گلگت بلتستان آزادکشمیرآئینی پیکج:دوممکنہ حل

ایک طرف گلگت بلتستان کا آرڈیننس 2018 نظروں سے گزرا تو دوسری طرف کشمیر کونسل کی تحلیل اور آزاد کشمیر اسمبلی کو با اختیار کرنے کی بازگشت میں آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں ترمیم کےنام پر نیا ایکٹ 2018 کا ڈرافٹ بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ یقین رکھیے جو کچھ گلگت بلتستان آرڈر میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو دیا گیا ہے ایسا ہی کوئی معاملہ آزاد کشمیر والوں کے ساتھ بھی ہوتا نظر آرہا ہے اٹھارہ مئی کا ڈرافٹ دیکھ کر تو لگتا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے ساتھ بھی وہی ہاتھ ہونے والا ہے جو حافظ حفیظ الرحمان صاحب کے ساتھ ہو گیا ہے ۔

گلگت بلتستان کے ہمارے بھائی اکثر یہ فرماتے رہتے ہیں کہ ہم آزاد کشمیر کا حصہ نہیں بلکہ کچھ ممبران اسمبلی سے مظفرآباد میں بات ہوئی تو وہ تو یہاں تک نالاں ہیں کہ ہمیں بھی ڈانٹ پلا دی اور فرمایا کہ ہم کشمیر کا حصہ ہی نہیں ہمارے آبا نے یہ علاقہ خود آزاد کرایا اور پھر پاکستان کےساتھ الحاق کر لیا یہ تو تم لوگ تھےجنہوں نے معاہدہ کراچی کر کے ہمارے پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ گلگت بلتستان نہ تو آزاد کشمیر کا حصہ ہے اور نہ ہی صوبہ کشمیر کا حصہ بلکہ اگست 1947 کے پہلے ہفتے کی ریاست جموں کشمیر کے ایک یونٹ کے طور پر شمار ہوتا تھا جہاں شورش ہوئی اور اس کا سٹیٹس اسی طرح کا بن گیا جیسا کہ ریاست کے باقی شورش زدہ علاقوں کا تھا ۔

یہاں ہمیں یہ بات تسلیم کرکے آگے بڑھنا ہوگا کہ گلگت بلتستان اگرچہ آزاد کشمیر کا حصہ نہیں تاہم وہ مسئلہ کشمیر کا لازم حصہ ہے اور اس کا حتمی سٹیٹس یو این سی آئی پی کی قراردادوں کے تحت تعین ہونا باقی ہے ۔ رہی بات آزاد کشمیر سے گلگت بلتستان کے بھائیوں کی ناراضگی بلکہ بڑی حد تک نفرت تو اس کا سمجھ میں آنے والا سبب موجود ہے۔ اس موضوع کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں سر دست سر تاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر تیار ہونے والے گلگت بلتستان آرڈینینس اور کشمیر کونسل کی تحلیل کے حوالے سے چند قابل غور نقاط پر توجہ درکار ہے.

پاکستان کی دائمی پالیسی ساز اشرافیہ اپنی زندگی کی سہولتوں کو برقرار رکھنے کے لئے مال و دولت کے جس منبع پر نظر رکھے ہوئے ہیں اس کو سی پیک کا نام دیا گیا ہے۔ چائینا پاکستان اکنامک کوریڈور در اصل اس سارے قضیہ کا سبب ہے جس کے نتیجے میں یہ سب پھرتیاں دکھائی جا رہی ہیں کیوں کہ اگر پاکستان کا چین کےساتھ زمینی رابطہ نہیں ہے تو پھر سی پیک بھی نہیں اور سی پیک نہیں تو پاکستان کی دائمی اشرافیہ کو اپنامسقبل تاریک نظر آتا ہے کیوں کہ دنیا بھر میں علاقائی تنازعات کو ختم کرکے گریٹ گیم کی تیاریاں ہو رہی ہیں تاکہ دنیا کو ایک مرتبہ پھر دو واضع بلاکس میں تقسیم کر کے زمین کی سطح اور زیر زمین وسائل میں سے اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ وصول کیا جا سکے . اس ساری گیم میں پاکستان کی دائمی اشرافیہ ماضی کی طرح اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے آمادہ نظر آتی ہے ، ماضی میں سوشلسٹ اور کپیٹلسٹ لڑائی میں اسی اشرافیہ نے جو کالک پاکستان کے منہ پر مل لی ہے شاید ابھی اس سے اس کا جی نہیں بھرا۔ حالانکہ یہی لوگ تھے جو سوشلسٹ کیمونسٹ روس کو بحیرہ عرب تک پہنچنے کو نعوذ باللہ مسلمانوں اور اسلام کی زندگی موت کا مسئلہ بنا کر پیش کر تے رہے تھے اور اب یہی لوگ سوشلسٹ کیمونسٹ چین کو بحیرہ عرب تک پہنچانے کواسلام کی خدمت بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔

اب سی پیک کے لئے حالات ساز گار تبھی ہوں گے کہ چین کے تحفظات کو دور کیا جائے ، جس میں سر فہرست گلگت بلتستان کا سٹیٹس واضع کرنا پہلی ضرورت ہے حالانکہ اگلے مرحلے پر پاکستانن کو ڈآلر کے بجائے چائینز ین میں تجارت کرنا ہوگی اور شاید روپے کی ڈالر کے بجائے ین کے ساتھ وابستگی بھی کرنا پڑے گی ۔ گلگت بلتستان میں کنٹرولڈ عوامی رائے کے تحت یہ باور کرایا جا چکا ہے کہ وہاں کے عوام پاکستان کا صوبہ بننا چاہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان” بھی اسی صورت کا ایک نعرہ ہے جو اگلے مرحلے میں پہنچ کر صوبائی سٹیٹس میں تبدیل ہوگا۔

ضروری نہیں کہ سی پیک کے لئے گلگت بلتستان کو صوبائی سٹیٹس ہی دیا جائے ، اس کا ایک ممکنہ طریقہ کار ماضی قریب میں ہونے والا سہہ فریقی معاہدہ ہے ، جو سی پیک کے تحت بننے والے کروٹ ہائیڈرل پاور منصوبہ کی تعمیر پر ہواجس میں معاہدے کے تین فریقوں پاکستان ، آزاد کشمیر اور چین نے مظفرآباد میں دستخط کیے ، ایسا ہی ایک معاہدہ پاکستان چین اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے مابین بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے پہلے یو این سی آئی پی کے تحت گلگت بلتستان کا سٹیٹس اس طرح واضح کرنا ہوگا ، جس سے مسئلہ کشمیر پر منفی اثرات نہ پڑیں.

اس کا ایک ممکنہ طریقہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کی طرز پر اندورنی با اختیار سٹیٹس دیا جائے یعنی صدر ، وزیر اعظم، قانون سازاسمبلی ، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ ، اپنا ترانہ اور جھنڈا وغیرہ وغیرہ اور کشمیر کونسل کو ”گلگت بلتستان و کشمیر” کونسل کا نام دے کر ہر دو یونٹس یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے کونسل کے برابر ممبران کا براہ راست انتخاب عمل میں لایا جائے اوروہ چار معاملات جو اقوام متحدہ نے پاکستان کے سپرد کر رکھے ہیں، ان کی نمائندگی کے لئے پاکستانی کابینہ کے چار اراکین کو اس کونسل کا بہ لحاظ عہدہ ممبر لیا جائے، اس مشترکہ کونسل کا چئیرمین وزیراعظم پاکستان کو یو این سی آئی پی کی روشنی میں لیاجائے اور بہ لحاظ عہدہ صدر آزاد کشمیر اور صدر گلگت بلتستان کو دو وائس چئیرمین کے طور پر منتخب کیا جائے ، ہر دو طرف عبوری آئین ساز اسمبلی کے لئے مختصر مدتی اسمبلی کا انتخاب کرایا جائے اور وہ اسمبلیاں مسئلہ کشمیر کے حل تک اپنا اپنا باقاعدہ عبوری آئین ترتیب دیں جس کی حتمی منظوری کونسل اور اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں کے ممبران مشترکہ طور دیں۔

ماسوائےاُن چار معاملات کے جو اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کے سپرد کر رکھے ہیں دونوں اسمبلیوں کو مکمل با اختیار بنا کر مسلہ کشمیر کے تصفیہ تک عوام کو جمہوری حقوق دیے جائیں، یوں بین الاقوامی سطح پر بھارت پر اخلاقی اور عملی برتری حاصل کی جا سکے گی اور دونوں خطوں کے عوام کو ان کا پیدائشی حق خود اختیاری بھی دیا جا سکے گا ، جس کا وعدہ بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے سامنے کیا تھا.

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اقوام متحدہ کے کاغذوں میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان قصور وار متعین ہو چکا ہے ، جبھی پاکستان کو ریاست سے ساری فوجیں اور اپنے مسلح اور غیر مسلح شہری پہلے نکالنے کا حکم دیا گیا ہے ، جس پر پاکستان دستخط کر کے قبول بھی کر چکا ہے جبکہ بھارت نے اپنی فوجوں کا مخصوص حصہ نکالنا ہے اور اس کی فوجوں کی موجودگی میں استصواب رائے ہونا ہے ، اگر پاکستان نے اس وقت میں دونوں خطوں میں اپنے لئے ووٹ حاصل کرنے ہیں تو مسئلہ کشمیرکا لازم حصوں یعنی اپنے زیر انتظام علاقوں میں وہ جمہوری حقوق دینا ہوں گے کہ عوام کو ان پر اعتماد رہے .

تازہ گلگت بلتستان آرڈیننس 2018 اور آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں ایک غیر منتخب شخص کی جانب سے تجویز کی گئی ترامیم کی کوکھ سےصرف نفرت جنم لے گی اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ 70 سال گزرنے کے بعد بھی اگر اس خطہ کے لوگ اپنے تشخص کے لئے جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں تو آئندہ بھی جاری رکھ سکتے ہیں ، چند مخصوص دائمی اشرافیہ کے مفاد کی خاطر صرف پیٹ سے نہ سوچیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو مزید جنگوں اور شورشوں سے محفوظ کریں.

اگر پاکستان نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ چین پاکستان پر اعتماد نہ کرے اور اس خطہ کے لوگ تو ویسے بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے سبز ہلالی پرچم میں سپرد خاک ہونا چاہتے ہیں لیکن اس محبت کے اظہار کے لئے انہیں مرنا ہی کیوں ضروری ٹھہرا ، پاکستان کی جانب سےبھی بے لوث محبت کا اظہار تبھی ہوگا کہ جب کشمیریوں کو باوقار آزادی پاکستان کی طرف سے ملے گی تبھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والوں کو اِدھر کوئی کشش محسوس ہو ورنہ اے ایس دلت اور اسد درانی کی تازہ کتاب دونوں ممالک کی جانب سے کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ”منصفانہ سلوک” کی کھلی گواہی ہے .

ریاست جموں کشمیر،پاکستان،بھارت اور سائوتھ ایشیا کے اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ نقشہ جات دیکھنے کیلئے لنکس پر جائیں:

https://en.wikipedia.org/wiki/UN_mediation_of_the_Kashmir_dispute

https://en.wikipedia.org/wiki/File:India_-_Location_Map_(2013)_-_IND_-_UNOCHA.svg

https://en.wikipedia.org/wiki/File:Un-kashmir-jammu.png

https://en.wikipedia.org/wiki/File:South_Asia_UN.png

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے