یہ کالم پہلے والے کالم کا تسلسل ہی ہے ، دوست چاہیں تو تنقید کر سکتے ہیں اور خصوصا سپاہی اس بحث کو آگے بڑھانا چاہیں تو آئی بی سی اردو کے صفحات حاضر ہیں .
اپنے پچھلے کالم پولیس کی عزت کب ہو گی ؟ کو جب فیس بک کی زینت بنایا تو اس سے اگلے روز کوئٹہ میں کرنل سہیل عابد اور انکے ساتھ کچھ پولیس کے جوان شہید ہوئے، ہم نے کرنل سہیل عابد کے کردار کو سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا تو بلوچستان اور پنجاب پولیس کے جوانوں نے شکوے کے طور پر شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تصاویر بھیج کر پوچھا کیا ان جوانوں کے خون کا رنگ الگ ہے جو انہیں بھلا دیا گیا ؟ کیا وجہ ہے کہ ایک ساتھ شہید ہونے والے دو لوگوں میں سے ایک کو یاد رکھا جاتا ہے اور دوسرے کو بھلا دیا جاتا ہے ؟ عرض کیا یہ سوال میرا ہے ، اگر برا نہ لگے تو ایک سوال آپ سے بھی ہو جائے ؟ کرنل سہیل عابد شہید ہوئے تو آرمی چیف انکے گھر گئے ، انکے بچوں کو سینے سے لگایا ، میڈیا پر بیان جاری کیا اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا جب کوئی جوان شہید ہوتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم کا کوئی حصہ کاٹ دیا گیا ہو ، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پولیس کے آئی جی صاحبان میں سے کتنے آئی جی صاحبان اپنے شہید ہونے والے جوانوں کے گھر گئے ؟ قصور میڈیا یا عوام کا نہیں بلکہ پولیس افسران کا بھی ہے ، اگر افسران اپنے جوانوں کے جنازے میں شرکت نہیں کرینگے ، انکے بچوں کو سینے سے نہیں لگائیں گے تو پھر میڈیا اور عوام سے گلہ فضول ہے ، سپاہی اور افسر کا رشتہ کمزور ہو گا تو پھر سوتیلے بیٹوں کا سلوک ضرور دیکھنا پڑے گا ،
میں صرف دو مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ سپاہیوں اور افسران میں تعلق کا رشتہ کتنا کمزور ہے ؟
ابھی کچھ ماہ قبل فیض آباد میں ایک مذہبی جماعت نے دھرنا دیا جس سے اسلام آباد جام ہو گیا تھا ، لوگ پریشان ہو گئے ، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا ، اسکول بند ہو گئے ، عدالت عالیہ نے نوٹس لیا اور حکم دیا کہ فیض آباد خالی کروایا جائے ، پولیس نے آپریشن کیا ، عوام اور پولیس آمنے سامنے تھی ، دھرنا شرکاء کی جوابی کارروائی سے پولیس کا ایک جوان اسرار تنولی زخمی ہوا جس کی آنکھ چلی گئی ، عجلت میں اسکا علاج کیا گیا اور اسکے بعد اسے گھر روانہ کر دیا گیا ، اسرار کا جس جگہ گھر ہے وہاں نہ اسپتال ہے اور نہ کلینک ، اسرار دیہاتی علاقے کا باسی ہے اسے جب اسلام آباد ٹھہرانے کی بجائے گھر بھیج دیا گیا تو بات میڈیا پر آ گئی، میڈیا پر بات آئی اور ایسی آئی کہ پھیلتی چلی گئی ، کیمروں کا رخ اسرار تنولی کے گھر کی طرف ہو گیا ، اسکے گھر کی حالت دیکھ کر کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی جو اشک بار نہیں ہوئی ، اسرار تنولی پر رپورٹ بنی ، اس سے زخمی ہونے کا احوال پوچھا گیا ، اس نے اس وقت جو جملہ کہا وہ آج بھی دماغ میں دھرنا دیکر بیٹھا ہوا ہے ، اسرار نے کہا مجھے جلدی میں گھر روانہ کیا گیا مجھے آنکھ پر چوٹ لگتے ہوئے اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی محکمے اور حکومت کے رویے سے ہوئی ، مار کم دکھ دیتی ہے رویے زیادہ دکھ دیتے ہیں ، میرے محکمے نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ، یہ صرف ایک جھلک ہے ، آئیے دوسری جھلک بھی دیکھتے ہیں ،
معروف اینکر سلیم صافی نے دو سال قبل جرگہ میں پولیس کی قربانیوں پر ایک پروگرام کیا جس میں دو پولیس کے جوان اور ایک پولیس لڑکی مدعو تھی ، پروگرام میں سب انسپکٹر بخاری شاہ خان نے جو کہا اسے ادھار چھوڑتے ہیں ، ابھی بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عنایت اللہ ٹائیگر کی بات کرتے ہیں ، عنایت اللہ ٹائیگر ہماری سوچ سے بھی زیادہ دلیر ہے ، جوان رعنا ہے ، نظر ٹھہر کے اسے دیکھتی ہے ، اس وطن کا بہادر سپوت ہے ، بایاں ہاتھ زخمی اور ایک ٹانگ بھی زخمی ہے ، کئی پولیس مقابلے بھگت چکا ہے ، کئی حملوں کا براہ راست نشانہ بن چکا ہے ، چار ہزار سے زائد بارود ناکارہ بنا چکا ہے ، دو ہزار سے زائد گرنیڈ ، تین سو مائن ، تین سو پچاس آئی ڈی ناکارہ کر چکا ہے ، (یہ سب اس وقت کیں اب کتنی ہو گئیں آج کی تعداد کا علم نہیں) اس ٹائیگر نے دیس کو بڑی تباہی سے بچایا ، اپنی جان خطرے میں ڈال کر خطرات سے کھیلا، موت کا بار ہا سامنا کیا ، محکمے نے اور ریاست نے کیا صلہ دیا یہ کہانی افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے ،
عنایت اللہ ٹائیگر کو صدر پاکستان نے تمغہ شجاعت میں پانچ لاکھ روپیہ بطور انعام دیا ، معلوم ہے اس نے کیا کیا ؟ جی ہاں اس نے پانچ لاکھ سے دو لاکھ کی ٹانگ لگوا لی اور ہر سال مصنوعی ٹانگ پر ساٹھ ہزار روپیہ خرچ کر کے برابر ڈیوٹی سرانجام دی ، اس نے پوری ایمانداری سے اپنا وعدہ پورا کیا، ، محکمہ نہ ٹانگ لگوا سکا اور نہ ہی اسے پروموشن دے سکا ، کیوں ؟ وہ تو راضی برضا ہو گیا اور شکوے کی بجائے شکر کو ترجیح دی ، کیا محکمے کی کوئی ذمہ داری نہیں ؟ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بار بار موت کا سامنا کرنے والا جوان ایک ٹانگ اور ایک پھول کا مستحق بھی قرار نہیں پایا ؟ کیا یہ زیادتی نہیں ؟ کیا یہ زیادتی عوام اور میڈیا کی طرف سے ہے یا حکومت اور محکمے کی طرف سے ؟ بھائی یہ زیادتی گھر سے کی گئی ہے ، جوانوں سے زیادتیاں کیوں ؟ ان زیادتیوں پر کسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا ؟ جوان اپنے افسران سے پوچھیں کیا ہمارا خون سرخ نہیں ؟ کیا ہماری قربانیاں قربانیاں نہیں ؟ کیا ہمیں اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی ایک فوجی کو ہوتی ہے ؟ کیا ہمارے بچے یتیم نہیں ہوتے ؟ ہم اس سلوک کے مستحق کیوں نہیں جو ایک آرمی چیف اپنے جوان سے کرتا ہے ؟ اور ہو سکے تو ایک سوال ذوالفقار چیمہ اور فصیح الدین صاحبان سے بھی کیجئے ، یہ دونوں افسران پولیس سے ہیں، اللہ نے انکو قلم کی طاقت سے نوازا ، یہ مسلسل اخبارات میں لکھتے ہیں ، انہوں نے اپنا وزن پولیس کے پلڑے میں کیوں نہیں ڈالا ؟ میڈیا اور پولیس کے درمیان خلیج کو کم کرنے کے لیے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا ؟ یہ میڈیا کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیوں نہ کر سکے ؟ کاش یہ اپنے محکمے کے مسائل بتاتے انکے حل کے لیے آواز بلند کرواتے مگر ان سے یہ نہ ہو سکا ، عوام اور میڈیا کو کوسنے کی بجائے پولیس جب تک اپنی غلطیاں ٹھیک نہیں کرتی اسے یہ بے رخی سہنی پڑے گی ، میں کالی وردی کو باعزت دیکھنا چاہتا ہوں مگر جسے گھر میں کوئی نہ پوچھے اسے باہر کون پوچھتا ہے ؟