ایک جنونی شخص کے جنونی قسم کے فلاحی منصوبے!

میں سب کی بات نہیں کرتا مگر ہم میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہم سے کسی ہسپتال کی تعمیر وغیرہ کے لئے پیسے لیتے ہیں زمین حکومت نے مفت میں دی ہوتی ہے ، پلے سے وہ ایک پیسہ نہیں ڈالتے اور جب اسپتال بن جاتا ہے تو وہ سیاست میں آ جاتے ہیںاور اس اسپتال کے نام پر ووٹ لیتے ہیںچنانچہ اب جب بھی کوئی اسپتال کے نام پرچی سے پیسے مانگتا ہے یا کالم لکھنے کی فرمائش کرتا ہے تو میں اسے کہتا ہوں کہ مجھے اشٹام لکھ کر دو کہ اسپتال بننے کے بعد تم سیاست میں نہیں آئو گے اس طرح تعلیمی اداروں کے نام پر بہت فراڈ ہو رہا ہے شروع میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کسی سے فیس کا ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا جائے گا مگر رفتہ رفتہ وہ ایک وسیع و عریض تعلیمی ایمپائر کھڑی کر دیتے ہیں اور دکھانے کے لئے دس فیصد بچوں سے فیس نہیں لیتے لندن میں تو ’’چیریٹی‘‘ ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔

خصوصاً رمضان کے مہینے میں کسی مذہبی شخصیات کوٹی وی چینل پر لایا جاتا ہے اور اس سے جھوٹ سچ بلوایا جاتا ہے مگر یہ مذہبی شخصیات، جن میں سے کچھ کو پاکستان سے بھی بلایا گیا ہوتا ہے، فی سبیل اللہ یہ کام نہیں کرتے، چیریٹی میں باقاعدہ حصے دار ہوتے ہیں ۔ اب تو کچھ عرصے سے میرے ایک پرانے دوست شکور صاحب شعراء کو یورپ کے مختلف ممالک میں لے کر جاتے ہیں، وہاں مسجدوں میں ان سے مشاعرےپڑھواتے ہیں اور وہاں نمازیوں سے ان کے اسکولوں کے لئے زکوۃ ، خیرات ریکمنڈ کراتے ہیں اور پھر مشاعروں کا معاوضہ لے کر گھروں کو لوٹتے ہیں ۔ واپس آ کر کالم لکھتے ہیں کہ وہ ان دنوں خود کو فلاحی کاموں کیلئے وقف کر چکے ہیں چنانچہ دس بارہ ملکوں میں پاکستانیوں کو اس نیک کام کے لئے تیار کر کے کل ہی واپس پاکستان لوٹے ہیں۔

گزشتہ روز مجھے ڈاکٹر امجد ثاقب کا فون آیا کہ لاکھوں لوگوں کو قرض حسنہ کے ذریعے چھوٹے موٹے کاروبار کرانے کے علاوہ اب وہ ایک یونیورسٹی بھی بنانے لگے ہیں ۔ جس میں کسی طالب علم سے ایک پیسہ فیس نہیں لی جائے گی۔ میں نے ان سے اشٹام لکھوانے کی بات نہیں کی کہ یہ شخص صاحب کردار ہے ابھی تک اربوں روپے ضرورت مندوں میں تقسیم کر چکا ہے اور ہزاروں لوگ اس پر اعتماد کر کے یہ رقم اسے فراہم کرتے ہیں۔ امجد ثاقب بیورو کریٹ تھے مگر استعفیٰ دے کر خدمت خلق کے کام کے لئے نکل کھڑے ہوئے ورنہ ابھی تک کسی صوبے کے چیف سیکرٹری لگے ہوتے۔ اگر بزنس کرتے تو کروڑوں کماتے، میں نے تو چھولے بیچنے والوں کو کروڑ پتی، اور مچھلی یا قورمہ بیچنے والوں کو ارب پتی بنتے دیکھا ہے، مگر وہ جنت کمانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ آپ اگر اخوت یونیورسٹی میں ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں تو آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ ایک ہزار روپے کی ایک اینٹ کے حساب سے کچھ اینٹیں خریدنی ہیں ۔

انہیں صرف پچاس کروڑ درکار ہیں۔ چار لاکھ اینٹیں وہ بیچ چکے ہیں اب پانچ لاکھ اہل خیر نے صرف پانچ لاکھ اینٹیں خریدنا ہیں، یعنی پانچ لاکھ افراد نے صرف فی کس ایک ہزار روپیہ حصہ ڈالنا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ کسی کو نیک کام کی طرف راغب کرنے کے بجائے پہلے آپ خود آگے بڑھیں ، چنانچہ اتمام حجت کے لئے بتا رہا ہوں کہ یہ کالم لکھنے سے پہلے دس اینٹیں میں خود خرید چکا ہوں آپ اگر اس نیک کام میں حصہ لینا چاہتے ہیں توبینک اسلامی ، اخوات یونیورسٹی (اکائونٹ نمبر 2001100116060210)میں اپنی ’’اینٹیں‘‘ (یعنی ان کے مساوی رقم) جمع کرادیں۔ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ براہ راست اس اکائونٹ میں اپنا چیک جس پر اخوت لکھا ہو، ارسا ل کر دیں۔ہیڈ آفس اخوت، 10سیوک سینٹر، سیکٹر اے ٹو، ٹائون شپ لاہور۔ اس کے علاوہ ’’اخوت‘‘ اربوں روپے قرض حسنہ اور بہت سے دوسرے کام کر رہا ہے اور یہ سب کے سب فی سبیل اللہ ہیں ان سے مستفید ہونے والوں سے کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا۔ان کاموں کی ایک مختصرسی جھلک پیش کر کے اپنے کالم کا یہاں اختتام کر رہا ہوں۔ جھلک ملاحظہ فرمائیں:۔

[pullquote]اخوت فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(FIRST) [/pullquote]

اخوت فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ ریسرچ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (FIRST)بائیو ٹیکنالوجی کے چار سالہ گریجویٹ ڈگری کے کورسز پیش کرتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کا بنیادی مقصد سائنس میں معیار کی تعلیم کو فروغ اور اپلائیڈ اور بنیادی تحقیق کو فروغ دینا ہے ۔ اس کے پاس ایک جدید اسٹیٹ آف دی آرٹ عمارت ہے جو کھیلوں کیلئے موجود سہولیات کے علاوہ کمپیوٹر اور ریسرچ لیبارٹریوں کے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی آلات سے مکمل طور پر مزین ہے۔

[pullquote]اخوت کالج۔ لاہور[/pullquote]

یہ ایک رہائشی کالج ہے جو پورے پاکستان سے آئے ہوئے طلباء کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ پنجاب۔ سندھ۔ بلوچستان،خیبرپختونخوا،
گلگت، فاٹا، اور آزاد کشمیر ۔ تین سو سے زائد یہ بچے صرف میرٹ اور استحقاق کی بنیاد پر منتخب ہوئے ۔ اس سال ان کی تعداد 600سے تجاوز کر جائے گی۔

[pullquote]اخوت کلاتھ بینک[/pullquote]

اخوت کلاتھ بینک صاحب ثروت خاندانوں سے ان کی ضرورت سے زائد کپڑے جمع کرتا ہے ان کی سلائی یا مرمت کرانے کے بعد ڈرائی کلیننگ کرائی جاتی ہے اور پیکنگ کے بعد ان کپڑوں کو ضرورت مند افراد کو تحائف کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے۔ ان کپڑوں کی مرمت وغیرہ کے لئے خواجہ سرائوں کو بھرتی کیا گیا ہے جس کا مقصد معاشرے کے امتیازی سلوک کے شکار اس مظلوم طبقہ کے لئے روزگار کے باعزت ذریعہ کو فروغ دینا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اب تک سولہ لاکھ سے زائد جوڑے ضرورت مند افراد کو پیش کئے جا چکے ہیں۔

[pullquote]اخوت ہیلتھ سروسز(اے ایچ ایس)[/pullquote]

اخوت ہیلتھ سروسز انتہائی غریب لوگوں کی صحت کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ اب تک اس کے ذریعہ اڑھائی لاکھ سے زائد ضرورت مند مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے۔ ذیابیطس اور ہیپا ٹائٹس جیسے امراض پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

[pullquote]خواجہ سرا سپورٹ پروگرام[/pullquote]

اس پروگرام میں معاشرہ کے سب سے زیادہ کمزور طبقہ یعنی خواجہ سرائوں کی مدد کی جاتی ہے تاکہ ان کی معاشرے میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے گا۔ مستقبل میں پورے ملک سے ہزاروں خواجہ سرا اس پروگرام کا حصہ بنیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے