شہر کے لوگوں کا خواب

شہر کے لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دراز قد خوب رو حسینہ جس کے جسمانی خدوخال بہت حسین تھے اور جس کے گھنے ریشمی لمبے بال تھے، برہنہ حالت میں شہر کی مرکزی شاہراہ سے گزر رہی تھی۔ شہر کا ہر شخص اس حسینہ کے تعاقب میں نکلا مگر وہ حسینہ کسی کے ہاتھ آئے بغیر غائب ہو گئی۔ صبح سارے شہر کے لوگ اس حسینہ کی تلاش میں سڑک پر آئے۔ حسینہ کا ملنا تو ایک خواب تھا مگر اس کا ایک فائدہ سارے شہر کو ہوا۔ تمام شہر کے لوگ ایک دوسرے سے آشنا ہو گئے۔

پیپلز پارٹی اور اس کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومتوں کے خلاف سازشوں کا جو سلسلہ چلا اس میں پرانے نعرے اور پرانے الزامات ایک نئے فریم میں دکھا کر لوگوں کو اکٹھا کیا گیا۔ ہر وقت بدعنوانی کے خلاف راگ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نئے پاکستان کا خواب دکھایا گیا۔ وہ خواب جو کبھی حقیقت تو بننا نہیں تھا مگر اس کے ایک سے زائد فوائد ہوئے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہوئی ملک کی کہنہ سیاسی جماعتوں کو کچھ نہ کچھ حد تک کارکردگی دکھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پیپلز پارٹی جو سندھ میں سید قائم علی شاہ کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہ تھی بالاخر اسے سید مراد علی شاہ کو لانا پڑا۔ سندھ میں جہاں بھٹو کے زندہ ہونے کی نوید اور بھائی کو اپنا خون حاضر کرنے کے نعروں کے سوا سیاسی جماعتوں کے پاس کہنے کو کوئی دوسری بات ہی نہیں تھی۔ ترقیاتی منصوبے کی اول اول تو مخالفت کی جاتی تھی اور اگر کوئی منصوبہ بہت ضروری ہوتا بھی تو اس کو ممکن حد تک لٹکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون نوے کی دہائی میں بنے ایک موٹروے کی بنیاد پر ووٹ مانگ مانگ کر حکومت میں رہنا چاہتی تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ ہمیں نئے پاکستان کا خواب دکھایا گیا اور قوم کا اپنے رہنماؤں کی کارکردگی کے بارے میں معیار بلند ہوا ۔
یہ سب تو ہونا تھا اور ہو گیا۔

نئے پاکستان کے نعرے بلند کرتے کرتے ہم پرانے پاکستان میں موجود فاٹا کے علاقے کو سٹور روم میں پڑی کسی بے کار شے کی طرح بھول چکے تھے کہ نئے پاکستان کے خواب کے نشے میں مخمور پشتون نوجوانوں کی تحریک نے جہاں تمام سیاسی جماعتوں کو نیند سے اٹھا دیا وہیں پاکستان کی اسٹیلشمنٹ کو لرزا دیا۔ وہ کام جو ستر سال سے پاکستان کی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ نہیں کر سکی تھی وہ کام چند گھنٹوں میں ہو گیا اور فاٹا خیبر پختون خوا کا حصہ بن گیا۔

گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ فوج سے لڑ کر اس علاقے کو اپنے زور بازو سے آزاد کرایا تھا اور سولہ دن تک یہ علاقہ اپنے طور پر آزاد ملک رہا۔ راجہ شاہ رئیس خان اس کے صدر تھے۔ اس علاقے کے لوگوں نے اپنی خواہش اور مرضی سے پاکستان کا حصہ بننے کے لئے اپنا وفد قائد اعظم سے ملاقات کے لئے بھیجا اور اس طرح یہ علاقہ پاکستان کا حصہ بنا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ اب گلگت بلتستان کے عوام کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو ڈوگرہ حکومت میں ملتے تھے۔ لیکن نئے پاکستان کا خواب دیکھتے دیکھتے اس خطہ کے عوام بھی اپنے حقوق کا شعور مل گیا۔ اب وفاقی حکومت نے انہیں ایک گورننس آرڈر کے تحت اختیار دینے کا حکمنامہ جاری کیا گیا جسے خطہ کے عوام نے مسترد کرتے ہوئے مکمل آئینی حقوق کا مطالبہ کر دیا۔ اس حق کے لئے خطہ میں کئی بار مظاہرے اور ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ عوامی جذبہ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اب ان کی منزل بھی دور نہیں۔

نئے پاکستان کے خواب میں ہی اب پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے ووٹ کو عزت دینے اور سول حکومت کو مکمل اختیارات دینے کا مطالبہ بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے