فاٹاکاانضمام ۔۔۔چندسوالات ۔۔؟

مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سال میں اتنی تیزی نہیں دکھائی جتنی تیزی اپنی مدت ختم ہونے سے قبل آخری دنوں میں دکھائی ہے حکومت کوجوکام پہلے سال میں کرناچاہیے تھے وہ آخری پانچ دنوں میں کرکے جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ کام جومتفقہ ہونے چاہیے تھے وہ اکثریتی رائے سے ہورہے ہیں اورسیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے اختلاف پایاجارہاہے فاٹاکامعاملہ ہی لے لیں کہ ڈنڈے کے زورپربرسوںپرانامعاملہ پل بھرمیں حل کرنے کی کوشش کی گئی اورحکومت قومی اسمبلی سے فاٹابل کودوتہائی سے محض ایک ووٹ کے اضافے سے منظورکرواسکی ۔یہی وجہ ہے کہ اس معاملے پرجمعیت علماء اسلام نے شدیدردعمل دیا اورخیبرپختونخواہ اسمبلی کے باہراحتجاج کیاجس پرپولیس حرکت میں آئی اورمظاہرین کوشدیدتشددکانشانہ بنایا ۔

گزشتہ روزجمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمن کی رہائش گاہ پرحاضری ہوئی جہاں مولانانے پریس کانفرنس کااہتمام کررکھا تھا ا پریس کانفرنس کے بعد مولانافضل الرحمن سے خصوصی نشست بھی ہوئی جس میں انہوں نے اپنے درددل کااظہارکیا مولانافضل الرحمن نے کہاکہ فاٹا انضمام کامعاملہ قبائل جرگہ کے سامنے رکھوں گا یہ کام اسمبلی نے خود نہیں کیا بلکہ اس سے کروایا گیاہے اب عوامی ردعمل آنا شروع ہوگیاہے ،مستقبل میں فاٹا کے عوام کو ایک بار پھر ایندھن بنانے کی سازش ہورہی ہے ،اب بھی وقت ہے فاٹا انضمام پر وہاں کے عوام کی رائے لی جائے حکومت اور وزرا اعتراف کرچکے کہ فاٹا انضمام ہماری رائے اور حقائق کے خلاف ہے ،خود مانتے ہیں کہ زمینی حقائق وہی ہیں جو فضل الرحمن کہتا آرہا ہے،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور عبدالقادر بلوچ نے فاٹا انضمام نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی ،رواج ایکٹ پر کارروائی روک دی جائے گی کی یقین دہانی کرائی،ہم نے سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کی توسیع پر بھی اتفاق رائے نہیں کیا تھا،مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ پاٹا کے عوام اس عمل پر اپنے نمائندوں کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں،اس بل کو ترمیم میں شامل نہیں کیا بلکہ قرارداداوں کے پیچھے چھپتے پھر رہے ہیں،فاٹا میں ایف سی آر کا خاتمہ تو ہوا لیکن نیا نظام شروع نہ ہوسکا،میں نے بند کمروں اور کھلے عام بھی اپنا موقف سب کے سامنے کہا ،جنرل باوجوہ اور وزیر اعظم سے کہا کہ افغانستان کی جانب سے مشکلات آسکتی ہیں

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھاکہ نواز شریف اور انکی جماعت نے 5 سالہ وفاداری کو جو صلہ دیا وہ سب کے سامنے ہے،صدر پاکستان کو ان تمام حقائق کا علم ہونا چاہے،اگر آخری دستخط اسکی ذمہ داری تو وہ روک دے،عوامی ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے جو بڑھتا چلا جائیگا،عوامی ردعمل کا وزیر اعظم کو بھی اندازہ ہے، یہ کام اسمبلی نے کیا نہیں اس سے کروایا گیا ہے،یہ کام پارلیمنٹ کی گردن مروڑنے والی قوت نے کروایا ہے۔
مولانافضل الرحمن کے فاٹاکے حوالے سے جن تحفظات اورسوالات کااظہارکیا ہے اس پربات ہونی چاہیے کیوں کہ مولانافضل الرحمن فاٹاپرگہری نظررکھتے ہیں مولانافضل الرحمن اوران کی جماعت کامئوقف ہے کہ فاٹاکے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے سے قبل کم ازکم فاٹاکے عوام کوتواعتمادمیں لو، مولاناکی گفتگوسے ا خذکردہ سوالات ہم قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔

1.فاٹا اگر الگ صوبہ بنے گا تو سب سے پہلے وہاں پر اپنی ہی صوبائی حکومت ہوگی جو کہ اسلام آباد کے بعد پشاور کی رحم و کرم کی بجائے خود مختار ہوگی
2فاٹا الگ صوبہ بنے گا تو وہاں دوسرے صوبوں کی طرح درجنوں یونیورسٹیاں اور کالجز بنیں گے؛ انضمام کی صورت میں اس کی حالت شانگلہ؛ دیر و بونیر جیسا ہی ہوگا

3فاٹا الگ صوبہ بننے کی صورت میں اس کے اپنے 23 سینیٹرز ہونگے جبکہ انضمام کی صور میں موجودہ 8 بھی ختم ہوجائیں گے؛ اسی طرح این ایف سی ایوارڈ بھی اپنا ملے گا جبکہ انضمام کی صورت میں ایک فیصد سے زیادہ ملنے کا امکان نہیں

4..فاٹا الگ صوبہ بنے گا تو جو صوبائی محکمے بنیں گے اس میں لاکھوں ملازمتیں فاٹا ہی کے نوجوانوں کو ملے گی ؛ انضمام کی صورت میں کچھ بھی نہیں ملے گا

5.فاٹا الگ صوبہ بننے کی صورت میں وسطی ایشیا کے ساتھ سات راستوں کی اربوں کے محصولات فاٹا کو ملے گی جبکہ انضمام کی صورت میں اس پر پشاور کا قبضہ ہوگا

6.فاٹا میں ٹریلئین روپے کی تیل؛ گیس اور دیگر معدنیات ہیں؛ الگ صوبہ بننے کی صورت میں اس کی اربوں کھربوں کی رائیلٹی فاٹا کو ملے گی اور ساتھ ان معدنیات کو نکالنے والی درجنوں کمپنیوں میں فاٹا ہی کے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا جبکہ انضمام کی صورت میں رائیلٹی پر پورے پختونخوا کا قبضہ ہوگا جبکہ بلوچستان کی طرح وہاں کے چند ہی ملکان اور اسمگلروں کو ہی خوش کیا جائے گا

7.سیاسی نقصان تو یہ ہے کہ فاٹا االگ صوبہ بننے کی صورت میں درجن سے زیادہ ایم این اے ہونگے جبکہ انضمام کی صورت میں موجودہ 12 ایم این چھ یا چار تک آجائینگے؛ مہمند ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی کی نمائندگی ہی ختم ہوکر یہ دونوں علاقے خیبر ایجنسی کے بدنام زمانہ نیٹو سپلائر شاہ جی گل کی جھولی میں گریں گے

اس حوالے سے فاٹاکے خیبرپختونخواہ کے حمایتی چندسوالات اٹھاتے ہیں مولانافضل الرحمن اوران کی جماعت کے پاس ان سوالات کے جوابات موجود ہ یں مثلا
. آپ کہتے ہو کہ فاٹا کا جغرافیہ ایسا ہے کہ باجوڑ سے وزیرستان جانے کے لئے پختونخوا کا راستہ استعمال کرنا ناگزیر ہے؛ تو عرض ہے کہ کیا ہزارہ ایبٹ آباد جانے کے لئے ہم پنجاب سے گزر کر نہیں جاتے؟ اور کیا بنگلہ دیش کا پاکستان کا حصہ بننا بانیان پاکستان کی بے وقوفی تھی؟ اور کیا آپ سقوط ڈھاکہ کو سانحہ نہیں سمجھتے؟

پیپلزپارٹی؛ تحریک انصاف جنوبی پنجاب الگ صوبہ جبکہ جماعت اسلامی صوبہ بہاولپور کی بات کرتے ہیں تو پھر فاٹا الگ صوبہ بننے پر اعتراض کاہے کا؟
مسلم لیگ ن ہزارہ صوبے کی بات کرتا ہے تو پھر فاٹا کو ضم کیوں کیا جائے؛ حالانکہ ہزارہ پہلے سے پختونخوا کا حصہ ہے جبکہ فاٹا الگ انتظامی ڈھانچہ ہے
.متحدہ قومی موومنٹ سندھ میں الگ صوبے کی بات کرتی ہے جبکہ پیپلزپارٹی اس کی بھرپور مخالفت؛ تو پھر فاٹا کے حوالے سے دونوں جماعتوں کا یہی اپنا مقف تضاد کا شکار کیوں؟؟؟؟؟

ان سوالات کے جوابات شایدوقت ہی بہتراندازمیں دے سکے گا البتہ جو لوگ فاٹا کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کرنے کے حق میں ہیں ان کے کئی دلائل ہیں جس میں سرفہرست یہ کہ فاٹا کا سرکاری انتظامی ڈھانچہ پہلے ہی سے خیبرپختونخوا میں قائم ہے جن میں گورنر ہائوس ، فاٹا سیکریٹریٹ، مختلف ایجنسیوں کے متعلقہ پولیٹیکل ایجنٹس کے صدر دفاتر وغیرہ شامل ہیں۔

دوسرا یہ کہ قبائلیوں کی اکثریت پہلے ہی سے فاٹا سے منسلک خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں مقیم ہے ، قبائل سے مراعات لے رہے ہیں اور قبائلیوں کی یہ کثیر تعداد غیر ارادی طور پر خود کو فاٹا سے زیادہ خیبرپختونخوا کا حصہ سمجھتے ہیں۔

فاٹا کوخیبرپختونخوا میںضم کرکے قومی دھارے میںلانے کے بعدڈیورنڈلائن کامسئلہ بھی مستقل بنیادوںپرحل ہوجائیگااورپاکستان کی سرحدیں افغانستان کیساتھ جغرافیائی طورپر منسلک ہوجائیں گی

فاٹا الگ صوبے بننے کی صورت میں اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ خود اپنا ریونیو جنریٹ کر سکے اور بجٹ بنا سکے۔ اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے کے لئے اس کو کافی وقت لگے گا اور معاشی معاملات کے لئے پھر سے اسے وفاق پہ انحصار کرنا پڑے گا۔

یہ دونوں اطراف کے دلائل وہ سوالات ہیں قارئین خود تجزیہ کریں ایک دوسرے پرالزامات عائدکرنے کی بجائے ہمیں کھلے دل ودماغ سے ایک دوسرے کی آراء کااحترام کرناچاہیے ۔اگرڈنڈے کے زرورپرہی معاملات حل کرناہیں توپھراسمبلی اورجمہوریت کاکوئی فائدہ نہیں ہے طاقت کے زورپرمسلط کیے گئے فیصلے کبھی بھی دیرپانہیں ہوتے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے