چار اعشاریہ نو ارب ڈالر کی کرپشن اور ستر برس کا خسارہ

برادرم یاسر پیرزادہ کی علمیت سے جان ضیق میں ہے۔ ہم سادھو سادھارن لوگ ہیں ، علم ریاضی میں ہمیں کبھی دعویٰ نہیں رہا، ہر قسم کا جبر پشت ہا پشت سے برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں البتہ الجبرے کی سہار نہیں رکھتے۔ سپاہ گری کا پیشہ ہمارے لئے باعث عزت رہا ہے۔ دوسرے کھیت کاشت کریں، بستیاں تعمیر کریں، بیوپار کریں، باغ سنواریں، ہم گھوڑے کی پشت پر تلوار سونتے وارد ہوں گے، کچھ برباد کیا، باقی سمیٹ کر ساتھ لے آئے۔ اب دنیا بے مروت ہو گئی ہے۔ 1683ء میں ویانا کے ناکام محاصرے کے بعد سے کوئی جنگ ہم مسلمانوں نے نہیں جیتی، سو اب تلوار اپنوں کے لیے رکھ چھوڑی ہے اور دوسروں سے معاملت کے لیے کشکول اٹھا رکھا ہے۔

ایسے میں یاسر پیرزادہ ہمیں گیم تھیوری سمجھاتے ہیں۔ ایک نحوست مارے ریاضی دان جان ناش کی گیم تھیوری کا حوالہ دیتے ہیں۔ ہماری بلا جانے کہ آمادہ بہ تعاون مساوات کیا ہوتی ہے، کوئی مبازرت پر اتر آئے تو کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔ ہم سادہ لوگ جنگ میں سبز پوش بزرگوں سے مدد لیتے ہیں، مغرب کی مسلط کردہ جمہوریت سے نمٹنا ہو تو کسی صاحب استخارہ سے رجوع کرتے ہیں۔ کسی صورت حال میں فریق مخالف کا ارادہ بدل جائے، زمینی حقیقت تبدیل ہو جائے، علم میں کوئی نئی پیچیدگی اٹھ کھڑی ہو یا ٹیکنالوجی میں غنیم کوئی نئیسازش کھڑی کر دے تو ہم چاروں شانے چت۔ ہمیں مغرب کے ڈان کیخوٹے کی مثال بھی درکار نہیں، رتن ناتھ سرشار نے میاں خوجی کے کردار میں ہمارا ہی خاکہ کھینچا ہے۔

ہماری علم دشمنی اپنی جگہ لیکن ان دنوں کچھ پیغمبری وقت آن پڑا ہے، اب تجویز یہ ہے کہ گیم تھیوری، جیسی بری بھلی ہمیں سمجھ آئی، بروئے کار لائی جائے۔ ہم جیسے کوتاہ علم اردو کالم نویسی میں چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالک، نصراللہ خان عزیزاور منو بھائی وغیرہ کا لوہا مانتے تھے۔ اپنے ہم عصروں میں وسعت اللہ خان اور خورشید ندیم ہیں مگر معلوم ہوا کہ یہ سب اکابر بھاڑ جھونکتے رہے ہیں۔ اردو کالم کا لعل بدخشاں تو محمد توصیف الحق صدیقی صاحب ہیں، ایک معاصر میں خامہ فرسائی فرماتے ہیں۔

ہمارے ممدوح محمد توصیف الحق صدیقی صاحب نے یکم فروری 2018ء کو قلم توڑ دیا۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت چار افراد کی نشاندہی کی کہ ان وطن دشمنوں نے 2015-16 میں حکومت پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ سے چار ارب نوے کروڑ ڈالر کی منی لانڈرنگ کی۔ سعید احمد نامی کسی صاحب کے ذریعے یہ خطیر رقم دبئی کے راستے بھارت بھیجی گئی۔ موقر کالم نویس نے یہ بھی بتایا کہ ورلڈ بینک نے مائیگریشن اینڈ ریمیٹینسس بک 2016ء میں اس قومی جرم کی تفصیل درج کر رکھی ہے۔

قومی احتساب بیورو کا ادارہ (نیب)، جیسا کہ ہم طویل تجربے کی روشنی میں جانتے ہیں، ہماری اجتماعی دیانت کا نشان بن چکا ہے۔ آٹھ مئی کو نیب نے باقاعدہ اعلان کر دیا کہ چار ارب نوے کروڑ ڈالر کی منی لانڈرنگ کی تحقیق کی جائے گی۔ تحقیق کی بنیاد وہی اخباری تراشہ ہو گا۔

سوئے اتفاق کہ کسی نے ورلڈ بینک کی متعلقہ رپورٹ اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی جہاں صاف لکھا تھا کہ یہ حقیقی اعداد و شمار نہیں بلکہ معاشی امکانات کے ظن و تخمین کی ایک علمی مشق ہے۔ رپورٹ میں صرف یہ بتایا گیا تھا کہ اگر ستر برس قبل ہندوستان سے پاکستان آنے والے مہاجرین نے تارکین وطن کی مانند ہندوستان میں اپنے اہل خانہ کو ترسیل زر کیا ہوتا تو آج اس کی کل مقدار چار ارب نوے کروڑ ڈالر ہوتی۔ سامنے کی بات ہے، ترسیل زر تو معاشی مہاجرین کیا کرتے ہیں۔ تقسیم ہند میں نقل مکانی کرنے والے تو جا ن بچا کر بھاگے تھے، ان کے پاس بچا کیا تھا اور بھیجتے تو کس کو بھیجتے؟

احتساب بیورو کی اس چابک دستی پر وہ پولیس اہلکار یادآ گیا جو اب سے کوئی بیس برس قبل ایک اخباری تراشہ اٹھائے شبلی نعمانی کو گرفتار کرنے منو بھائی کے گھر پہنچ گیا تھا۔ منو بھائی نے نہایت سنجیدگی سے پولیس والے کو بتایا کہ ابھی دو تین روز پہلے تو میں نے شبلی نعمانی کو یہاں بازار میں دیکھا ہے، ہو نہ ہو احمد راہی کے گھر میں روپوش ہے۔ آپ این بلاک، فلیٹ نمبر 12 پر چلے جائیے۔

اگر یہ طے پا گیا کہ ظن و تخمین کو بروئے کار لا کر معیشت، معاشرت اور قانون کے نقشے بچھائے جا سکتے ہیں تو کیوں نہ یاسر پیرزادہ کی تجویز کردہ گیم تھیوری کی مدد سے کچھ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ پھیلایا جائے؟ واضح رہے کہ اس برس پاکستان کے قومی بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ 5200 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ محصولات کی آمدنی کا اندازہ 4400 ارب روپے ہے۔ دفاع کا بجٹ 1100 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ تعلیم پر اس برس بھی صرف ستانوے ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کوئی دس ارب روپے پرائمری تعلیم اور بارہ ارب روپے ثانوی تعلیم پر خرچ ہوں گے۔ ستر ارب روپے سے کچھ زیادہ اعلیٰ تعلیم کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اسکول جانے کی عمر کے ان اڑھائی کروڑ بچوں کا کوئی ذکر نہیں جو اسکول سے محروم ہیں۔ کل قومی پیداوار کا 2.1فیصد تعلیم کے لئے تفویض کیا گیا ہے۔ کل قومی پیداوار کا ڈیڑھ فیصد صحت پر خرچ ہو گا۔

آزادی کے بعد مسلسل تیس برس تک قومی بجٹ کا اوسط ساٹھ فیصد سالانہ دفاع پہ خرچ ہوا۔

قرضوں کی واپسی شروع ہوئی تو مجموعی تقسیم کچھ یوں ہو گئی کہ ایک تہائی بجٹ قرضوں کی واپسی میں جائے گا، ایک تہائی دفاع پہ خرچ ہو گا، باقی ایک تہائی میں سارا کاروبار مملکت چلے گا جس میں اس برس سوشل ڈویلپمنٹ بجٹ تقریبا 20 % یعنی تین سو ارب روپے کم کر دیا گیا ہے۔ اکبر زیدی، شاہد کاردار، اکمل حسین، قیصر بنگالی، ندیم احمد معیشت کے عالی دماغوں کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔

کیوں نہ ان جیسے اہل دانش سے درخواست کی جائے کہ ہمیں دو سادہ تخمینے تیار کر دیں۔

پہلا تخمینہ یہ لگایا جائے کہ اگر 1947ء میں تعلیم کو ترقی کا انجن بنا لیا جاتا، عوا م کے معیار زندگی کو نصب العین قرار دیا جاتا اور دفاعی اخراجات کو اپنی چادر دیکھ کر مرتب کیا جاتا تو آج جنوبی کوریا، ملائیشیا یا سنگا پور کے مقابلے میں ہم کہاں ہوتے؟ دوسرا تخمینہ یہ کہ اگر معاشی ترجیحات کی تقسیم یہی رہنا ہے تو اگلے پچاس برس میں معیشت کی صورت کیا ہو گی؟ میاں نواز شریف ناحق عوام کی حاکمیت اور ووٹ کی عزت وغیرہ بیان کرنے میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ بس یہ بتا دیں کہ 2013 سے اب تک دفاعی بجٹ میں اوسط گیارہ فیصد سالانہ اضافہ کیا گیا ہے۔

تعلیم سے محروم، علاج معالجے سے قاصر اور غربت کے بوجھ تلے دبے اکیس کروڑ عوام کے ووٹ کی حقیقی عزت معاشی ترجیحات، خارجہ پالیسیوں اور داخلی معاشرت کی تشکیل نو میں رکھی ہے۔ پالیسی بنانے اور فیصلہ سازی کا جھگڑا کسی کی ذاتی انا سے تعلق نہیں رکھتا، یہ اداروں کا تصادم نہیں، وسائل کی کشمکش ہے۔ ثاقب لکھنوی نے شاید ہمارے بارے میں کہا تھا۔

ہے روشنی قفس میں مگر سوجھتا نہیں
ابر سیاہ جانب کہسار دیکھ کے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے