گلگت بلتستان وجموں کشمیر:نیا آئینی جھانسہ

وفاق میں اقتدار کے مسند پر براجمان پاکستان مسلم لیگ نواز نے اقتدار ختم ہونے سے چند ہی روز قبل پاکستان کے زیر انتظام سابق شاہی ریاست جموں کشمیر کے دو منقسم حصوں گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آئینی اصلاحات اور اختیارات مقامی اسمبلی کو منتخب کرنے کےلئے دو الگ الگ ڈرافٹ تیار کر کے انہیں منظور کیا ہے، وفاق کے زیر انتظام قبائل علاقوں(فاٹا) کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد مسلم لیگ ن کے مذکورہ آئینی و مالیاتی حقوق مقامی اسمبلیوں کو منتقل کئے جانے کو اہم کارنامے کے طور پر گردانا جا رہا ہے ۔

گلگت بلتستان میں ”جی بی آرڈر2018“ کو کالعدم قرار دینے کےلیے اپوزیشن جماعتوں، سول سوسائٹی ، تاجران، عوامی ایکشن کمیٹی اور وکلاءکی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جبکہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 29 مئی 2018 کو عبوری آئین ایکٹ 74ءمیں ترمیم کےلئے جوائنٹ سیشن میں فیصلہ کیا جائے گا، اپوزیشن جماعتوں نے مذکورہ ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ، تاہم علیحدگی پسند قیادتوں سمیت اپوزیشن جماعتوں نے کسی قسم کے احتجاج کا تاحال فیصلہ نہیں کیا ہے۔

گلگت بلتستان کی کئی جماعتیں نئے حکم نامے سے نالاں

گلگت بلتستان میں نئے آرڈر کے خاتمے تک احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے، 27 مئی 2018 کووزیراعظم پاکستان کے گلگت بلتستان اسمبلی میں خطاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور احتجاج کیا، جوتے دکھا کر وزیراعظم پاکستان کا استقبال کیا گیا جبکہ حکومتی اراکین اور اپوزیشن اراکین کے مابین اسمبلی سیشن کے دوران ہاتھا پائی بھی ہوئی، اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے نظام کو صدارتی احکامات کے ذریعے چلانے کی بجائے یا تو پاکستان کا مکمل حصہ تسلیم کرتے ہوئے صوبہ بنایا جائے، یا پھر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی طرز پر آئینی و مالیاتی اختیارات دیے جائیں، اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی طرز پر آئینی و قانونی اختیارات دیئے جائیں۔

قبل ازیں 26 مئی 2018 کو گلگت بلتستان کے دس میں سے نو اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں اور شیلنگ میں متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 22 مئی 2018 کو گلگت بلتستان حکومت نے 2009 سے نافذ جی بی امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورنینس آڈر منسوخ کرکے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان آڈر 2018 کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر پاکستان ممنون حسین نے وزیراعظم سے مشاورت کے بعد نئے جی بی آرڈر کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔

گلگت بلتستان : ماضی میں کیسے تجربہ گاہ بنارہا؟

ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو1947ءمیں برصغیر کی سامراجی تقسیم کے بعد ریاست جموں کشمیر میں پہلے پہل چار اکتوبر 1947 کو ایک باغی حکومت کے قیام کا اعلان راولپنڈی میں کیا گیا لیکن بعد ازاں مقامی بغاوت اور قبائلی یلغار کے نتیجے میں قبضے میں لیے گئے قطعہ ارضی پر ہنگامی حکومت کے نام سے حکومت قائم کی گئی جس کا اعلان آزادی روزنامہ پاکستان ٹائمز لاہور میں مورخہ27اکتوبر1947کو شائع ہوا۔ اعلان آزادی میں لکھا گیا ہے کہ :

”ہنگامی حکومت ”جسے عوام نے کچھ ہفتے قبل ناقابل برداشت ڈوگرہ مظالم کے خاتمے اور عوام کے اقتدار کے حصول کیلئے بنایا گیا تھا“ نے اب ریاست کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور بقیہ حصے کو ڈوگرہ ظلم و تسلط سے آزاد کروانے کی امید کئے ہوئے ہے۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تشکیل نو عمل میں لائی گئی اور دفاتر کو پلندری منتقل کر کے مسٹر ابراہیم بیرسٹر کو حکومت کا عارضی صدر مقرر کیا گیا ہے۔

نئی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی مستند آواز کی ترجمان ہے کہ عوام کو ظالم اور غاصب ڈوگرہ خاندان سے نجات دلائی جا سکے۔ آزادی کی تحریک جس نے اس عبوری حکومت کو جنم دیا، 1919ءسے جاری ہے۔ اس تحریک میں جموں کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جیلیں کاٹیں ، جانوں کی قربانی دی۔ بہرحال عوام کی مستند آواز کی جیت ہوئی ہے اور حکمران کی مسلح فوج ہار گئی ہے۔

حکمران اپنے وزیر اعظم کے ساتھ کشمیر سے بھاگ چلا ہے اور شاید عنقریب جموں سے بھی بھاگ نکلے گا۔عارضی حکومت جو ریاست کا نظام اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوں گے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔

ہمسایہ مملکت ہائے پاکستان اور ہندوستان کے بہترین جذبات، دوستی اور خیر سگالی رکھتی ہے۔ امید کرتی ہے کہ دو مملکتیں کشمیری عوام کی فطری آرزو آزادی کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں گی۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سالمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔

پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے کیا جائے گا غیر ملکی مبصرین کو دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی آزادانہ رائے سے یہ مسئلہ بخیر و خوبی طے ہو گیا ہے۔“

ایک معائدہ کو 41 برس تک عوام سے چھپایا گیا

بعد ازاں یکم نومبر 1947ءکو گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا خاتمہ ایک بغاوت کی صورت میں کیا گیااور بغاوت کرنے والے ناردرن سکاﺅٹس کے اہل کاران ، افسران و مقامی قائدین نے ابتدائی طور پر 24اکتوبر کو ریاست کے ایک حصے پر قائم ہونے والی حکومت کےساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن ساتھ ہی ایک وفد کو پشاورروانہ کیا گیا اورپاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے(NWFP)(موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا)سے آزاد ہونے والے علاقوں کی حفاظت کی درخواست کی گئی جس کے بعد سردار عالم خان کو پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر بھیجا گیا اور ایف سی آر (فرنٹئیر کرائم ریگولیشن ) کا نفاذ کیا گیا اور ایک سال بعد بلتستان (سکردو اور دیگر نئے آزاد ہونے والے علاقوں ) کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔دو سال کے لگ بھگ یہ علاقے غیر علانیہ طور پر پاکستان کے ساتھ رہے جبکہ علانیہ طو رپر ”آزاد حکومت“ کے تابع رہے، حکومت پاکستان نے اس انتظام کو دوام دینے کےلئے 28 اپریل 1949ءکو ”آزاد حکومت“ سے ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے، مذکورہ معاہدہ پر پاکستان کے وزیر بے محکمہ(انچارج وزارت امور کشمیر) مشتاق گورمانی، صدر ”آزاد حکومت“ بیرسٹر ابراہیم خان، صدر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس چوہدری غلام عباس کے دستخط موجود ہیں لیکن بعد ازاں بیرسٹر محمد ابراہیم خان نے کئی مواقعوں پر تقاریر کے دوران مذکورہ معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار بھی کیا ہے۔ مذکورہ معاہدہ قریب 41سال تک سرکاری طور پر عیاں نہیں کیا گیا نہ ہی دونوں خطوں میں بسنے والے عوام کو اس معاہدہ سے متعلق کوئی اطلاع دی گئی۔

معاہدہ کراچی کی روح سے دفاع، خارجہ امور، مسئلہ کشمیر کی تشہیر، اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں مذاکرات، مہاجرین جموں کشمیر کی بحالی و آبادکاری، استصواب رائے کےلئے تعاون اور اس کی تیاریوں اور کشمیر سے متعلق تمام سرگرمیوں کا ذمہ حکومت پاکستان نے اپنے پاس رکھا، جبکہ گلگت بلتستان کا کنٹرول بھی عارضی بنیادوں پر حکومت پاکستان نے اپنے پاس رکھا اور وجہ لکھی گئی کہ ”آزاد حکومت“ اس خطے کا انتظام سنبھالنے کی اہل نہیں ہے، مذکورہ معاہدہ کے تحت ”آزاد حکومت“ کو اپنے زیر انتظام خطے میں پالیسی سازی، انتظامی امور چلانے، معاشی ذرائع کو ترقی دینے اور وزارت امور کشمیر کو مسئلہ کشمیر سے متعلق مشورے دینے جیسے اختیارات تفویض کیے گئے۔ مذکورہ معاہدہ کی بابت گلگت بلتستان کے عوام کو بھی نہ تو اطلاع دی گئی اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی ریفرنڈم کروایا گیا۔

پاکستانی وفاقی حکومتیں کیا فیصلے کرتی رہیں؟

گلگت بلتستان میں ایف سی آر کا نفاذ1971ءتک جاری رہا اس دورانیے میں ایوب خان نے 1960 میں بی ڈی (Basic Democratic) نظام کے تحت انتخابات کروائے جبکہ 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے ایف سی آر کو ختم کیا ، صرف پولیٹیکل ایجنٹ کو باقی رکھا۔1975 میں بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل قائم کی جس میں آٹھ ممبرز گلگت بلتستان سے تھے اور آٹھ وفاق کی جانب سے مقرر کردہ لوگ تھے۔بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ضیاالحق کا مارشل لا آیا تو نادرن ایریاز کو E زون قرار دیا اور پھر 1981 میں پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کا نفاذ نادرن ایریاز تک کر دیا۔ اس کے بعد 1994 میں بے نظیر نے پہلی مرتبہ گورنینس آرڈر دیا، جس کے مطابق عدالتی اصلاحات اور دیگر تبدیلیاں ممکن ہو سکیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلہ کی روشنی میں بے نظیر حکومت نے گلگت بلتستان کے نظام میں مزید ترامیم کیں جن کا نفاذ بعد ازاں مشرف دور میں کیا گیااورقانون ساز کونسل کیلئے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے ساتھ اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا ۔ کونسل کو 47 مقامی اسبجیکٹ میں قانون سازی کے اختیارات دیے۔ یہ تمام اسبجیکٹ میونسپلٹی طرز کے تھے۔ 2005 میں کورٹ آف اپیل کو سپریم اپیلٹ کورٹ کا نام دیا جو تین ججز پر مشتمل عدالت ہے۔

2007 میں کچھ اوراصلاحات لائی گئیں، دو سال کے مختصر عرصہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر2009میں نافذ کیا اور اب گلگت بلتستان آرڈر2018ءکا نفاذ عمل میں لایا جا رہا ہے ، جس کے تحت گلگت بلتستان کونسل کو ختم کرتے ہوئے اختیارات وزیراعظم پاکستان اور مقامی حکمران اشرافیہ میں تقسیم کیے جا رہے ہیں تاہم حتمی اختیارات و اقتدار کا منبع پھر حکومت پاکستان ہی رہے گی۔

گلگت بلتستان آرڈر2018ء میں گلگت بلتستان کے عوام کے لیے کچھ نیا نہیں

مذکورہ اصلاحات پاک چین اقتصادی راہداری کو تقویت پہنچانے اور پاکستانی سرمایہ داروں اور بیرونی سرمایہ کاروں کےلئے اس خطے کے وسائل لوٹنے اورخطے کے عوام کو حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کےلئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے ہی کی جا رہی ہیں جبکہ محنت کش عوام کی زندگیوں پر ان کے کچھ اثرات پڑتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں، پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کے دوبارہ نفاذ، سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمے اور اختیارات کو وزیراعظم پاکستان کے پاس منتقل کرنے کے پیچھے سوست ڈرائی پورٹ پرٹریڈ کے لائسنس کا پاکستانی شہریوں کےلئے حصول آسان بنانے اور پانچ سالہ ٹیکس چھوٹ کے ذریعے پاکستانی و بیرونی سرمایہ کاروں کو گلگت بلتستان کی جانب راغب کرتے ہوئے خطے کے وسائل کو لوٹنے جیسے مقاصد پوشیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی کےلئے حتمی اختیار وزیراعظم پاکستان کے پاس ہی محفوظ رکھا گیا ہے جبکہ شہریوں پر مزید قدغنیں اور پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

اس قانون کا اطلاق گلگت کے شہریوں پر ہوگا چاہے وہ گلگت میں ہوں یا کسی اور شہر، صوبے یا بیرون ملک ہی کیوں نہ ہوں، فوج، پولیس اور ایجنسیوں پر اس آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہو گا، مخصوص قوانین کے تحت گرفتار کئے گئے افراد کو قانونی معاونت کا حق بھی حاصل نہیں ہوگا، پاکستان یا پاکستان کے کسی حصے کی سالمیت، تحفظ اور دفاع، پاکستان کے خارجہ امور، امن عامہ اور رسل و رسائل کے امور سے متعلقہ معاملات میں گرفتار کیے گئے افراد کو تین ماہ تک مسلسل حبس بے جا میں رکھا جا سکے گا ، مزید توسیع بھی ہو سکے گی، گرفتاریوں کو پوشیدہ بھی رکھا جا سکتا ہے، غیر معینہ مدت تک غائب کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا، ملک دشمن قرار دیئے گئے افراد کو کوئی قانونی تحفظ نہیں حاصل ہوگا، نقل و حرکت کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور تنظیم سازی کی آزادی صرف ان لوگوں کو حاصل ہو گی جنہیں ریاست یہ اجازت دے گی۔نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی سیاسی جماعت بنانے یا سیاسی سرگرمی کرنے پر پابندی ہو گی۔

حتمی اختیار وزیراعظم پاکستان ہی کا ہو گا

گلگت بلتستان کی حکومت پاکستان کے وزیراعظم کی ہدایات کی پابند ہو گی۔گلگت بلتستان کی اسمبلی میں خارجہ امور، دفاع، اندرونی سیکیورٹی کے معاملات اور ججوں کے فیصلوں پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔قانون سازی کے تمام اختیارات پاکستان کے وزیراعظم کو حاصل ہوں گے اور اگر اسمبلی کوئی ایسا قانون بناتی ہے جس پر پاکستان کا وزیراعظم خوش نہیں تو اسمبلی کے قانون کے مقابلے میں پاکستانی وزیراعظم کا فیصلہ قانونی حیثیت کا حامل ہو گا اور گلگت بلتستان اسمبلی کا قانون کالعدم قرار پائے گا۔وزیراعظم پاکستان ایمرجنسی کا نفاذ کسی بھی بنیاد پر کر سکتا ہے اوروزیراعظم کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔تھرڈ شیڈول میں 62 شعبوں کا ذکر ہے جن پر قانون سازی کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو ہوگا، گلگت بلتستان اسمبلی جن شعبوں پر قانون سازی کر سکے گی ان پر قانون سازی کےلئے وزیراعظم پاکستان سے اجازت لینی ہوگی۔

گلگت بلتستان کے زمینی حقائق کس قدر تلخ ہیں؟

موجودہ وقت گلگت بلتستان پاکستان بھر میں سب سے کم فی کس آمدن یعنی 350ڈالر سالانہ کا حامل خطہ ہے جبکہ پاکستان ڈویلپمنٹ فورم انڈیکس کے مطابق پاکستان کی اوسط سالانہ فی کس آمدن 1046ڈالر ظاہر کی گئی ہے، گلگت بلتستان میں شرح خواندگی 38فیصد ہے جبکہ پاکستان کی اوسط سالانہ شرح خواندگی56فیصد ظاہر کی گئی ہے، گلگت بلتستان کے دس اضلاع کے 209دیہاتوں میں208سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جو انتہائی بوسیدہ اور وسیع آبادی کی پہنچ سے بہت دور ہیں، جبکہ کل 120نجی تعلیمی ادارے اس خطے میں قائم ہیں، موجودہ مردم شماری کے مطابق14لاکھ80ہزار آبادی پر مشتمل اس خطے کے 15 فیصد بچے سرے سے سکول ہی نہیں جاتے، مقامی سطح پر روزگار کے ذرائع سرے سے ناپید ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے شہری پاکستان کے مختلف شہروں اوربیرون ممالک روزگار کےلئے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور 48فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، صحت کی سہولیات بھی انتہائی مخدوش ہیں، 4100افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر تعینات ہے اور صرف دوران زچگی اموات کی شرح ایک لاکھ میں 600ظاہر کی جا رہی ہے جو کہ سرکاری طور پر فراہم کردہ اعداد و شمار ہیں، حقیقت اس سے بھی کئی زیادہ بھیانک ہے، 42ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے ، نوادرات، قدری جڑی بوٹیوں، دھاتوں، قیمتی پتھروں ، دریاﺅں، دلکش پہاڑی سلسلوں اور سیاحتی مراکز کے حامل اس خطے کے باسیوں کےلئے زندگی عملی طور پر ایک اذیت بنا دی گئی ہے، جمہوری آزادیوں اور سیاسی کی صورتحال یہ ہے کہ عوامی حقوق پر بات کرنےکی پاداش میں کئی سیاسی کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور انکی رہائی کےلئے کسی قسم کے اقدامات کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں سامراجی حکم ناموں کے ذریعے آئینی ، سیاسی و مالیاتی حقوق کے نام پر کئے جانے والے ڈھونگ کو عوامی سطح پر مسترد کیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت جب اپاہج ہوئی

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قائم ہونے والی ”آزاد حکومت “کو 1949ءمیں ہی عملی طور پر مفلوج کرتے ہوئے مطیع کر دیا گیا تھا اور اس سب عمل کو تقویت پہنچانے کےلئے مقامی طفیلی حکمران اشرافیہ کو استعمال کیا گیا، 60 ہزار تعداد کی حامل آزادکشمیر ریگولر فورسز(AKRF) کو پاکستانی فوج کی آزادکشمیر رجمنٹ میں تبدیل کر کے پاکستانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا، 1970ءتک ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا، 1970میں پہلی مرتبہ ایک ایکٹ کا نفاذ کرتے ہوئے صدارتی نظام کے تحت الیکشن کروائے گئے، 24 ممبران پر مشتمل اسمبلی قائم کی گئی، چار سال بعد 56بلات پر مبنی ایکٹ74ءنامی عبوری آئین کو پاکستان سے ہی ڈرافٹ کرتے مذکورہ اسمبلی سے پاس کروایا گیا اور 42 ممبران پر مشتمل پارلیمانی انتخابات1975ءمیں منعقد کروائے گئے، اسی ایکٹ کے تحت کشمیر کونسل قائم کرتے ہوئے 56 میں سے با52 بلات پر قانون سازی کا اختیار کشمیر کونسل کو دیا گیا جبکہ باقی چار پر اختیار منتخب اسمبلی کو دیا گیا، کشمیر کونسل کا چیئرمین وزیراعظم پاکستان تھا، اب نئی آئینی ترمیم کے ذریعے بھی اہم نوعیت کے اختیارت وزیراعظم پاکستان کے پاس ہی رہیں گے لیکن مالیاتی منظوریوں سمیت مقامی انتظامات سے متعلق قانون سازیوں کے اختیار کے حامل”آزاد جموں و کشمیر کونسل“ نامی ادارے کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ جو اہم نوعیت کے اختیارات بحیثیت چیئرمین کشمیر کونسل وزیراعظم پاکستان کو حاصل تھے وہی اب بطور وزیراعظم پاکستان انہیں حاصل ہوں گے

اس نئی ترمیم کے بعد مقامی طفیلی حکمرانی اشرافیہ کو کرپشن اور لوٹ مار میں آزادی اور آسانی میسر آئے گی، مذکورہ ترامیم کے بعد آزادی کے شادیانے بجانے والے حکمرانوں کی اصلیت صرف اس بات سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ آئینی ترامیم کا ڈرافٹ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے تیار کیا ہے اور اس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل فرحت میر سے مشاورت کو ظاہر کیا گیا ہے، وزیراعظم پاکستان کے مشیر کی جانب سے تیار کردہ ترمیمی ڈرافٹ کو منظور کرنے والی اسمبلی ”آزاد “کہلائے گی اور اس کے ذریعے سے اس خطے کے بسنے والے محنت کشوں کو سہولیات فراہم کرنے کے دعوے کیے جائیں گے۔ عبوری آئین ایکٹ74ءمیں کی جانے والی آئینی ترامیم کے ڈرافٹ میں لکھا گیا ہے کہ :

”موجودہ عبوری آئین آزاد جموں و کشمیر کے تحت وزیراعظم پاکستان کو بطور چیئرمین کشمیر کونسل حاصل اختیارات بشمول اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرریوں، الیکشن کمیشن، آڈیٹر جنرل وغیرہ بدستور وزیراعظم پاکستان کو حاصل رہیں گے جن پر عملدرآمد وزارت امور کشمیر کے ذریعے کیا جائے گا“۔

ساتھ ہی ذیلی شق میں لکھا گیا ہے کہ:

”ایسے سبجیکٹس جو کشمیر کونسل کی قانون سازی کی فہرست میں شامل تھے۔ آبادی کی منصوبہ بندی اور سوشل ویلفیئر، اخبارات، کتب و پرنٹنگ پریس، سیاحت، انکم ٹیکس، اثاثہ جات کی مالیتی قدر پر ٹیکس وغیرہ کو چھوڑ کر دیگر حکومت پاکستان کو تفویض ہو جائیں گے اور حکومت پاکستان کی پہلے سے موجود ذمہ داریوں اور اختیارات میں شامل ہو جائیں گے۔ اس چیز کا ذکر بھی اہم ہے کہ تھرڈ شیڈول کو پارٹ Aاور پارٹ Bمیں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ پارٹ Aمیں موجود امور خصوصی طور پر حکومت پاکستان کے سپرد ہوں گے جبکہ پارٹBمیں درج امور پر آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی قانون سازی کر سکے گی لیکن اس کےلئے حکومت پاکستان کی رضامندی لینا ہوگی“

یعنی جو اختیارات اسمبلی کو حاصل ہیں اس میں بھی حکومت پاکستان کی رضامندی ضروری ہے لیکن اکثریتی اختیارات پر قانون سازی کا اختیار ہی اسمبلی کو حاصل نہیں۔ صرف کشمیر کونسل کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کونسل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقوم آزاد جموں کشمیر کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں منتقل ہوجائیں گے جس سے اس خطے کے حکمرانوں کو کشمیر کونسل کے ذمہ داران میں کمیشن تقسیم کرنے سے آزادی مل جائے گی۔ جبکہ عام محنت کش عوام کا مقدر مزید پابندیاں، قدغنیں ، معاشی و سماجی بربادی ہی رہے گی۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حالت زار

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے باسیوں کے حالات زندگی کا جائزہ لیا جائے تو آبادی کا بڑا حصہ عرب کے صحراﺅں اور یورپ کی یخ بستہ فضاﺅں میں بسلسلہ روزگار مقیم نظر آئے گا، مقامی سطح پر روزگار کے ذرائع سرے سے موجود نہیں ہے، آزادکہلانے والی ریاست سرکاری محکمہ جات میں ایک لاکھ کے لگ بھگ نفوس کو روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، چالیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس خطے میں شرح خواندگی 62فیصد ہے لیکن محض دو فیصد گریجویٹس ہیں، لیکن 65 فیصد نوجوان آبادی پر مشتمل اس خطے کے 50 فیصد سے زائد نوجوان بیروزگار ہیں، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں معاشی بحران کے بعد ایک بڑی تعداد تارکین وطن محنت کشوں کی بےدخل ہوکر واپسی کی تیاریاں کر رہی ہے، جس سے بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا، خطہ کی 88 فیصد آبادی دیہی ہے جبکہ صرف 13 فیصد اراضی قابل کاشت ہے، فی کس آمدن 600 ڈالر سالانہ ظاہر کی گئی ہے، جبکہ ہر ایک ہزار میں سے 58بچے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم خوراکی اور قابل علاج امراض سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں، ہر ایک لاکھ میں سے 201بچے دوران زچگی موت کا شکار ہو جاتے ہیں، پانچ ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کےلئے محض ایک ڈاکٹر اور 1309نفوس کےلئے ایک ہسپتال کا بستر میسر ہے، زلزلہ میں متاثر ہونے والے سکول بھی تاحال تعمیر نہیں کئے جا سکے، سرکاری تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر تباہ کرتے ہوئے تعلیم کے کاروبار کو فروغ دینے کےلئے سرکاری سطح پر پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں، حالیہ بجٹ جسے اس خطے کی تاریخ کے سب سے بڑے حجم والا بجٹ قرار دیا جا رہا ہے میں بھی ایک بھی نئی ڈسپنسری، نئے سکول، کالج یا یونیورسٹی کے قیام کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، روزگار کی فراہمی کےلئے کسی قسم کی منصوبہ بندی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی تعلیم، صحت و روزگار میں بہتر ی کےلئے کوئی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے نفاذ ، بجلی کی لوڈشیڈنگ ، آئینی و سیاسی حقوق کی فراہمی کےلئے گزشتہ چند سالوں میں متعدد تاریخی احتجاج کئے گئے ہیں، جبکہ حال ہی میں نافذ ہونےوالے جی بی آرڈر2018 کے خلاف بھی احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے جس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ واضح طور پر اعلان کیا جا رہا ہے کہ اب پاکستانی حکومت کی جانب سے نافذ کئے جانے والے حکم ناموں کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا.

کیا نئے حکم نامے محض وفاقی حکومت اور مقامی اشرافیہ کے لیے مفید ہیں؟

گزشتہ ستر سال سے مسئلہ کشمیر سے منسلک ان دونوں خطوں کو آئینی، سیاسی و مالیاتی حقوق کی فراہمی کے نام پر سامراجی حکم ناموں کے ذریعے ہر چند سال بعد مقامی حکمران اشرافیہ کو مزید مضبوط کرتے ہوئے ان علاقوں پر سامراجی تسلط کو مزید تقویت دیے جانے کو ہی ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ ان دونوں خطوں کے وسائل، ذخائر اور بیرون ممالک سے آنےوالے زرمبادلہ سے مستفید ہونے کا حق بھی انہی خطوں کے عوام کا ہے، لیکن سامراجی طورپر موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کیا جانے والا ہر فیصلہ، ہر آئینی ترمیم اور ہر نیا حکم نامہ اس خطے کے عوام کو کسی قسم کے حقوق دینے کی بجائے استحصال اور لوٹ کھسوٹ کو ہی دوام بخشے گا

پاکستانی حکمران طبقات گزشتہ ستر سال سے اس خطے کے وسائل کو لوٹنے کےلئے اور خطے پر تسلط کےخلاف ممکنہ احتجاج و بغاوت کو روکنے کےلئے آئینی اصلاحات کے نام پر نان ایشوز کو مسلط کرتے ہوئے جس لوٹ مار اور استحصال کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اس کا خاتمہ پھر ان دونوں خطوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی مشترکہ جدوجہد اور ظالمانہ نظام زر کے خاتمے سے مشروط ہے جسے پاکستان کے محنت کشوں ، نوجوانوں اور مظلوم قومیتوں سے مل کر ہی لڑا جا سکتا ہے۔

مزدور ہوں محنت کا صِلہ مانگ رہا ہوں
حق دیجیے، خیرات نہیں چاہیے مجھ کو
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے نہ کبھی بھوک مِٹی ہے
لفظوں کی سوغات نہیں چاہیے مجھ کو
مخلص ہو تو تقسیم کرو زر کو ابھی سے
وعدوں کی سیاہ رات نہیں چاہیے مجھ کو
(تنویر سپرا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے