سردار چرن جیت سنگھ ہم شرمندہ ہیں

سشما سوراج بھارتی وزیر خارجہ ہیں کچھ ماہ قبل انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا کہ خیبر پختونخوا میں سکھوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی مہم شروع ہے، کچھ سرکاری اہلکار سکھوں کو اسلام لانے پر مجبور کر رہے ہیں ، بعد ازاں انہوں نے ٹویٹ کیا جس میں سردار چرن جیت سنگھ کا نام بھی لے لیا اور کہا کہ انہیں زبردستی مسلمان بنانے کی کوششیں جاری ہیں ، سردار چرن جیت سنگھ کو جب اس واقعے کا علم ہوا کہ انکا نام لیکر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے تو انہوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے اس واقعے کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا اور کہا ایسا واقعہ پیش نہیں آیا یہ دھرتی ماں کو بدنام کرنے کی سازش ہے ، سکھوں کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ، ہم سب امن سے رہ رہے ہیں ، ہمیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے ، ہم پر کہیں سے کوئی دباؤ نہیں ، انہوں نے ویڈیو پیغام ریکارڈ کروا کر پاکستان کی لاج رکھی اور پاکستان کا سر اونچا کیا ، وہ چاہتے تو اس واقعے کو بنیاد پر میڈیا میں آ جاتے اور اس دیس کو چھوڑ کر چلے جاتے جیسا کہ کچھ لوگ ملک چھوڑنے کے لیے ڈرامے رچاتے ہیں مگر سردار چرن جیت سنگھ نے ایسا نہیں کیا ، انہوں نے نہ وطن کو بدنام کیا اور نہ وطن چھوڑنے کے لیے کوئی اقدام اٹھایا ، انہوں نے پاکستان پر لگے الزام کو دھویا ، اور وطن کو کٹہرے میں کھڑا ہونے سے بچایا ، سردار چرن جیت سنگھ کا یہ ایک چہرہ ہے ، آئیے ان کا دوسرا چہرہ بھی دیکھتے ہیں ،

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے ، مسلمان روزے رکھتے ہیں ، دن کو پیاسے اور بھوکے ہوتے ہیں، کچھ لوگ تو شام کو پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں اور کچھ فقر کے مارے پانی سے افطار کر کے راضی برضا ہو جاتے ہیں ، فقر کے ماروں کے لیے اور مسافروں کے لیے سردار چرن جیت سنگھ نے دستر خوان لگوایا ، شام کو مسلمان روزہ دار چرن جیت سنگھ کے دستر خوان پر افطاری کرتے اور کھانا کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے ، یہ ہر رمضان میں انکا معمول تھا ، سکھ برادری کے لوگ اپنی زکوت مسلمانوں پر خرچ کرتے اور انکی خدمت کرتے ہیں، اور یہ نیک کام سردار چرن جیت سنگھ کی نگرانی میں ہو رہا تھا ، وہ مسافروں غریبوں اور مریضوں کے لیے ہر روز کھانے کا اہتمام کرتے تھے ، سردار چرن جیت سنگھ کا ایک کردار اور بھی ہے ، انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کیا ، جب نفرتیں عروج پر تھیں تب انہوں نے پیغام محبت عام کرنے کے لیے مختلف مذاہب و مسالک کے لوگوں کو ایک چھت تلے جمع کر کے محبتیں بانٹیں، نفرت کے سوداگروں کا راستہ روکا ، انسانی جان کی اہمیت پر بات کی ، بتایا سب کے خون کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے ، دکھ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، مرے مسلم یا غیر مسلم روتی ماں ہی ہے ، سہاگ مسلم و غیر مسلم لڑکی کا ایک جیسا اجڑتا ہے ، یتیمی سب بچوں کے چہروں پر ایک جیسی ہی ہوتی ہے ، زمین خدا نے سب کے لیے بنائی ہے کیوں نہ سب مل کر رہیں ؟ ہم سب ابن آدم ہیں، پھر نفرتیں کیوں ؟ پھر عداوتیں کیسی ؟ انہوں نے زندگی پیار کرتے ہوئے اور خدمت خلق کرتے ہوئے گزاری، معلوم ہے کہ پاکستان اور مسلمانوں کے اس محسن کے ساتھ کیا ہوا ؟ اسے وطن سے اور مسلمانوں سے محبت کیا سزا دی گئی ؟ جی ہاں اسے دو روز قبل پشاور میں اپنی دکان پر شام کے وقت سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے ، اور جس وقت اسے قتل کیا گیا اس سے تھوڑی ہی دیر بعد تین دیگیں تیار ہو کر آئیں ، لوگ سمجھے تعزیت والوں کے لیے کھانا آ گیا ہے مگر بتایا گیا کہ یہ تعزیت والوں کے لیے نہیں بلکہ مسلمان روزہ داروں کا کھانا آیا ہے ،

سردار چرن جیت سنگھ نے تو کہہ دیا تھا ہمیں کوئی پریشانی نہیں، ہمیں یہاں آزادی حاصل ہے مگر ہم نے انکی حفاظت نہ کر کے دنیا کو بتایا کہ اقلیتیں ادھر محفوظ نہیں ہیں ، ہم نے گولی مار کر پاکستان کا ماتھا داغدار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ، جس نے بھی یہ کام کیا ہے وہ ہر گز پاکستان کا محسن نہیں ، محسنوں کو مارنے والے محسن نہیں ہوا کرتے ، سردار چرن جیت سنگھ نے ہمیشہ پیار و محبت کا پیغام دیا ایک پیار والے انسان کو قتل کرنے کے اسباب کیا ہیں ؟ تحقیقاتی اداروں کو کھوج لگانے کی ضرورت ہے ، اقلیتیں غیر محفوظ نہیں ہونی چاہیں ، اسلامی ریاست میں اقلیت خوف کا شکار رہے گی تو نہ دنیا میں ہماری عزت ہو گی اور نہ رب کہ بارگاہ میں کوئی عزت ہو گی ،

اقلیتوں کے حوالے سے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ارشادات موجود ہیں جن میں اقلیتوں سے زیادتی کے بارے میں سخت وعیدیں سنائی گئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا ، ایک موقع پر ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا ، مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا اور مسلمان کو بدلے میں قتل کر دیا گیا، ایک اور موقع پر فرمایا جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ،حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے،

غیر مسلموں کے جو وفود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی میزبانی کرتے ، چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لیے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں ، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں بذات خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں،

ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا تو آپ نے اس وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اس وفد میں شامل مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجد نبوی میں ادا کریں چنانچہ یہ مسیحی حضرات مسجد نبوی کی ایک جانب مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ، یہ ہے اسلام اور اسکے احکامات ، ہمیں یہ احکامات نہیں بھولنے چاہیں، اور ہاں یہ بھی یاد رہے کہ اسلامی ریاست میں سکھ رہنما مارا جائے اور مسلمان چپ رہیں یا ریاست غفلت کا مظاہرہ کرے تو پھر سکھ رہنما کا مقدمہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم خود لڑینگے، سردار چرن جیت سنگھ کا مقدمہ جب نبی اکرم لڑنے لگے تو پھر ہماری شکست یقینی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقدمہ جیتنے کی طاقت بھلا کس میں ہے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے