ٍفاٹا بل اور مالاکنڈ ڈویژن کے تحفظات

قبائلی علاقہ جات کو پاکستانی آئین کے سائے میں لانے کے لیے حال ہی میں قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت سینیٹ سے منظورکردہ 31ویں آئینی ترمیمی بل سے مالاکنڈ ڈویژن کے عوام میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے اور اس بارے میں سوالات ، تحفظات،تشویش اور خدشات کی طومار لئے سیاسی اور عوامی سمیت سماجی حلقے بھی ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ اصلاحاتی بل میں 1973ء آئین کے آرٹیکل 247کے مکمل خاتمے اور246 میں ترمیم کے ذریعے فاٹا کے ساتھ پاٹا کو آئین سے حذف کرنے سے مالاکنڈ ڈویژن کی مخصوص اور جداگانہ حیثیت بے اثر ہوکر رہ گئی ہے۔ اصلاحاتی بل سے ایک طرف فاٹا یعنی( فیڈرل ایڈمنسٹریٹیو ٹرائبل ایریا) میں شامل علاقہ جات خیبر ایجنسی ، مہمند ایجنسی ، باجوڑ ایجنسی ، کرم ایجنسی ، اورکزئی ایجنسی اور شمالی وجنوبی وزیرستان ایجنسیوں کے عوام کے لئے بل خوش بختی کی علامت سمجھی گئی ہے اور ہر جانب سے اس پر مبارکبادیں اورخوشیوں کے شادیانے بجانے کی اطلاعات کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی کریڈٹ لینے کی دوڑ نمایاں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے تودوسری طرف پاٹا یعنی (پراونشل ایڈمنسٹریٹیو ٹرائبل ایریا) میں شامل مالاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع سوات ، بونیر ، چترال ، دیر لوئر ، دیر اپر، شانگلہ اور مالاکنڈ کے عوام کے لیے یہ بِل بدبختی کی علامت کے علاوہ اس سے یہاں تذبذب اور سراسیمگی سمیت انارکی کی فضا بنی ہوئی ہے اگرچہ قبائلی علاقہ جات فاٹا کے انضمام کا ایشو شروع ہی سے چلاآرہاتھا اور قبائلی عوام انگریز کے کالے قوانین خصوصاً ایف سی آر سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر دور میں آواز اٹھاتے رہے ہیں اور ان کی اپنی ایک الگ تاریخی پس منظر ہے تاہم پاٹامالاکنڈ ڈویژن کا ان علاقوں سے موازنہ کرنا یا اس کی آزادانہ اور مخصوص حیثیت کو فاٹا انضمام کے فیصلے میں ضم یا شامل کرنا کسی بھی طور درست نہیں کیونکہ مالاکنڈ ڈویژن میں سوات ، دیر اور چترال کی ریاستیں پاکستان کے آزاد ہوئے بائیس تئیس سالوں بعد اس میں ضم ہوگئی تھی اور اُس وقت کے پاکستانی’’ معاہدوں‘‘ کے تحت اسے اس لئے مخصوص حیثیت سے نوازا گیا تھا کہ ایک تو اس علاقہ میں پسماندگی ،غربت اورجہالت کا دوردورہ تھا تو دوسری یہ کہ اس نے قربانی دے کر پاکستان کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں مذکورہ آرٹیکل کے تحت اسے دیگر مراعات کے علاوہ ٹیکس فری زون کی چھوٹ حاصل ہوگئی تھی جو کہ مذکورہ بل کی منظوری سے اب ختم کردی گئی ہے تیسری یہ کہ معاہدے یکطرفہ ختم نہیں ہوتی بلکہ باہمی مشاورت سے معاہدے توڑے اور جوڑے جاتے ہیں لیکن یہاں مشورہ کئے بغیر فاٹا میں پاٹا کو قربان کردیا گیا ہے اب امکان ہے کہ آئندہ چند وقتوں میں یہاں کسٹم ایکٹ ، جنرل سیلز ٹیکس اور پراپرٹی سمیت انکم ٹیکس کے نفاذ ممکن ہوجائے گی جس کے بعد خدشہ ہے کہ ایک بار پھر ڈویژن میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

ادھر فاٹا اصلاحاتی بل کی منظوری میں پاٹا کی قربانی کے بعد عوامی سطح پر درجن بھر سیاسی جماعتوں اور صوبائی سمیت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی کا حق اداکرنے والے افراد کے خلاف ایک لاوا پھٹ پڑا ہے اورڈویژن کے ساتوں اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز شیر اکبربونیر ، مراد سعید سوات ، سلیم رحمان سوات ، عباداللہ شانگلہ ، افتخار الدین چترال ، محمد یعقوب دیر لوئر، طارق اللہ دیر اپر اور جنید اکبر مالاکنڈ پر تنقید کے نشتر چلائے جارہے ہیں شاید انہیں پتہ ہی نہ تھا کہ فاٹا کی خیبر پختون خوا میں انضمام کے دوران اس کا براہ راست مالاکنڈ ڈویژن پر کوئی اثر پڑے گا یا اس کی ایسی کوئی شامت آئے گی یہی وجہ ہے کہ اراکین اسمبلی اپنی قوم کا مقدمہ بہتر طریقے سے نہیں لڑسکے ہیں اور یا باالفاظ دیگر اسمبلی کے آخری سیشن سے فائدہ اٹھا کر’’ کچھ دو کچھ لو‘‘ پر اکتفا کیاجاچکا ہے اِن اراکین اسمبلی میں صرف جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحب زادہ طارق اللہ نے اسمبلی فلور پر آواز اٹھائی مگر ان کی آواز بھی نقارخانے میں طوطے کی آواز کی مانند ثابت ہوئی ‘ان کی تقریر ہی ڈویژن کی دفاع نہیں بلکہ پانی سر سے گزرنے کی طرف اشارہ کررہی تھی ان کا یہ اعتراف کہ وزیر قانون کے مطابق فاٹا انضمام میں پاٹا شامل ہوگی دراصل ان کی کم علمی اور پیشگی عدم تیاری کی بڑی وجہ قرار پائی ہے حالاں کہ جماعت والوں نے ان کی اسمبلی فلور والی تقریر پر اچھا خاصہ فاتحانہ انداز بھی اپنا یاہوا ہے جماعت اسلامی ہی کے مرکزی آمیر سینیٹرسراج الحق نے بھی اس حوالے سے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیاحالاں کہ یہی ڈویژن جماعت اسلامی کا گڑھ بلکہ منی منصورہ ہے اور سراج الحق کا آبائی ڈویژن ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں کردار یا حصہ اسی ڈویژن کی مرہون منت ہوتی رہی ہے

یقیناًجماعت کی کوششوں اور حمایت کی بدولت فاٹا انضمام کا ناممکن منصوبہ ممکن ہوگیا ہے تاہم جماعت نے اس سے قبائلی علاقوں میں ووٹ بنک تو پیدا کیا لیکن انتخابی حلقہ مالاکنڈ ڈویژن میں ووٹ بنک شدیدمتاثرکیا ہے یہاں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی خصوصاً سوات سے مراد سعید جو عمران خان کے انتہائی قریب ہے اور شانگلہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم این اے ڈاکٹر عباداللہ جو وزیر اعظم کے مشیر انجینئر امیر مقام کے بھائی ہے ‘کا کردار بھی انتہائی شرمناک اور مایوس کن رہاہے اسی طرح مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی ایم این اے جنیدا کبر بھی مذکورہ ایم این ایز کی طرح ’’شُد،بُد‘‘ کا شکار ہوئیں اور انہیں بھی اُس وقت شدید دھچکا لگا جب اسمبلی ہی میں ان کے علم میں آیا کہ فاٹا کی حمایت میں ان کی اپنی پاٹا بھی ختم ہوگی تو اُسی روز اسمبلی میں عمرا ن خان کے سنگ میں بیٹھے شاہ محمود قریشی کے پاس گئے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا مگر پھر وہی بات کہ پانی سر سے گزر گئی ہے کوئی پیش بندی نہیں کی جاسکی واقفان حال کا کہنا ہے کہ اسی صورت حال میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر زاہد خان نے انہیں مشورہ دے ڈالا کہ اسمبلی فلور پر مالاکنڈ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کے لیے آواز اٹھائی جائے ۔

اراکین اسمبلی کی اسی نااہلی اور غیر ذمہ دارانہ کردار کوبھانپتے ہوئے ڈویژن میں تمام سیاسی جماعتوں ،سو ل سوسائٹی ،وکلاء ،صحافتی ،تاجراور ٹرانسپورٹ برادری مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے دھمکی دی ہے کہ اگر فوری طورپر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو منظم طور پر تحریک کا آغاز کیا جائے گا جس میں ڈویژن میں مکمل شٹرڈاؤن ،احتجاجی مظاہرے ، ہڑتالی کیمپ اور لانگ مارچ کے علاوہ عام انتخابات سے بائیکاٹ کااعلان کیا جائے گا ادھر ڈویژن میں اصلاحاتی بل کی منظوری کے خلاف جاری احتجاج کے پیش نظر اراکین اسمبلی سمیت عام لوگ سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کیا ہوگاسوال اٹھ رہا ہے کہ اصلاحاتی بل سے کسٹم ایکٹ ، جنرل ،سیلز ٹیکس اور انکم سمیت پراپرٹی ٹیکس نافذ ہوجائیں گے اور اگر ٹیکسز کا نظام نافذ ہوگا بھی تو فاٹا بل کی منظوری میں تجویز کردہ مراعات یعنی این ایف سی ایوارڈ میں دس سال تک چوبیس ارب روپے اور سالانہ سو ارب روپے میں پاٹا( مالاکنڈ ڈویژن بشمول کوہستان) بھی شامل ہوگا یا یہ سہولت صرف فاٹا کے قبائلی علاقوں کے لیے تجویز کی گئی ہے بہر کیف ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے عوامی غیض وغضب سے بچنے کے لیے صوبائی اسمبلی کے آرٹیکل 144کے ذریعے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے کہ مذکورہ بل میں پاٹا مالاکنڈ ڈویژن کو حاصل مراعات واپس کئے جائیں جس کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ پاٹا مالاکنڈ ڈویژن کے لیے پہلے سے موجود حاصل مراعات وسہولیات بحال ہوگی اور اگر یہ ممکن نہیں ہوا تو یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں ایک بار پھر احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے