مسلم لیگ ن نے سب سے بہتر اننگ کھیلی؟

چلیں جناب!پانچ سالہ سیاسی دور ختم ہوا، ان پانچ برسوں میں اگلے پانچ برسوں کے لئے ایک سیاسی میچ بھی جاری رہا ۔اس میچ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان کارکردگی کا مقابلہ شامل تھا ۔ کچھ میچ علاقائی قسم کے بھی تھے۔ جن میں ایم کیو ایم کا میچ سب سے دلچسپ تھا۔ یہاں کارکردگی کا مقابلہ تو نہیں تھا، البتہ ایم کیو ایم کی سربراہی کے لئے ’’مسلح جدوجہد‘‘ بہرحال جاری تھی۔ ابھی تک ’’قرعہ فال‘‘ میرے کشف کے مطابق پارٹی کے جو ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے ہیں، اس میں ایک ٹکڑے پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کے نام نکلا ہے، میرے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، سوائے اس کےکہ تحریک انصاف کی ڈاکٹر فوزیہ قصوری نے تحریک سے استعفیٰ دیا تو کوئی اور قومی سطح کی پارٹی کے جوائن کرنے کی بجائے موصوفہ سیدھا کراچی پہنچیں اور مصطفیٰ کمال کی پاک سر زمین پارٹی جوائن کرنے کا اعلان کیا۔ بہرحال باقی جماعتیں جو اپنی کارکردگی ظاہر کرنے میں کچھ نہ کچھ کامیاب رہیں وہ پاکستان پیپلز پارٹی تھی، جو متحرک نظر آئی۔

باقی رہ گئیں وہ جماعتیں جو ایک دوسرے کی حریف سمجھی جاتی تھیں، وہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف تھیں۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی خواہش تھی کہ وہ بغیر انتخابات کے مسلم لیگ حکومت کا تختہ الٹ دیں اور خود تخت پر بیٹھ جائیں۔ خاں صاحب کی حکومت کے پی کے میں قائم تھی لیکن ایک گرانڈیل شخصیت کا ایک لقمے سے کیا بنتا ہے، چنانچہ اپنوں نے کے پی میںکوئی کام کر نے کی بجائے پانچ سال سڑکوں اور دھرنوں میں گزارے۔ اور باقی وقت قوم میں جھوٹے الزامات ، بہتان اور مخالفین کے خلاف ناشائستہ زبان کا کلچر متعارف کرانے میں گزارا۔

ایک کام بہت زور شور سے اور بھی کیا اور وہ یوٹرن تھا ۔ آج ایک اعلان کرتے تھے اور دوسرے دن اس سے مکر جاتے تھے ۔ اقتدار کی پانچ سالہ مدت گزرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے، نگران وزیر اعظم کا نام تجویز کیا۔ جب باقی جماعتیں مان گئیں تو اگلے دن مکر گئے۔ اس طرح پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے نام کے سلسلے میں ایسی پالیسی بنائی ہے کہ نہ کوئی مانے اور نہ بات آگے الیکشن کی طرف چلے۔ خاں صاحب دھرنوں کے دوران ایک انگلی کا انتظارہی کرتے رہے۔ خاں صاحب جلسوں میں اپنے زیر تسلط علاقے کے پی میں کئے گئے کوئی فلاحی ، کوئی تعمیری کام گنوانے کی بجائے جلسوں میں شوکت خانم اسپتال کا کریڈٹ لیتے رہے، حالانکہ خود ان کے بقول اسپتال کے لئے زمین میاں نواز شریف نے دی تھی اور میاں شریف مرحوم و مغفور نے اپنی جیب سے پچاس کروڑ روپے کا عطیہ دیا تھا ، عمران خاں کے بقول یہ جس وقت کی بات ہے اس وقت پچاس کروڑ روپے ایک غیر معمولی رقم تھی۔

اب آتے ہیں مسلم لیگ ن کی طرف، اس جماعت کے وزیر اعظم کو عدالت نے وزارت عظمیٰ سے معزول کر دیا، وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے جو چند ہزار روپے لینے تھے، وہ نہیں لئے اور اپنے کاغذوں میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ پارٹی نے خاموشی سے یہ فیصلہ منظور کر لیا اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم منتخب کر دیا گیا اور مجھے تسلیم کرنے دیں کہ انہوں نے چند مہینے کی وزارت عظمیٰ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نواز شریف پر ایک مہربانی یہ بھی کی گئی کہ انہیں تاعمر سیاست کے لئے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ ان پر اور ان کی فیملی پر بیسیوں مقدمات قائم کئےگئے اور نواز شریف ابھی تک نیب کے سامنے ساٹھ کے قریب پیشیاں بھگت چکے ہیں اور ان پر لگائے گئے الزامات سے ایک الزام بھی تاحال ثابت نہیں ہوا۔

یہ ایک پس منظر تھا صرف یہ بتلانے کے لئے کہ یہ جماعت اپنے کاموں میںبھی الجھی رہے اور عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کر سکے۔ مگر وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے یہ اسکیم کامیاب نہیں ہونے دی۔ اور شدید ذہنی پریشانیوں کے باوجود اپنے کام میں لگے رہے جس کام کے لئے عوام نے انہیں منتخب کیا تھا ۔ انہوں نے میگا پروجیکٹ بنائے۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والا ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی اس حکومت نے عوام کی ضرورت سے زیادہ بجلی کے منصوبے مکمل کرائے ہیں مگر میری ایک ’’پیش گوئی‘‘ یا د رکھیں ، الیکشن کے قریب اور الیکشن کے دنوں میں بدترین لوڈ شیڈنگ ہو گی اور یہ کام ان منصوبوں میں کام کرنے والوں ہی سے لیا جائے گا۔

اسی طرح پورا پاکستان بدامنی کا شکار تھا، خصوصاً کراچی میں بہت برا حال تھا۔ دہشت گردی کی وارداتوں نے عوام کو دہشت زدہ کر رکھا تھا، مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے ملک میں امن قائم کیا اور یہ بہت بڑی بددیانتی ہو گی اگر ہم اس ضمن میں اپنی بہادر فوج کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیں۔ انہوں نے ہمارے کل کے لئے آج کی قربانی دی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے نئے ائیر پورٹ بنانے کے علاوہ سارے ملک کو موٹر وے کے ذریعے ایک دوسرے کے بہت قریب کردیا، یہ کام ابھی جاری ہے۔ اس سے دیہات سے اناج شہر میں لانے کے علاوہ دس دس گھنٹوں کا سفر تین گھنٹوں میں طے ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ فرانزک لیبارٹری،اسپتال اور دوسرے بہت سے فلاحی منصوبے مکمل کئے۔ مسلمان صوفی کی خدمات حاصل کر کے جدید قبرستان بنایا گیا، خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام لگنے والوں کے لئے فوری انصاف کا اہتمام ایک ہی جگہ کیا گیا۔

خواتین کو موٹر سائیکلیں فراہم کی گئیں تاکہ وہ بسوں اور ویگنوں میں ہونے والی بدتمیزیوں سے محفوظ رہ سکیں۔آخر میں ایک بہت بڑا شکریہ میاں شہباز شریف کے لئے انہوں نے اپنے 24گھنٹوں میں سے 8گھنٹے ترقیاتی کاموں کے لئے وقف کردئیے۔ لاہور تو اب لاہور لگتا ہی نہیں، یہ یورپ کا کوئی شہر لگتا ہے چنانچہ دوسرے صوبوں کے لوگ بجا طور پر اس خواہش کا اظہار کر تے ہیں کہ کاش شہباز شریف ان کے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوتے۔آخر میں یہ کہ نواز شریف جس حالت میں بھی ہوں گے ، عوام انہی کو اپنا قائد تسلیم کریں گے انہوں نے لوگوں کے دل جیت لئے ہیں، چنانچہ اوپر دی گئی تفصیلات سے مجھے تو آئندہ حکومت بھی یقینی طور پر مسلم لیگ ن ہی کی لگتی ہے ،تبھی کوشش کی جا رہی ہے کہ الیکشن کسی طرح ملتوی ہو جائیں۔ چلیں یہ تو وقت بتائے گا مگر اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ مسلم لیگ ن نے اپنی پانچ سالہ اننگ میں باقی جماعتوں کو مات دے دی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے