سے آئے ہوئے گورنر ان کی قسمتوں کے فیصلے کریں گے ۔

اس کے بعد قبائلی عوام کے ایم این ایز اور سینیٹرز صرف ضمیر فروخت کرنے اور دوسروں کے لئے قانون سازی کرنے کے بجائے اپنے علاقے سے متعلق بھی قانون سازی کرسکیں گے ۔اب قبائلیوں کے ہاں قومی جماعتوں کے رہنماجلسے جلوس کے لئے جاسکیں گے اور قبائلی بھی قومی سیاست میں دوسروں کی طرح برابری کی بنیاد پر حصہ لے سکیں گے ۔

اس کے بعد قبائلی علاقوں میں ہونے والے مظالم کا بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے سکے گی اور اب کسی ظلم کی صورت میں وہاں کے مظلوم عوام بھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاسکیں گے ۔ اس کے بعد ان شاء اللہ مزید قبائلی نوجوان مسنگ پرسنز نہیں بنیں گے اور اگر کوئی کسی قبائلی نوجوان کو بے گناہ قتل کرے گا تو کم ازکم نقیب اللہ محسود کے قاتل رائو انوار کی طرح وہ بے نقاب بھی ہوگا اور عدالت تک بھی آئے گا۔ اب ہر سال سیفران کی وزارت کے تحت ملنے والے بیس ارب روپے کی خیرات (جس کا بڑا حصہ گورنر ہائوس اور پولیٹکل ایجنٹس کے دفاتر میں کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے ) کے بجائے قبائلی علاقوں کو ہر سال سو ارب روپے سے زائد ملیں گے اور وہ بھی کسی خیرات کے طور پر نہیں بلکہ قانونی حصے کے طور پر ۔

جو سعادت اب شاہد خاقان عباسی کے حصے میں آرہی ہے، کاش یہ سعادت وزیراعظم بنتے ہی میاں نوازشریف حاصل کرتے ۔ فاٹا کے معاملے میں جو دلچسپی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لی ، کاش یہ دلچسپی جنرل راحیل شریف لیتے ۔ کاش عمران خان نے جو فضول دھرنے لاہور کے چار حلقوں کے لئے دئیے ، وہ فاٹا انضما م کے لئے دیتے ۔

کاش جو ضد اورہٹ دھرمی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے فاٹا انضمام کے معاملے پر دکھائی وہ گزشتہ سالوں میں قبائلیوں کے قتل عام اور بے گھر ہونے پر دکھاتے ۔ کاش اے کاش فاٹا کا انضمام چند سال پہلے ہوجاتا تو آج آپریشنوں کی تکمیل کے کئی سال بعد بھی لاکھوں آئی ڈی پیز دربدر نہ ہوتے۔ اگر وہاں کے مظلوم مگر قہرآلود نوجوانوں کو ان کے آئینی ، سیاسی اور مالی حقوق بروقت دے دئیے جاتے تو آج وہاں سے باغیانہ آوازیں بلند نہ ہوتیں ۔ بہر حال دیر آید درست آید ۔

آج مسلم لیگی حکومت بل پیش کرکے اپنے کاندھے سے ذمہ داری کا بوجھ اتار دے گی۔ اب بال پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے کورٹ میں ہے ۔ آج اگر قومی اسمبلی کے اندر کورم کی کمی یا کسی اور وجہ سے یہ بل دوتہائی اکثریت سے پاس نہ ہوا تو قبائلی عوام کی مجرم پھر اپوزیشن بھی تصور ہوگی ۔ جو بل مجھ تک پہنچا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس بل کی تیاری پر مشیرقانون ظفراللہ خان صاحب خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔

تین دن کی محدود مدت میں انہوں نے دن رات ایک کرکے جو بل تیار کیا ہے ، اسے دیکھ کر زندگی میں پہلی بار کسی مسلم لیگی کے ہاتھ چومنے کو جی چاہتا ہے ۔ مسلم لیگی ٹیم میں اگر سرتاج عزیز اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے بعد کسی فرد کو قبائل کی آئندہ نسلیں اپنا محسن سمجھیں گی تو وہ ظفراللہ صاحب ہوں گے کیونکہ ممکنہ حد تک انہوں نے قبائلی نوجوانوں کے مطالبات یا پھر سرتاج عزیز کمیٹی اور کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی سفارشات کو اس بل میں سمو دیا ہے ۔ اس مجوزہ بل کی کاپی میرے سامنے پڑی ہے ۔ پہلی شق میں بل کا نام اور تعارف ہے ۔ دوسری شق میں آئین کے آرٹیکل

(۱) میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کی رو سے یہاں سے فاٹا کا لفظ ہمیشہ کے لئے نکل جائے گا ۔ گویا اس کے بعد فاٹا الگ اکائی نہیں رہے گا بلکہ خیرپختونخوا صوبے کا آئینی حصہ بن جائے گا۔ تیسری شق میں آئین کے آرٹیکل (51) میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کی رو سے فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کی صورت میں قومی اسمبلی کے کل حلقوں کا ازسرنو تعین کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ آئینی گارنٹی دی گئی ہے کہ آئندہ انتخابات میں سابقہ تعداد کے حساب سے فاٹا سے قومی اسمبلی کے ممبران منتخب ہوں گے تاہم اس اسمبلی کی تکمیل کے بعد فاٹا کو بھی خیبرپختونخوا کے ایک حصے کے طور پر قومی اسمبلی کے حلقے الاٹ ہوجائیں گے ۔

شق نمبر (4) میں آئین کے آرٹیکل (59) میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کی رو سے انضمام کی صورت میں سینیٹ کے اراکین کی تعداد کا ازسرنو تعین ہوگا تاہم یہاں پر ایک بار پھر یہ گارنٹی دی گئی ہے کہ فاٹا کے کوٹے میں منتخب ہونے والے موجودہ سینیٹرز اپنی مدت پوری کریں گے ۔ مجوزہ ترمیمی بل کی شق نمبر (5) کی رو سے آئین کے آرٹیکل (62) سے فاٹا کا لفظ نکالا جائے گا ۔ جبکہ شق نمبر (6) کی رو سے آئین کے آرٹیکل (102) میں ترمیم کرکے خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھادی گئی ہے اور اس میں فاٹا کے ممبران صوبائی اسمبلی کو بھی شامل کردیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی یہ شرط لگا دی گئی ہے کہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کے لئے فاٹا میں انتخابات ایک سال کے اندر کرائے جائیں گے ۔بل کی شق (7) کے ذریعے آئین کے آرٹیکل (155) میں پانی اور وسائل کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے فاٹا کے لفظ کو نکال دیا گیا ہے ۔ قبائلی عوام کے لئے سب سے بڑی خوشخبری مجوزہ آئینی ترمیم کی ٰشق (8) کے تحت آئین کے آرٹیکل(246) اور بعدازاں آرٹیکل(247) میں ترمیم ہے ۔

بنیادی طور پر ان دو دفعات نے قبائلی عوام کو ایوان صدر اور گورنر ہائوس کا غلام بنا رکھا تھا۔ انہی شقوں نے فاٹا کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے نکالا تھا اور انہی شقوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو فاٹا سے متعلق قانون سازی سے روکا تھا۔ اس شق کے ذریعے آرٹیکل (246) سے فاٹا اور فرنٹیر ریجزکو نکال دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد انتظام ایوان صدر سے صوبائی انتظامیہ کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ اسی طرح شق (9) کے تحت آئین کے آرٹیکل (272) سے بھی فاٹا کا ذکر نکال دیا گیا ہے ۔

مجھے ذاتی طور پر اس بل میں صرف صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی مدت کی شق سے اختلاف ہے ۔ اے این پی ، جماعت اسلامی اور فاٹا یوتھ جرگہ کا مطالبہ ہے کہ یہ انتخابات قومی اسمبلی کے آئندہ انتخابات کے ساتھ کرائے جائیں ۔عوام کے سامنے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ کرائے جائیں لیکن بدقسمتی سے درون خانہ اس معاملے میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بھی حکومت کی ہمنوا ہے۔

حکومت کی طرح یہ دونوں جماعتیں بھی سمجھتی ہیں کہ کہیں صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کی آڑ میں انتخابات ملتوی نہ ہوجائیں لیکن میرے نزدیک ان کا یہ خدشہ بے بنیاد ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی بھی فاٹا اور خیبر پختونخوا کے معاملات پنجاب یا سندھ کے رہنمائوں کے ذریعے نمٹاتی ہیں ۔ شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری قبائلی علاقوں کی صورت حال سے سرے سے واقف ہی نہیں ۔

وہ سمجھتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کا معاملہ بھی ملتان اور کراچی کے حلقوں کی طرح متنازع اورپیچیدہ ہوگا ۔ حالانکہ باقی ملک میں حلقہ بندیوں میں جو تبدیلی ہوئی ہے ، اس کی وجہ سے پہلے سے بنے ہوئے حلقے تبدیل ہوئے ہیں جن پر مختلف امیدواروں نے سالہاسال محنت کی ہے لیکن قبائلی علاقوں میں تو صوبائی اسمبلی کےنئے حلقے بنیں گے جن کا پہلے سے کوئی مدعی نہیں ہے ۔ یوں وہاں تنازعات نہ ہونے کے برابر ہوں گے ۔

میں نے خود بھی ظفراللہ خان صاحب سے گزارش کی تھی اور اب بھی عرض کررہا ہوں کہ اس خدشے کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ قانون سازی کے ذریعے الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر فاٹا میں صوبائی حلقہ بندیوں اور ان پر اعتراضات کا کام مکمل کرلے ۔ اس کالم میں تفصیل دینا ممکن نہیں لیکن میں ہر فورم پر ثابت کرسکتا ہوں کہ اگر آئینی قدغن نہ ہو تو الیکشن کمیشن فاٹا میں صوبائی حلقہ بندیوں اور ان پر اعتراضات کا کام ایک ماہ میں نمٹا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے