کارکنوں کو ٹکٹ دیں

ان دنوں سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل جاری ہے، جہاں سلیکشن بورڈ کا اجلاس جاری ہوتا ہے، وہاں بورڈ کے رکن کے علاوہ کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی، وہاں چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ کھڑکیاں بھی بند ہوتی ہیں۔ ایک ایک نام پر بحث ہوتی ہے، سوائے ان ناموں کے جو طے شدہ ہوتے ہیں۔ یہاں جوڑے بھی بنتے ہیں، یعنی ایم این اے کے نیچے ایم پی اے کون ہونا چاہئے، پھر کورنگ کینڈیڈیٹ بھی رکھنا پڑتے ہیں کہ اگر امیدوار کے کاغذات رد ہوجائیں تو اس کی جگہ کورنگ امید وار یعنی ’’ریلو کٹا‘‘ الیکشن لڑسکے۔

میں نہیں جانتا کہ یہ عمل ابھی تک جاری ہے یا مکمل ہوچکا ہے، اگر جاری ہے تو مسلم لیگ (ن) کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں، صرف مسلم لیگ کو اس لئے کہ اس کو بہت سے ایسے ارکان جنہیں الیکٹیبل کہا جاتا ہے یعنی پندرہ بیس ہزار ووٹ بروقت ان کی جیب میں ہوتے ہیں، وہ تحریک انصاف کو’’ دان‘‘ کئے جاچکے ہیں اور یوں اگر دیکھا جائے تو قدرت نے مسلم لیگ کو ایک سنہری موقع دیا کہ وہ اپنے ان جینوئن کارکنوں کو ٹکٹ دے جن کا حق پارٹی کے چودھری ٹائپ لوگ مارتے رہے ہیں۔شنید ہے کہ مسلم لیگ کو شکست دینے کے تمام دنیاوی انتظامات مکمل کئے جاچکے ہیں مگر نواز شریف کی مقبولیت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ ان کا اصولوں کی خاطر اپنے اور اپنے سارے خاندان کو دائو پر لگانے کا حالیہ عمل ہے۔

عوام پہلے ہی ان سے بےپناہ محبت کرتے ہیں اور ان کے اصولوں پر ڈٹ جانے اور پوری دلیری سے حالات کا مقابلہ کرنے کے عمل نے ان کے دل مزید جیت لئے ہیں۔ اوپر سے پنجاب میں شہباز شریف نے پنجاب کے عوام کے لئے جو کام کیا ہے اس کی رفتار اور معیار دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ کام کسی انسان نے نہیں، کسی ’’عامل‘‘ نے اپنے جنوں سے کرایا ہے۔ شہباز شریف نے دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے یا شاید بیس گھنٹے بے آرامی میں گزارے ہیں اور کام کی رفتار اور معیار کو مثالی بنانے کے لئے اپنے افسروں اور اہلکاروں کو بھی خاصاتنگ کیا ہوگا، چنانچہ بھائیوں کی اس’’جوڑی‘‘ کے خلوص اور عوامی فلاحی منصوبوں نے عوام میں ان کی مقبولیت بام عروج پر پہنچادی ہے۔

اوپر کی سطور میں نواز شریف اور شہباز کی خدمات اور مقبولیت کا تفصیلی ذکر کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی الیکٹیبل کو خاطر میں نہ لائیں بلکہ ان کی اکڑ اور غرور کو خاک میں ملانے کے لئے ان کے مقابلے میں اپنے ان جینوئن اور بے لوث کارکنوں کو ٹکٹ دیں جو برسہا برس سے جلسوں میں کرسیاں لگاتے رہے ہیں اور مشکل ترین ادوار میں اپنی قیادت کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ پارٹی کی قیادت ان کے ناموں سے ضرور واقف ہوگی۔ ایک نام سے تو میں بھی واقف ہوں جس کا نام مشتاق شاہ ہے اور جو پنجاب کے لیبر ونگ کا سربراہ ہے۔ اس شخص نے مشرف دور میں جب ہر طرف خاموشی طاری تھی، مزدوروں کے ایک بہت بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا، اس کی گرفتاری کے لئے اس کے گھر اور رشتہ داروں کے ہاں چھاپے مارے گئے، مگر ہاتھ نہیں آیا، جب ہاتھ آیا تو پھر قید و بند کی مشکلات بھی برداشت کیں۔

ایک نام اور ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ میں ان کی خدمات سے پوری طرح واقف نہیں، صرف یہ ہے کہ میں انہیں پہلے دن سے مسلم لیگ کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ، مگر غالباً اس کا نام غلام حسین ہے اور شاید وہ فیصل آباد کا ہے۔ کچھ لوگ بیرون ملک ہیں، ان میں سے ایک شخص تو جماعت اور اس کی قیادت کی محبت میں تقریباً ’’پاگل‘‘ ہے، اس کا نام چودھری نورالحسن تنویر ہے۔ یہ نظریاتی کارکن ہے اور پوری دلیل کے ساتھ ’’منکرین‘‘ کو تبلیغ‘‘ کرتا رہتا ہے۔ ایک اور دوست روحیل ڈار ہے، یہ امریکہ میں ہے، الیکشن لڑنے میں اسے شاید کوئی دلچسپی نہیں، مگر سوشل میڈیا پر اتنا ایکٹو ہے کہ لگتا ہے باقی سارے کاموں سے’’تیاگ‘‘ لے چکا ہے، صرف مسلم لیگ اور اس کی قیادت پر لگنے والے الزامات کا جواب دینے ہی کا کام سنبھالا ہوا ہے۔ اسی طرح بے شمار لوگوں کی غلطیاں معاف کرکے جماعت نے انہیں ایک بار پھر اپنی گود لے لیاہے۔ ڈسکہ کی شریف النفس اور مقبول شخصیت مرزا عبدالقیوم کی غلطی بھی بس معاف کردیجئے۔

اور اب ایک وضاحت ، میں نے اس کالم میں جو چند نام لئے ہیں براہ کرام اسے سفارش کے زمرے میں شامل نہ کیا جائے میں نے محض مثال دی ہے، کہنا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ’’مستقل جیتنے والوں‘‘ اور لوٹوں کے منہ پر تھپڑ مارنے کے لئے اپنے مخلص کارکنوں کو سامنے لائیں۔ آپ جنہیں بھی نامزد کریں گے ، عوام انہیں ووٹ دیں گے۔ لوگوں کو یہ تاثر بھی ملے گا کہ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے جھوٹے اور سچے نعرے میں کیا فرق ہے۔ باقی آپ مالک و خود مختار ہیں، مگر جو فیصلہ بھی کریں، سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ آپ کے پاس اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے