آزادکشمیرکا 13واں آئینی ترمیمی بل: بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

کافی لے دے اور تگ و دو کے بعد آج 28 مئی 2018 کوآزاد کشمیر اسمبلی میں آزاد کشمیر کے عبوری آئین 1974 کا تیرواں ترمیمی آئینی بل پیش کیا گیا-اس کے اغراض و مقاصد میں لکھاہے کہ پاکستان کے آئین میں صوبوں کو بااختیار ہونے والی ترامیم کی روشنی میں آزاد کشمیر کو انہی خطوط پر بااختیار بنانے کے لئے یہ بل پیش کیا جارہا ہے جبکہ سینئر وزیر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ اس بل سے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے اتفاق کیا ہے اور توقع ہے کہ منگل کو مرکزی کابینہ بھی اس سے اتفاق کرے گی جس کے بعد جوائنٹ سٹنگ میں اس کو پاس کیا جائے گا تاہم بل کے پیش کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے-

بل کا شق وار جائرہ لیا گیا جس کے مطابق اب اب آئین کو ایکٹ کہنے کے بجائے صرف عبوری آئین کہا جائے گا اور اس کی دفعات کو سیکشنز کے بجائے آرٹیکل اور سب آرٹیکل کہا جائے گا- بل کے ذریعہ آئین میں پاکستان کے آئین کی طرز پر principles of policy ، “ رہنما اصول “کے طور چند دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے جن کی روشنی میں قانون سازی اور حکومت اپنی پالسیاں بنائے گی- ان دفعات کابہر حال بطور حق نفاذ نہیں کرایا جا سکتا اور نہ ہی ان کی بنیاد پر کوئی شخص کوئی دادرسی حاصل کرسکتا ہے-

یہ صرف اکتسابی نوعیت کی دفعات ہیں-پاکستان کے آئین میں درج ان بنیادی حقوق کا بل کے ذریعہ اضافہ کیا گیا ہے جو پہلے آئین میں شامل نہیں تھے، یہ خوش آئند اضافہ ہے جس میں فئیر ٹرائل، دوہری سزا کی ممانعت، انسان کی تقدیم ،حق اطلاعات، حق تعلم، زبان، تہذیب اور رسم الخط کا حق قابل ذکر ہیں-

جوائنٹ سٹنگ کو حذف کیا گیا ہے، صدر ریاست پر پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ وزیر اعظم کے مشورے پر اگر سات روز کے اندر عمل نہیں کریں گے تو اس کے بعد سمجھا جائے گا کہ اس پرعمل ہوگیا ہے-

بل میں بہت ساری دفعات میں لفظ “ وزیر اعظم کے مشورے کے مطابق صدر عمل کرے گا” کا تکرار کیا گیا ہے جو نامناسب اور ڈرافٹنگ کے اصولوں کے خلاف ہے – اس کے بجائے دفعہ 7 کی ذیلی دفعہ ایک کی اس طرح ترمیم کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا؛

“ In performance of his functions under constitution and law, the president shall act on and in accordance with the advice of pm and that advice shall be binding on him”.

وزراکی زیادہ سے زیادہ تعداد اسمبلی ممبران کا 30 فیصد مقرر کی گئی ہے جبکہ وزیراعظم دو مشیر اور دو سپیشل اسسٹنٹس کے علاوہ اسمبلی ممبران میں سے پانچ پارلیمانی سیکریٹری بھی مقرر کر سکیں گے –

وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی کے کل ممبران کی پچیس فیصد پاس کر سکے گی- شیڈول تین میں شامل معاملات کے دو حصے ہیں جن کے حصہ اول پر صرف مرکزی حکومت قانون سازی کر سکے گی جبکہ دوسرے حصے پر مرکزی حکومت کی اجازت سے آزاد کشمیر کو بھی اختیار ہوگا-

یہ سارے معاملات آئین پاکستان کی فیڈرل لسٹ کے مطابق ہیں تاہم ہر قسم کے ٹیکس لگانے کا اختیار آزاد کشمیر کو حاصل ہوگا-

حکومت ان قوانین پر عمل کرنے کی پابند ہوگی – آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتیں اپنے اختیارات ایک دوسرے کو منتقل کرنے کے مجاز ہونگے -کونسل موجود رہے گی لیکن اس کی حیثیت مرکز سے متعلق معاملات پر مرکز کو مشورہ دینے کی حد تک ہوگی- اس کے اثاثے ، ذمہ داریاں اور مستقل ملازمین حکومت آزاد کشمیر کو منتقل ہو جائیں گے-

اس میں اس اضافہ کی ضرورت ہے کہ “ سوائے مستعار الخدمتی اور غیر ریاستی باشندوں کے منتقل ہوں گے”- کونسل کے بنائے ہوئے قوانین کو تحفظ دیا گیا ہے -حکومت پاکستان کا گیارہ مئی 1971 کا نوٹیفکشن پاکستان حکومت کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ہوگا-مناسب ہے کہ یہ نوٹیفکیشن شیڈول میں رکھا جائے تاکہ آئین کا حصہ بن جائے -اسمبلی ممبران کی تعداد 53 مقرر کی گئی ہے- مہاجرین مقیم پاکستان ممبران اسمبلی کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہےحا لانکہ بیرون آزاد کشمیر قانون سازی کا اختیار اسمبلی کو حاصل نہیں ہے-آزادکشمیر کی خود مختاری بدستور غیر رہائشی ممبران کی محتاج رہے گی –

اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی آئین کا حصہ بنایا گیا ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان بھی بدستور موجود رہے گی- ہائی کورٹ میں شریعٹ اپیلٹ بنچ بنایا گیا ہے جو چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے علاوہ عالم جج پر مشتمل ہوگی- اپیلٹ بنچ کے بجائے اس کا نام“ شریعت بنچ آف ہائی کورٹ” رکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا-ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ مین ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے تاہم چیف الیکشن کمشنر کے بجائے الیکشن کمشن بنایا گیا ہے جس کے تین ممبر ہوں گے اور چیف الیکشن کمشنر سربراہ ہوگا جس کی تقرری کونسل کی ایڈوائس پر ہی ہوگی اور مدت پانچ سال ہوگی -مو جودہ چیف الیکشن کمشنر کو تحفظ دیا گیا ہے-

مجموعی طور دیکھا جائے تو جتنی ہائیپ بنائی گئی تھی اتنا کچھ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ انکم ٹیکس اور کنسالیڈیٹد فنڈ آزاد کشمیرکو ملا ہےجو ٹھوس تبدیلی ہے اور مالی خود مختاری کی طرف ایک قدم ہے ، باقی موجودہ دفعات کی تفصیل اور اکتسابی نوعیت کے معاملات ہیں –

اعلیٰ عدلیہ، چیف الیکش کمشنر بدستور کونسل بہ الفاظ دیگر حکومت پاکستان کے پاس ہی رہیں گے اور مرکز کے متعلق قانون سازی کونسل کے بجائے حکومت پاکستان کرے گی اس میں آزاد کشمیر کا کوئی مقام نہیں ہوگا، ان میں آزاد کشمیر کے مفادات کی ترجمانی اور تحفظ کون کرے گا ؟ اس کے لئے حسبناللہ و نعم الوکیل کے وظیفے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے