انتیس مئی کی شام کیاہوا …؟

"He is No More Prime Minister”

انتیس مئی کی شام وزیراعظم محمد خان جونیجوچین ،فلپائن اور کوریا کا سرکاری دورہ مکمل کر کے واپس وطن پہنچ رہے تھے ، اسلام آباد ہوائی اڈے پر ان کی پریس کانفرنس کا اہتمام تھا زیرو پوائنٹ پر ’پاکستانی‘ بھی ہوائی اڈے کی طرف رواں دواں تھا کہ زیرو پوائنٹ پر ’فوکسی ‘کو لاحق بیٹری کی پرانی دائمی بیماری نے غلط وقت پر آگھیرا دور دور تک دھگہ لگانے والا بھی ناپیداس دوران وفاقی وزرا اور مسلم لیگی لیڈروں کے وی آئی پی قافلے شور مچاتے دُھوڑ اڑاتے گزر رہے تھے …،
کیا بڑے بڑے نام تھے وزیرخزانہ میاں یاسین وٹو ، وزیر داخلہ اسلم خٹک، وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان، وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین،قانون کے وزیروسیم سجاد،انور عزیز، ملک محمد نعیم،حاجی سیف اللہ خان، بیگم کلثوم سیف اللہ، رانا نعیم اور اقبال احمد خان سمیت ایک لمبی فہرست تھی …
اب نا نام یاد ہیں نہ چہرے…!
اتنے میں جنگل سے دو مقامی نوجوان اترے ان کی مدد سے فوکسی سٹارٹ ہوئی تو شاہی قافلوں کے پیچھے فراٹے بھرنے لگی ٹوٹے سائلنسرکے باعث اس کی آواز پروٹوکول کے ہوٹروں سے کم نہ تھی…،
تمام رکاوٹوں سے گزر کر ’پاکستانی ‘وزیراعظم محمد خان جونیجو کے سامنے تھا …
وزیراعظم نے گفتگو کا آغاز اپنے دورے میں سمیٹی کامیابیوں سے کیا،
کامیابیوں کی فہرست طویل ہونے لگی تو اخبار نویسوں نے سوالات کے لئے ہاتھ کھڑے کرنا شروع کئے تو سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا … یہ پریس کانفرنس ایک ایسے سیاسی ماحول میں منعقد ہو رہی تھی جب اوجڑی کیمپ میں ہونے والے دھماکوں سے بارود کی بو اور مرنے والوں کے گھروں سے آہوں ،سسکیوں کی بازگشت ابھی تھمی نہ تھی ،اوجڑی کیمپ کے سانحہ کی تحقیقات کیلئے محمد اسلم خان خٹک کی سربراہی میں قائم اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ مرتب کے شائع ہونے کا انتظار تھا ، مگر اس سے پہلے ہی ذمہ داروں کی فہرست میں شامل کئی بڑے بڑے نام گردش میں تھے جن حاضر سروس جرنیلوں کا بھی ذکر تھا ، توقع کی جا رہی تھی کے وزیراعظم اپنے غیر ملکی دورے سے واپسی پر رپورٹ شائع کر دینگے …!
دوسری جانب رپورٹ رکوانے کیلئے وزیراعظم پر دبائو کا تاثر بھی گہرا تھا …!
’پاکستانی‘ نے اسی پس منظر پروزیراعظم سے سوال کیا کے جناب یقینا آپ کا دورہ کامیاب رہا مگر اِس وقت ملک میں اوجڑی کیمپ کی رپورٹ کے حوالے سے آپ کی رخصتی کی بھی باتیں ہو رہی ہیں ، آپ کیا کہیں گے…؟
نہیں نہیں …ایسی کوئی بات نہیں آج صرف میرے دورے کی کامیابی کے بارے میں بات کریں…،
عین اسی لمحے وزارت اطلاعات کے ایک اعلیٰ آفیسر ملک فضل الرحمن ہال میں داخل ہوئے جنہوں نے ایک ایک اخبار نویس کے پاس جا کر سرگوشی میں اطلاع دی کہ ابھی کچھ دیر بعد صدر جنرل ضیاء الحق اولڈ پریذیڈنسی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرینگے…!
اس اطلاع پر اخبار نویسوں نے ایک دوسرے کی جانب معنی خیز نگاہوں سے دیکھا ، کچھ کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق چین کے دورے پر جانے والے ہیں شاید اسی بارے میں بات کریں، مگر ’پاکستانی‘ سمجھ گیا کہ کیا ہونے والا ہے …؟
اس اطلاع کے بعد وزیراعظم کی پریس کانفرنس زیادہ دیر جاری نہ رہ سکی اور سب اولڈ پریذیڈنسی کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے ’ پاکستانی‘ کے سامنے پھر دھکے مسئلہ تھا، یہاں لوگ تو بہت تھے مگر دھکا دینے کیلئے کسی کے پاس وقت نہ تھا…،
خیر جیسے تیسے فوکسی سٹارٹ ہوئی ،مال روڈ کچہری چوک کے سنگم پر اولڈ پریذیڈنسی کی اونچی دیواریں دیکھی بھالی تھیں مگر اس شاہی محل میں داخلے کا پہلا موقع تھا ، جو ماضی میں کم و بیش ہر حکمران کا مسکن رہا …،
جنرل ضیاء سے پہلے صدر فضل الٰہی چوہدری بے اختیار صدر کے طور پر مقیم یا ’قید‘تھے …!
مگر اس وقت محل کا مکین سیاہ و سفید کا مالک تھا …!
جونہی فوکسی آئینی گیٹ پر پہنچی تو پتہ نہیں کیا کیفیت تھی کے ایکسیلیٹر پرپائو ںکا دبائو بڑھتا ہی چلا گیا ، پھٹے سائلنسر کی گونج بے ہنگم آواز نے افراتفری ، سراسمگی پھیلا دی …،
سکیورٹی گارڈز اور فوج کے جوان تیزی سے فوکسی کی جانب چھپٹ سے پڑے …،
کیا کر رہے ہو بند کرو…!
کون ہو…؟
بند کرو…!
بند ہوگئی تو سٹارٹ نہیں ہوگی …جواب دینے کے بجائے انہوں نے تقریباً گھسیٹ کر مجھے باہر نکالاکہا تم جائو ہم کر لینگے اور گاڑی بند کر دی…،
جونہی کانفرنس حال میں داخل ہوا …
جنرل ضیاء الحق نے آئین کی کتاب کھول رکھی تھی جس کا رخ اخبار نویسوں کی جانب تھا …،
وہ کہ رہے تھے …’میں نے آئین کی آرٹیکل 58 2(b)(آٹھویں ترمیم)کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے حکومت ختم کر دی ہے …!‘‘
سوال ہوا کیا آپ نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے…؟
”He is no more Prime Minister ”
جنرل ضیاء الحق نے یہ کہتے ہوئے خوفناک قہقہ لگایا …
جس میں رعونت، تکبر،طاقت کے زعم کاعجیب سا آ سیبی تاثر تھا …جس کے سائے آج بھی آس پاس محسوس ہوتے ہیں…!!
فوکسی کو واگزار کرا کے واپس ایمبسی روڈ کی گلی نمبر چھیاسی میں پہنچاجہاں حکمران جماعت کا صدر دفتر تھا ،شام اندھیرے میں ڈھل چکی تھی ، گلی میں بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں مگر اندھیرا تھا …،
پارٹی دفتر کے گیٹ کے دوسری جانب ایک سایہ سا کھڑا نظر آیا قریب جا کر دیکھا تو
وہ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو تھے …!!
سائیں کیا ہوا …؟
کچھ نہیں اقبال احمد خان کا انتظار کر رہا ہوں…،
شاید واحد وزیر ان کے غمگسار تھے جو ان کے ساتھ ہوائی اڈے سے واپس آئے تھے جنہوں نے آخری سانسوں تک وفاداری نبھائی …،
باقی وزراء بڑے بڑے قد آور لیڈر ائیر پورٹ سے ہی راستہ بدل چکے تھے …!!
اُس لمحے پارٹی دفتر پر قبضے کا ہنگامہ برپا تھا …،
مسلم لیگ جونیجو دم توڑ چکی تھی …مسلم لیگ (ن) جنم لے رہی تھی …!
آج پھر انتیس مئی ہے …
کیلنڈر بدل گیا مگر لگتا ہے ماضی کا منظر نہیں بدلا…!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے