اجتماعی تحلیل نفسی کی ضرورت

استعماری تجربے نے ہماری قومی نفسیات اور رویوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، ان کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لینے کی ابھی تک کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ ان اثرات کو "شناخت کے بحران” کا جامع عنوان دیا جا سکتا ہے۔ اپنی تہذیبی شناخت ختم ہو جانے کے بعد استعمار زدہ معاشرے کرچیوں میں بکھر گئے ہیں اور ہر کرچی اپنی شناخت متعین کرنے کے وجودی سوال سے نبرد آزما ہے۔

مذہبی فرقہ واریت، روایت اور جدیدیت، مشرقیت اور مغربیت، اسلام پسندی اور سیکولرازم، قومیت پرستی اور پان اسلام ازم کے سارے تنازعات اسی بحران کے مختلف مظاہر ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ ساری کرچیاں باہم اس طرح برسرپیکار ہیں جیسے ان کا اصل حریف ان کی مخالف کرچیاں ہوں، حالانکہ وہ بھی انھی کی طرح ستم زدہ اور شناخت کی تلاش میں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اختلاف کو محض فکر ونظر کے اختلاف کے طور پر دیکھنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا، کیونکہ بظاہر معمولی سے اختلاف کے ساتھ بھی شناخت کی تعیین کا تحت الشعوری احساس جڑا ہوا ہے جسے انسانی شعور زندگی اور موت کے مسئلے کی طرح دیکھتا ہے۔ یوں فکری اختلاف کم وبیش ذاتی اختلاف بن جاتا ہے اور اس جبر کو محسوس کیے بغیر بڑے بڑے سنجیدہ اہل فکر اسی زاویے سے اظہار اختلاف پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔

ہمیں اجتماعی تحلیل نفسی کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے