پُرتشدد انتہا پسندی کے انسداد کے لیے مہربان کردار

ہمارا سماج ہمارے شعور جتنا حجم رکھتا ہے۔ ہم شعوری طورپر شیر خوار ہوں تو ماں کی گود میں سارا سماج سما جاتا ہے۔ ہم نوخیز بلوغت کے قریب ہوں تو ہمارا شعور سکول اور محلے کے دوستوں تک پھیل جاتا ہے۔ گھر سے باہر جن لوگوں سے رابطہ اور مراسم بڑھتے ہیں ان کی باتیں اور عادات ہمارے شعور کو متاثر کرنے لگتی ہیں۔ عمومی طور پر ہم لوگوں کا سماج شادی کے بعد پیدا ہونے والے جذباتی رشتوں اور روزگار کے لیے غرض کے رشتوں سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ یقیناًسماج کے ایک نہیں کئی دائرے اس حد سے باہر موجود ہیں۔ اگر ہم ان دائروں میں قدم رکھیں تو شعور کا پھیلاؤ نظر آئے گا۔ ہر سماجی دائرے میں کچھ کردار اس کی مخصوص شعوری شناخت تعمیر کرتے ہیں۔ یہ کردار یا پلیئرز سماج او رشعور کے درمیان تعلق کی علامت ہوتے ہیں۔ ہم ان کرداروں سے پوری طرح واقف نہ ہوں تو وہ پھر بھی اپنا کام کرتے رہتے ہیں لیکن ہم معاشرے میں ان کی فعالیت سمجھتے ہوئے سماج کی بہتری کے لیے ان کی مدد حاصل کریں تو سماج او رشعور دونوں ہمارے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کرتے ہیں۔

پاکستانی سماج کو لاحق مسائل بڑھ رہے ہیں۔ غربت، جہالت، ثقافت و تاریخ سے ناواقفیت نے ہمارا شعور پسماندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر سماج میں انتہا پسندی کب پرتشدد انتہا پسندی میں ڈھل گئی ہمیں پتہ ہی نہ چلا۔ جب پتہ چلا تو اس کے انسداد کی سمجھ نہیں آ رہی۔ تو کیا ہمیں ان مہربان کرداروں سے مدد نہیں لینی چاہیے جو مسلسل اپنا کام کئے جا رہے ہیں۔

معاملہ صرف اتنا تھا کہ ہمیں یہ سکھایا نہیں جاتا کہ اختلاف رائے کا اظہار کیسے کریں۔ عمومی طور پر جیت کا تصور مقابل کی تحقیر ہوتی ہے۔ چند روز پہلے ایک جماعت کے رہنما نے ٹی وی شو کے دوران دوسری جماعت کے رہنما کو تھپڑ دے مارا۔ یہ مکالمے اور دلائل سے گفتگو کا پلیٹ فارم تھا۔ طمانچے دار کبڈی کا میچ نہ تھا۔ بات یہ ہے کہ ہم کسی سے مخالفت کافیصلہ کسی مستحکم شعوری سوچ بچار کے بعد نہیں کرتے۔ عموماً ہمارے کچھ تعصبات، پسند نا پسند ہوتی ہے۔ اس پسند ناپسند کو ہم تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہمارے لوگ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کے عادی ہیں۔ آپ ٹیلی فون پر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہوں تو آپ کے ساتھ بیٹھا فرد بلاجواز نظریں آپ کے فون پر جمائے رکھے گا۔ کچھ دوست کہتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت بڑھنے سے ہم پرتشدد ہوئے۔ پھر سوال ہونا چاہیے کہ عدم برداشت کہاں سے آئی۔ کیا ہماری مائیں ہمیں لڑائی اور انتہا پسندی سکھاتی ہیں، ہمارے اساتذہ اوردوست ہمیں پرتشدد انتہا پسندی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ہماری بیگمات اوراولاد کی فرمائش ہوتی ہے کہ ہم ایسے حیوان بن جائیں یا پھر ہمارے کاروباری شراکت دار اور ساتھی کارکن ہمیں ایسا بننے کا کہتے ہیں۔
پرتشدد رویہ زن زر زمین کے گرد گھوما کرتا تھا۔ ہمارے آئین نے شہری سے وفاداری کی شرائط طے کرتے ہوئے ان تین چیزوں کی حفاظت ریاست کے حوالے کردی۔ ضابطوں اور دفعات کی شکل میں کچھ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقوق کو بھی قانون کا حصہ بنا لیا گیا۔ پھر انتہا پسندی کیوں پیدا ہوئی اور اس نے پرتشدد شکل کیوں اختیار کی۔ ہم اتنے سخت گیر کیسے ہو گئے کہ غیر مذہبی تعصبات اور نظریات کو مذہب جتنا مقدس سمجھ بیٹھے۔ کیا ہم اس انتہا پسندی کے ساتھ معاشرے میں امن قائم رکھ سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ ہمیں سماج کا امن واپس لانے کے لیے کچھ لوگوں کی مدد حاصل کرنا ہوگی۔

جو ادارے اور گروپ معاشرے میں پھیلی پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہیں اپنی کوششوں میں ماؤں کو شامل کرنا ہوگا۔ بہت سے افراد صرف اس لیے کسی چیز سے نفرت یا محبت کرتے ہیں کیونکہ بچپن میں ان کی والدہ کا رویہ ان کے لیے ایک مثال رہا ہے۔ اس سلسلے میں ماؤں کو ایسی مختصر کہانیوں کا مجموعہ فراہم کیا جاسکتا ہے جو ہمارے ہاں پرتشدد انتہا پسندی سے بیزاری کے جذبات ابھارے۔ ماؤں کے لیے ایسی ورکشاپس منعقد کی جا سکتی ہیں یا ذرائع ابلاغ کی مدد سے کچھ ایسے اصول انہیں سکھائے جا سکتے ہیں جن سے وہ اپنے بچوں کی تربیت کرسکیں۔

گھر سے نکلنے والا بچہ سب سے پہلے سکول سے متعارف ہوتا ہے۔ سکول میں اسے نیا ماحول اور نئے دوستوں کا سماج ملتا ہے۔ وہاں سب سے طاقتور شخصیت استاد کی ہوتی ہے جو اس نئے ماحول کو بچوں کی شعوری سطح کے مطابق رکھنے کا فرض نبھاتا ہے۔ بچوں کو گھر میں توجہ نہ ملے یا گھر کا سماج صحت مند نہ ہو تو استاد اپنے شاگروں کی نفسیات کو پرامن رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ استاد بچوں کو سکھا سکتا ہے کہ کھیل، تعلیم اور لڑائی کے اصول الگ الگ ہیں۔ کھیل میں لڑائی کے اصول نہیں اختیار کرنے چاہئیں۔ اسی طرح اختلاف رائے ظاہر کرتے وقت باڈی لینگوئج اور دلیل کو اہمیت دی جائے۔ مکالمہ سے پہلے اس کے معیار طے کرلئے جائیں جہاں دلیل، معیار سے کم ہو دوسرے کا موقف تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر نہ کی جائے۔ ہمارے بچے خود کار مشینیں بن کر سکولوں، کالجوں سے نکل رہے ہیں۔ تعلیمی درجوں میں ترقی کے باوجود ان کا سماج ان کے شعور میں سوچ بچار اور پرامن رویوں کی نشوونما نہیں کرتا۔ اس کی بڑی وجہ استاد کے کردار کو فراموش کر کے نصاب کو روزگار کے نکتہ نظر سے ترتیب دینا ہے۔ استاد خود ایک نصاب کا درجہ رکھتا ہے۔ اساتذہ کو اگر ایسا موڈیول فراہم کردیا جائے جو انتہا پسند رویے کی نشاندہی کے ساتھ طلباء کو اختلاف رائے پیش کرنے کا طریقہ سکھائے اور صرف دینی مدارس یا سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ ہی کی مدد حاصل کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ جدید مغربی تعلیم والے اداروں کو بھی اس عمل میں شریک کیا جائے جہاں کے طلباء بسااوقات طبقاتی فرق کے باعث سماجی شعور سے محروم رہ جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں جن شعبوں کو انتہا پسندی کی کم ترین سطح کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے‘ کھیل ان میں سے ایک ہے۔ کھلاڑی قدرتی طور پر اپنی جیت اور ہار کوصرف اپنے کھیل کے ضابطے کے ذریعے طے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پہلے انتہا پسند ہزارہ برادری کو قتل کرتے رہے ہیں مگر اس برادری کے نوجوان لڑکے لڑکیاں باکسنگ، کراٹے اور ایتھلیٹکس میں اپنی حیثیت سب سے منوا چکے ہیں۔ لیاری کے غریب گھرانوں کے بچے فٹ بال اور باکسنگ میں سب سے آگے ہیں۔ مسیحی برادری کے بچے ایتھلیٹکس میں نمایاں ہیں۔ خاص طور پر ان کی بچیوں نے کھیلوں میں بہت نام پیدا کیا۔ ایسا ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو کھیل کے اساتذہ اور ضابطوں نے کسی تعصب کے بغیر آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ کھیلوں سے وابستہ کوچز اور کھلاڑیوں سے مدد لی جائے تو سماج میں انتہا پسندی کا گھلا زہر کم کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کی کھیلوں کے میدان میں کامیابیاں نمایاں کر کے ان کے متعلق پر تشدد انتہا پسندی کو روکا جا سکتا ہے۔
پورا سماج جب کسی سنگین خطرے سے دوچار ہو تو ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کا کچھ حصہ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے صرف کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کوبااختیار بنانے کا تصور عمومی طورپر ڈونر اداروں کے فراہم کردہ اصولوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ادارے ہماری خواتین کو بین الاقوامی معاشرے کے فرد کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کرتے ہوئے خواتین کی تربیت اور شعوری آگہی کے زیادہ تر پروگرام خواتین کے روزگار اور ان کے جمہوری کردار کے گرد گھومتے ہیں۔ خواتین انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے کیا کردار ادا کریں، اس پر توجہ نہیں دی جاسکی۔ گویا آبادی کا نصف حصہ ان کوششوں سے الگ تھلگ ہے۔ اسی طرح جو بچے اور نوجوان سکول کالج نہیں جاتے ان کے سماج کا دائرہ وسیع کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ان لوگوں کو ریاست تعلیمی سہولیات نہ دے سکی مگر ان کے لیے ایسے کچھ تربیتی سیشن ضرور کئے جاسکتے ہیں جہاں انہیں انتہا پسندی اور پرتشدد رویوں کے متعلق شعور دیا جا سکے۔

پاکستان میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بہت تیزی سے پھیلے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کی تعداد کے ساتھ ان سے وابستہ او ایس آرز (آؤٹ سٹیشن رپورٹرز)کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ چھوٹے چھوٹے دور دراز قصبوں میں بھی میڈیا نمائندگان کی تعداد بیس سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ انتہائی متحرک اور باخبر لوگ ہوتے ہیں۔ پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کی کوششوں میں ان کے کردار کو اب تک اہم نہیں سمجھا گیا۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ان دنوں میں ایک قومی میڈیا ہاؤس کے نمائندگان کے امور کا انچارج تھا۔ ہمارے ایک مسیحی دوست اعجاز گل نے فون پر بتایا کہ فاروق آباد شیخوپورہ میں ایک مسیحی خاندان کچھ لوگوں نے توہین قرآن کے الزام میں باندھ رکھا ہے اور مقامی مذہبی رہنما لوگوں کو اشتعال دلا کر اس خاندان کے قتل پر اکسا رہے ہیں۔ اعجاز گل نے مدد کی اپیل کی۔ میں نے فاروق آباد میں اپنے نمائندے سے فوراً رابطہ کیا اور پولیس سے مدد لینے کا کہا۔ اس نے وقت ضائع کئے بنا ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کو فون کیا۔ ڈی پی او نے مقامی ایس ایچ او کو فوراً موقع پر پہنچنے کا کہا اور تھوڑی دیر بعد خود بھی موقع پر پہنچ گئے۔ پتہ چلا کہ غریب اور ناخواندہ مسیحی خاندان کو کسی تقریب کی ایک فلیکس ملی، اس پر ایک قرآنی آیت درج تھی۔ مسیحی خاندان نے وہ فلیکس اپنے گھر کے کچے فرش پر بچھا دی۔ ڈی پی او نے رسیوں سے بندھے مسیحی خاندان کو آزاد کرایا۔ مقامی لوگوں سے مسیحی خاندان کی ناخواندگی اور لاعلمی کو پیش نظر رکھ کر درگزر کی بات کی اور اشتعال دلانے والے مذہبی رہنما کو اشتعال انگیزی پھیلانے سے باز نہ آنے کی صورت میں قانونی کارروائی کا انتباہ کیا۔ یوں یہ معاملہ کسی بڑے نقصان کے بغیر حل ہوگیا۔ میڈیا نمائندگان کی مدد سے پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔

میڈیا نمائندگان کاروباری‘ سیاسی‘ مذہبی‘ علمی و تعلیمی پس منظر کے مالک ہوتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کے مزاج‘ تعلیم‘ پس منظر اور دلچسپیوں میں تنوع ک یباوجود یہ سب مقامی پریس کلب‘ صحافتی تنظیموں یا شہری انجمنوں کی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلق رکھتے ہیں‘ ان کی خوبیاں شمار کریں تو معلوم ہوگا کہ
i۔ یہ مقامی مسائل اور رجحانات کا سب سے پراعتماد ڈیٹا رکھتے ہیں۔
ii۔ اپنے تعلقات اور رابطوں کے ذریعے یہ تمام طبقات اور گروہوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
پرتشدد انتہا پسندی کے واقعات کئی بار کسی بڑی تحریک یا تنظیم کی بجائے مقامی اسباب سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ چند روز قبل سیالکوٹ میں قادیانیوں کی عبادت گاہ کو توڑ دیا گیا۔ اس فعل کے ذمہ دار مقامی لوگ تھے۔ کئی بار مسیحیوں کی عبادت گاہوں یا بستیوں کے قریب شرانگیزی کی گئی۔ مقامی صحافی ان واقعات کی ایک رپورٹ اپنے اداروں کو ارسال کرتے ہیں‘ جہاں خبر کو پالیسی کے نام پر غیر اہم بنا دیا جاتا ہے مگر واقعہ سنگین ہو تو قومی میڈیا میں سنسر ہونے والے حقائق بین الاقوامی میڈیا نشر کردیتا ہے۔ ان بین الاقوامی میڈیا اداروں کو خبر وہی مقامی صحافی دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ قصبوں‘ تحصیلوں اور اضلاع کی سطح پر کام کرنے والے صحافی اپنے علاقوں میں موجود پرتشدد رجحانات سے آگاہ ہوتے ہیں اور وہاں انتہا پسندی کی سطح کو تسلی بخش انداز میں رپورٹ کرسکتے ہیں۔ ان صحافیوں کی مدد سے کسی علاقے میں انتہا پسندوں اور پرتشدد کارروائیوں کا ڈیٹا ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس ڈیٹا میں پرتشدد واقعات کی وجوہات اور ان میں ملوث عناصر کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔

میڈیا نمائندگان کی اکثریت روزمرہ جرائم کی رپورٹنگ اوربیانات جاری کرنے میں بوجوہ دلچسپی رکھتی ہے اس لیے پرتشدد انتہا پسندی کے واقعات کو وہ تکنیکی طور پر اپنے میڈیا ہاؤسز کو رپورٹ نہیں کرپاتے۔ ایسے واقعات رونما ہونے کی صورت میں انہیں ایف آئی اے کے متن تک محدود رہنا پڑتا ہے جو عام طور پر جارح گروپ کے دباؤ کی وجہ سے کئی خامیوں کی شکار ہوتی ہے۔ یوں اخبارات میں جو حقائق شائع ہوتے ہیں وہ پورا سچ نہیں رہتے۔ ہیومن رائٹس کمیشن اسی لیے جب کسی خاص علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ڈیٹا جمع کرتا ہے تو وہاں کے صحافیوں کو بھی اس عمل میں شریک کرلیتا ہے۔ تاہم کمنٹس کا اکام پرتشدد انتہا پسندی سے کچھ الگ ہے اس لیے ان کا ڈیٹا بھی الگ نوعیت کا ہوسکتا ہے۔

پرتشدد انتہا پسندی سماج کے منفی پھیلاؤ کا رویہ ہے۔ اس سے مقابلہ کرنے کے لی ہمیں اپنے مثبت سماج اور شعور کو وسیع کرنا ہوگا۔ جو طبقات ہماری توجہ کا محور نہیں بنے۔ ان کی مدد سے یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے