ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

آج کوئی ایک موضوع اس قابل نہیں کہ اس پر پورے کا پورا کالم قربان کر دیا جائے لیکن کچھ باتوں کا ذکر کئے بغیر بھی گزارہ نہیں مثلاً میں حیران ہوں کہ پرنٹ سے لیکر الیکٹرانک میڈیا تک نگرانوزیر اعظم پر ڈیڈلاک والے معاملہ پر اس قدر پریشان کیوں ہے ؟چشم بددور یہی تو ہمارا ’’نیشنل کیریکٹر ‘‘ ہے کہ جب تک ممکن ہے اتفاق رائے سے بچا جائے ہم تو وہ لوگ ہیں جو اذانوں کے اوقات اور مختلف اشیاء کی قیمتوں پر ’’اتفاق‘‘ نہیں کرتے ۔ ایک دوسری سے جڑی دکانوں پر ایک جیسی شے کی قیمتیں مختلف ہیں۔

70سال میں یہی فیصلہ نہیں کر سکے کہ بچوں کے لئے اردو میڈیم مناسب ہو گایا انگلش ؟ہفتہ وار تعطیل کیلئے اتوار بہتر ہے یا جمعہ؟نہ عید کے چاند پر متفق نہ کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے۔میں تو اکثر اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ ’’قومی پرچم‘‘ سے لیکر ’’قومی ترانے‘‘ تک پہ ’’ڈیڈلاک‘‘ آج تک برقرار کیوں نہیں ؟بحث تو اس بات پر بھی جاری ہے کہ نظام پارلیمانی ہی ٹھیک ہے یا صدارتی موزوں رہے گا۔ کتنی دلچسپ اور قابل غور ہے یہ بات کہ ’’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘‘ والا محاورہ بھی ہماری ایجاد ہے ۔کبھی ’’ڈیڑھ اینٹ کا گرجا‘‘ …’’ڈیڑھ اینٹ کا مندر‘‘…. ’’ڈیڑھ اینٹ کا گوردوارہ‘‘ یا ’’ڈیڑھ اینٹ کا سٹوپا‘‘ نہیں سنا حالانکہ چند سال پہلے کی ایک ریسرچ کےمطابق دنیا کی مختلف زبانوں کے 95فیصد محاوروں، ضرب الامثال کے معانی بالکل ایک سے ہیں اور وجہ اس کی یہ بتائی گئی تھی کہ ہیومن نیچر ہر خطہ میں ایک جیسی ہے اور انسانوں کے جذبات و تجربات بھی بہت ہی گہری مماثلت رکھتے ہیں۔

انسان جہاں ہو جیسا بھی ہو اس کی ہیئت، ساخت، بُنت اور بناوٹ میں محبت، نفرت، غصہ، انتقام، حسد، رشک، رقابت، غلبہ کی خواہش، عدم تحفظ، خوف مرگ، امید، مایوسی، لالچ، وفا، بے وفائی ،والدین اولاد سے تعلق وغیرہ بے شمار قدرہائے مشترک ہیں۔فرق صرف ماحول، معاشرہ، تعلیم وتربیت گرومنگ سے پڑتا ہے لیکن بنیادی جبلتیں تبدیل نہیں ہوتیں اور اسی لئے ایک جیسے محاورے معرض وجود میں آتے ہیں لیکن ہم ’’سپیشل‘‘ قسم کے لوگ ہیں۔دوسری بات یہ کہ اگر تین تین، دو دو بار وزیر اعظم رہنے والوں نے بھی کوئی توپ نہیں چلائی تو ایک ’’مہمان‘‘ یعنی نگران وزیر اعظم محدود مدت و قوت کے ساتھ کون سا آئیفل ٹاور اکھاڑلے گا لیکن نجانے کیوں ہم نے اسے زندگی موت کا مسئلہ بنا رکھا ہے ۔

مل جائے گا کوئی نہ کوئی وزیر اعظم، اصل سوال تو منیر نیازی نے اٹھایا کہ’’مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گالاکھوں ملتے دیکھے ہیںپھول بھی کھلتے دیکھے ہیںجا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا‘‘آج کا دوسرا موضوع اپنے موجدوں کی طرح مضحکہ خیز اور مسخرہ ٹائپ ہے ۔ن لیگ لشکر نے باجماعت ایک انتہائی بھونڈی اور بونگی حرکت کی ہے ۔ان سطحی قسم کے سیانوں نے ’’انکشاف‘‘ فرمایا ہے کہ’’عمران خان کا 100دن کا پروگرام ن لیگ کے ویژن 2025 کا چربہ ہے ‘‘آنکھوں ہی نہیں عقل پر بھی چربی چڑھی ہو تو ہر طرف چربہ ہی چربہ دکھائی دیتا ہے ۔انہیں اتنا بھی شعور نہیں کہ پاکستان کے مسائل سے بچہ بچہ واقف ہے۔

کوئی انڈر میٹرک بھی لکھنے بیٹھے گا تو وہی رونے روئے گا یعنی طرز حکمرانی، تباہ حال معیشت، اقتصادی تا عدالتی انصاف کا عنقا ہونا، بھوک ، ننگ، غربت، بیروزگاری، نہ روٹی نہ کپڑا نہ مکان، نہ میرٹ، نہ پینے کا صاف پانی ،نہ تعلیم نہ صحت کی سہولتیں، ہر قسم کی لوٹ مار کا گرم بازار، نہ حساب کتاب نہ احتساب، حکمرانوں کی عیاشیاں اللے تللے،نہ بجلی نہ گیس، سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے جیسے ادارے ڈکارے گئے،

ٹرانسپیرنسی کا قحط، زراعت برباد، صنعت بند، اندرونی بیرونی قرضے، تجارتی خسارے وغیرہ وغیرہ جس سے ہر نتھو خیرا واقف ہے تو ایسے میں کیا عمران آسمان سے تارے توڑنے کا پلان دیتا یا مریخ فتح کرنے کا؟عقل کو ہاتھ مارو، رانڈ جو بھی ہو گی رنڈی رونا ہی روئے گی۔جلتے ہوئے گھر کیلئے کوئی پانی تو کوئی مٹی ڈالنے کی بات ہی تو کرے گا۔مریض کو ہر کوئی علاج ہی تجویز نہ کرے گا تو کیا اسے الٹنا لٹکنے کا مشورہ دے گا؟رہ گیا یہ سوال کہ پیسے کہاں سے آئیں گے ؟

پاناما سے یا پارک لین سے تو برادران نون کیوں بھول گئے کہ عمران کو اس کی ساکھ کے سبب عوام نے اربوں روپے دیئے اور دیئے جا رہے ہیں کیونکہ وہ ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ قسم کا ڈرامہ نہیں تو کل اگر وہ ملک کیلئے دامن پھیلائے گا تو کیا عوام اسے مایوس کرینگے؟ممکن ہے کیس’’ کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ والا ہی نکلے لیکن تمہارے اعتراضات بہت ہی بودے اور بے معنی ہیں اور یوں بھی سیانے کہتے ہیں کہ شکل اچھی نہ ہو تو بات ہی اچھی کر لو……..تم سے تو 30،35سال میں کچھ نہ ہوا تو عمران کو ہی ٹکر مار کے دیکھ لینے دوورنہ یہ عمر بھر کا سفررائیگاں تو ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے