مدارس میں جمود اور کچھ مغالطے

فیسبوک کی دنیا بڑی عجیب ہے یہاں بحثیں چلتی ہیں، علمی مباحثے ہوتے ہیں اور لڑائی جھگڑوں تک نوبت آ جاتی ہے لیکن اس کی اچھی بات یہ ہے کہ جواب بھی لگے ہاتھوں آ جاتا ہے اور بہت سی دفعہ تعمیری بحثوں کے اچھے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں اور مفت کے مشورے بھی مل جاتے ہیں۔

ان دنوں فیسبوک پر ‘‘دینی مدارس میں جمود’’ پر بات ہو رہی ہے۔ کل ایک دوست کی ایک تفصیلی تحریر اس بارے میں نظر سے گزری اور آج ایک نیم جوابی تحریر بھی سامنے آئی مگر مجھے ایسا لگا کہ ان بحثوں میں بہت سی جگہ مغالطے پائے جاتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر لوگ بے جا تنقید کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یا دفاع پر کمر کس لیتے ہیں۔

چونکہ میں خود بھی مدارس کے نظام سے مستفید ہوا ہوں، اس لئے جی میں آئی کہ کچھ باتیں ان مغالطوں کے بارے میں تحریر کر دی جائیں شاید اس سے درست بات تک پہنچنے میں کچھ سہولت ہو جائے۔

پہلا مغالطہ:
یہ ہے کہ مدارس قوم کی قیادت میں کوئی کردار نہیں کر رہے اور اپنی طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں۔ اس کا جواب میری نظر میں یہ ہے کہ آج تک ہمارے مدارس ‘‘رد عمل’’ پر عمل پیرا ہیں کیونکہ موجودہ مدارس کے نظام کی ابتدا انگریزی تعلیم کے رد عمل میں ہوئی تھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاست کا رویہ مدارس کے ساتھ معاندانہ ہی ہے۔ اس کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ پاکستان میں ستر سال میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکا کہ دینی مدارس کو کس ادارے کے تحت رجسٹر کیا جائے۔ اسی طرح ریاست نے ان کو مثبت انداز میں قبول کر کے اپنانے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ حکومت کے مدارس کے بارے میں ہر اقدام سے ایسا تاثر ملا ہے کہ وہ ان کو ‘‘لگام دینا’’ چاہتی ہے ترقی نہیں۔ ایسے میں مدارس سے آپ قیادت کی امید کیسے کر سکتے ہیں کیونکہ وہ تو بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں!

دوسرا مغالطہ:
یہ کہ مدارس کے انتظامی امور میں خلل ہے اور اس میں جمود ہے۔ یہ بات بھی درست ہے لیکن سوچئے کہ جب مدارس قائم کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے اور ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق مدرسہ قائم کرتا ہے تو اس میں یکساں تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ اس لحاظ سے بہت سے مدارس نے انفرادی طور پر اچھے تجربات کئے ہیں جن کو بہرحال نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

تیسرا مغالظہ:
مدارس سے ملاؤں کے علاوہ کوئی کام کا آدمی نہیں نکلتا۔ اس بارے میں کسی عقلمند آدمی کو کچھ کہنا فضول ہے کیونکہ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ جو ادارہ جس کام کے لئے بنایا جاتا ہے، وہ وہی چیزیں پیدا کرتا ہے جبکہ ہر فن مولا لوگ دنیا کے کسی ادارے میں نہیں پائے جاتے۔ یہ بالکل ایک لچر اعتراض ہے۔ ہاں اگر مدارس مولوی پیدا نہ کریں تو یہ ان کی سب سے بڑی خرابی ہوگی۔

چوتھا مغالطہ:
مدارس کی تعلیم میں ساری توجہ کتاب فہمی پر دی جاتی ہے اور طالب علم استاد کی باتوں کو تحریر کرتا اور انہی کی بنیاد پر امتحان پاس کرتا ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ کتاب فہمی فی ذاتہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ جو لوگ ‘‘ہدایہ’’ کے متن کو سمجھ سکتے ہیں، میرے خیال میں ان کے لئے فقہ کی کسی کتاب کے مطالعے میں کوئی مشکل نہیں ہو سکتی لیکن اگر وہ اسے نہیں سمجھتے تو فقہ پر ہزار لیکچر سن کر بھی وہ اس گہرائی میں نہیں جا سکتے۔ جن اداروں میں محاضرے اور لیکچر کا طریقہ رائج ہے، اگر وہاں کے علمی ماحول کا مدارس سے مقابلہ کیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ذرا کوئی یہ بتائے کہ لیکچر یا سبق کے نوٹ بنانے اور ان کی بنیاد پر امتحان پاس کرنے میں کیا خرابی ہے؟ وہ کونسا تعلیمی ادارہ ہے جہاں نوٹ نہیں بنائے جاتے؟ یہ کام تو ارسطو اور سقراط کے شاگرد بھی کرتے تھے۔

پانچواں مغالطہ:
مدارس کا نصاب قدیم ہے اور اس میں تجدید نہیں کی جاتی۔ اس بات میں پرانی کتابوں کا حوالہ دے کر بڑا وزن پیدا کیا جاتا ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پرانی کتاب مفید ہے تو اس کے پڑھانے میں کیا حرج ہے؟ حالانکہ ہم خود اس بات کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے کہ یورپ میں صدیوں تک مسلمانوں کی کتابیں پڑھائی جاتی رہیں حالانکہ وہ مسلماں صدیوں پہلے گزر چکے تھے۔ البتہ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر مفید کتاب کے بعد مفید تر کتاب آ جائے تو اس کو اپنا لینا چاہئے۔

چھٹا مغالطہ:
مدارس میں حدیث پڑھاتے ہوئے سارا زور فقہ حنفی کو ثابت کرنے پر دیا جاتا ہے اور ان کے سماجی اور دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ فقہ حنفی کے دفاع میں کیا خرابی ہے؟ کیونکہ اصول یہ ہے کہ ہر مذہب کے پیروکار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ باقی مذاہب بھی درست ہیں لیکن میرا مذہب راجح ہے۔ اس سے زیادہ کی بات کوئی نہیں۔ اس لئے جہاں جہاں فقہی اختلاف پڑھایا جاتا ہے، اس کے آخر میں اپنے مذہب کی دلیل پیش کی جاتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سارا ذخیرہء احادیث صرف فقہی مسائل پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں زندگی کے دوسرے مسائل بھی ہیں۔ اس لئے یہ الزام دینا کہ مدارس صرف فقہ حنفی کو ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں، غلط اعتراض ہے۔

ساتواں مغالطہ:
مدارس کے طلبہ کو جو علوم پڑھائے جاتے ہیں وہ ان کی تطبیق نہیں جانتے۔ اس بات کا تعلق چونکہ عمل سے ہے نظرئے سے نہیں، اس لئے اگر مدارس وہ علوم طلبہ کو سمجھا نہیں سکتے تو یہ خرابی ہے لیکن ان کی تطبیق سے ناواقفیت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تمام تطبیقی علوم میں عملی مشق ایک الگ چیز ہوتی ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر ہاؤس جاب کرتے ہیں اور مھندس نظری طور پر علم ہندسہ کی ساری باریک بینیوں کو جاننے کے باوجود ایک دیوار نہیں بنا سکتا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اگر یہ پوچھا جائے کہ سارے پاکستاں میں میٹرک کی سطح پر الجبرا پڑھایا جاتا ہے مگر کتنے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ الجبرا کا عملی زندگی میں کوئی استعمال بھی ہے، تو اس کا جواب کیا ہوگا؟

اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مدارس پر تنقید سے پہلے مدارس کے نظام کو معروضی حالات میں دیکھنا ضروری ہے تاکہ درست تشخیص کے بعد درست اقدامات کے ذریعے معاشرے کے لئے ضروری اس نظام کو مزید اچھا کیا جا سکے۔ اس بارے میں درج ذیل باتوں کو ذہن میں رکھنا اچھا ہوگا:

پہلی بات:
ریاست اس بات کا ادراک کرے کہ مدارس اس کے معاون ہیں، دشمن نہیں۔ اس لئے ان سے دوستانہ برتاؤ کرے اور وزارت تعلیم کے تحت ایک ہی جگہ کسی بھی دیگر تعلیمی ادارے کی طرح ان کی رجسٹریشن کر کے بہتر انداز میں کام کرنے کا موقع فراہم کرے۔

دوسری بات:
جس طرح دینی مدارس کو نصاب تعلیم میں ترمیم کا مشورہ دیا جاتا ہے، یہ مشورہ سرکاری نظام تعلیم کو بھی دیا جائے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ایک مربوط نصاب تعلم رائج کیا جائے جو ہماری دینی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کو پورا کر سکے کیونکہ اس وقت ہمارا سرکاری نظام تعلیم ایک بھی امام پیدا نہیں کر سکا جبکہ مدارس کے نظام سے نکلنے والے لوگ بڑی بڑی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

تیسری بات:
نصاب تعلیم پر غور کے لئے خود مدارس والوں کو آگے آنا ہوگا کیونکہ کسی کالج اور یونیورسٹی کا وہ پروفیسر یا کوئی بڑے سے بڑا سرکاری افسر جو اس نظام سے نابلد ہے، جب بھی اس میں اصلاح کی کوشش کرے گا، اسے نقصان ہی پہنچائے گا۔ اس بارے میں مشرف دور کے ماڈل مدارس (اگر کہیں ان کا کوئی وجود ہو تو) کی کارکردگی سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

چوتھی بات:
مدارس کو اپنے مدرسین اور معلمین کی تربیت کا ایک مربوط نظام وضع کرنا چاہئے تاکہ تعیلم بہتر ہو سکے کیونکہ ہر نیا فاضل فوری طور پر اچھا مدرس نہیں بن سکتا اور اس کو تجربہ حاصل ہوتے ہوتے وقت لگتا ہے جس سے طلبہ کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔

باتیں تو اور بھی بہت ہیں لیکن طوالت سے بچنے کے لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے