پہلا پختون وزیر اعظم

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے پختون اور سوات جیسے پسماندہ مگر اپنی تاریخی ،سیاسی اور جغرافیائی سمیت سیاحتی اہمیت کے حامل علاقہ سے نگران وزیر اعظم ریٹائرڈ چیف جسٹس ناصرالملک کا انتخاب یقینا سواتیوں کے لیے خصوصاً اور پورے مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کے لیے عموماً ایک بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے اور اس فیصلے پر جہاں خوشی ہوئی ہے وہی اس پر حیرانگی کا اظہار بھی سامنے آیا ہے سواتیوں کوتو گویایقین بھی نہیں آرہا ہے کہ ان کا سپوت بھی وزیراعظم پاکستان کے مسند پر جا بیٹھا ہے ۔

شاید ماضی قریب کے طالبان ملٹری آپریشن ، زلزلہ اور تباہ کن سیلابوں سے متاثرہو کر اس ڈویژن کو یہ حق یا اعزاز دلوایا گیا ہے یا عدلیہ ،فوج اورپارلیمنٹ کی باہمی کشمکش میں عوام کی یہ’’ لاٹری‘‘ نکل آئی ہے تاہم اس سے قطع نظر ڈویژن کے عوام نے نگران وزیر اعظم سے بہت سی امیدیں باندھنی شروع کردی ہے حالاں کہ وزیر اعظم نے لوکل ایشوز کی بہ جائے سیدھے سادے ملکی ایشوز کو مقدم رکھنے کی بات دہرائی ہے تاہم پھر بھی ڈویژن کے عوام لوکل ایشوز اور مسائل پر توجہ دینے کے مطالبات اٹھائے ہوئے ہیں ۔

سڑکوں ، ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں اور دیگر اہم مسائل کی جانب وزیر اعظم نے زیادہ توجہ نہیں دی اور خود تسلیم بلکہ اعتراف بھی کیا کہ سوات سمیت پورا ڈویژن مسائل کی اماجگاہ اور گڑھ بنا ہوا ہے مگر اِس وقت ان کا فریضہ صرف وقت پر صاف وشفاف الیکشن کرانا ہے‘ مسائل کا خاتمہ کرانا نہیں البتہ کوششیں کی جائے گی کہ جہاں تک ممکن ہوسکتاہے پوری مشینری بروئے کار لائی جائے گی ۔

ا دھر نگران وزیر اعظم کے انتخاب سے قبل اس ڈویژن پر ایک نئی اُفتاد آئینی ترمیم کی صورت میں آپڑی ہے اور لوگ تشویش اور خدشات کے ساتھ شدید احتجاجی شیڈول کے لیے تیاریوں میں مصروف ہیں تاہم جب نگران وزیراعظم کا قرعہ فال سوات کے لیے نکل آیا اور وزیر اعظم کی ’’ہما‘‘ سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے سرپربیٹھ گئی تو عوام کے مرجھائے ہوئے چہروں پر ایک نئی تازگی اُمڈ آئی اطمینان پایا گیا کہ اکتیس ویں آئینی ترمیم پر وزیراعظم کی نظر ثانی کے بعد مراعات اور سہولیات کے علاوہ سابق حیثیت دوبارہ بحال ہوسکے گی دوسری طرف خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ گذشتہ دنوں ان کا پہلا دورہ سوات ہر جگہ موضوع بحث رہا اور اسے مختلف زاویوں سے دیکھا گیا ‘دور کی کوڑی لانے والوں نے اندازہ لگایا کہ وزیر اعظم سوات کے دورہ میں صرف خاندان والوں اور رشتہ داروں کے علاوہ قریبی دوستوں اور سرکاری حکام کو ’’چہرہ نمائی‘‘ کے لیے آئے تھے اگرچہ ان کا دورہ اچانک نہیں بلکہ وزیر اعظم بن کر یا وزیر اعظم بننے کی خوش خبری لے آنا مقصود ٹھہری ہے تاہم ڈویژن خصوصاً بلکتے سلگتے سواتیوں کو ایسا چھو کر گزر گیا جیسے ہوائیںچھو کر گزرتی ہے ۔وزیراعظم کے آمد کے موقع پر سوات میںکوئی غیر معمولی سیکیورٹی کے انتظامات نہیں کررکھے تھے تاہم میڈیائی رپورٹس کے مطابق گاڑیوں کے لائو لشکر اور پروٹوکول کی دیگر اخراجات پر کروڑوں روپے لٹادئیے گئے وزیر اعظم کے رشتہ داروں بھائی بہنوں کی خوشیاں دیدنی رہی ان کا سر فخر سے اونچا ہوا نظر آیا تاہم ان کے دورے میں یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ وزیر اعظم نے مالاکنڈ ڈویژن کی پاٹا والی حیثیت یعنی اکتیس ویں آئینی ترمیم پر کوئی بات نہیں کی حالاں کہ لوگ چاہتے تھے کہ وزیر اعظم اس پر بات کریں گے مگر موقع نہیں مل سکا ، سوات کے کچھ سینئر صحافیوں کے ساتھ بھی کچھ زیادہ بات نہیں کی جاسکی‘ سوائے اس کے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں گے جو غالباً آج کل ہر جگہ کرائی جاتی ہے ادھر عوام کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پر ہمارا بھی حق ہے وہ پہلے اس دھرتی ماں کا بیٹا ہے بعد میں وزیر اعظم ہے انہیں پہلے اپنی دھرتی ماں کا حق ادا کرنی ہوگی یعنی عام انتخابات کے ساتھ انہیں سوات سمیت مالاکنڈ ڈویژن کی محرومیوں اور مشکلات کا ازالہ کرنا ہوگا کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی اور موقع آنے والا نہیں شاید یہ پہلا اور آخری موقع ہوگا کہ سوات سے کوئی شخصیت وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر تخت نشین ہوگئی ہے ۔

مالاکنڈ ڈویژ ن میں سردست سب سے بڑا مسئلہ حال ہی میں اکتیس ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا اور پاٹا کی قانونی حیثیت کے خاتمے کا سر اٹھا رہا ہے اور یہ مسئلہ فی الوقت ماہ رمضان کے احترام اور سوات سے وزیر اعظم کی نامزدگی کی وجہ سے کسی حدتک خاموش ہوگیا ہے تاہم رمضان کے بعد اس مسئلے میں جو شدت آئے گی یقینا اس سے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجے گی کیونکہ ڈویژن کے عوام نے ہر دور میں اس کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی ہے بلکہ شٹرڈائون ،پہیہ جام اور احتجاجی جلسہ جلوسوں کے سنگین قسم کے مظاہرے بھی کئے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی پی ٹی آئی حکومت نے دیگر حکومتوں کی طرح اس دبی ہوئی چنگاری میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی مگر عوام نے انہیں اسے شعلوں میں تبدیل ہونے سے روک لیا اگر پی ٹی آئی حکومت ڈویژن میں ٹیکسزاور جداگانہ حیثیت پر مزید زور ڈالتی تو شاید عوام وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور عمران خان کا سیاسی جنازہ نکال بھی لیتے مگر حکومت کی بروقت پسپائی کے سبب ڈویژن ایک بڑے سانحے سے بچ گیا اب چونکہ فاٹا قبائلی علاقہ جات کی خیبر پختون خوا میں انضمام کی وجہ سے آئینی طور پر مالاکنڈ ڈویژن بشمول کوہستان کی جداگانہ حیثیت بے اثر ہوگئی ہے تو اس سے ایک مرتبہ پھر ڈویژن میں احتجاجوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے بلکہ یقینی طور پر عید الفطر کے بعد اس میں شدت آنے کی توقعات ہے۔

اس صورت حال میں نگران وزیر اعظم کا ان کے اپنے علاقہ میں پائی جانے والی شدید بے چینی اور اضطرابی کیفیت کے خاتمے کے لیے فی الفور اقدامات اٹھا نے کا فرض بنتا ہے اور یہ فوراً سے پیشتر اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ ڈویژن آفات ارضی اور سماوی کی زد میں رہا ہے اور اوپر سے اگر یہ مسئلہ بھی مستقل ہوگیا تو رہی سہی زندگی کا پہیہ بھی رک جائے گا جس میں یقینی طور پر عوام کے ایک بڑے نقصان کا احتمال ہے تشویش ناک امریہ بھی ہے کہ اسی آئینی ترمیم کے ذریعے الگ حیثیت کے خاتمے کی وجہ سے نئے این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا قبائیلی علاقہ جات کے لیے دس سال تک چوبیس ارب روپے اور سالانہ ایک سو ارب روپے خرچ کرنے کی منظوری ہوئی ہے تاہم اس میں پاٹا یعنی مالاکنڈ ڈویژن کے ساتوں اضلاع کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کو مذکورہ مراعات سے محروم کردیا گیا ہے اگرچہ نگران وزیر اعظم کا اعزاز کسی بھی اعزاز سے کم نہیں اور اس کے ذریعے سوات اور پورے مالاکنڈڈویژن کے عوام کے غموں ، دکھوں اور مشکلات سمیت مستقبل قریب کے چیلنجوں سے نمٹا نہیں جاسکتا ہے تاہم یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ نگران وزیر اعظم ناصر الملک مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کی بہتری کے لیے اکتیس ویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کا حکم دیںاور عوام کو ا س عذاب سے مستقل طور پر نجات دلائیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے