سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بنديال كى سربراہى ميں 3 ركنى بينچ نے خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر عثمان ڈار کے وكيل نے دلائل میں کہا کہ خواجہ آصف وفاقى وزير ہوتے ہوئے غير ملكى كمپنى ميں ملازمت كرتے رہے، ان کا یہ اقدام مفادات كا اقدام ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ كيا مفادات كے ٹكراؤ سے نا اہلى ہو سكتى ہے، دنيا ميں مفادات كے ٹكراؤ پر بہت بحث ہوئى، امریکی صدر ٹرمپ كى بيٹى حكومتى معاملات ميں ذمہ دارياں سر انجام ديتى ہے اور ان کا داماد اپنا كام كرتا ہے لہذا كيا مفادات كے ٹكراؤ پر نا اہلى ہونى چاہيے يا عوامى عہدے داروں كو وارننگ دى جائے۔

وکیل خواجہ آصف نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کے مقدمہ میں شواہد کا بوجھ درخواست گزار کے کندھوں پر ہوتا ہے، ہر بھول یا غلطی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا اور جہاں حقائق تسلیم کر لیے جائیں تو پینلٹی نااہلی ہوسکتی ہے، قانون کے تحت اثاثوں کے ذرائع بتانا لازمی نہیں، اثاثہ وہی ہوگا جوتنخواہ سے بچت ہوگی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ گیارہ بجے بتائیں گے کہ فیصلہ سنانا ہے یا محفوظ کرنا ہے، کسی نتیجے پر پہنچے تو فیصلہ سنا دیں گے اور اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو فیصلہ محفوظ کر لیں گے۔

وقفہ کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے مختصر فیصلہ میں خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کو ختم کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا، اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ 26 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 3 رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو نااہل قرار دیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خواجہ آصف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا، وہ 2013 کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے