پاکستان کے ایٹمی اثاثے:اپنے بھی خفا مجھ سے،بیگانے بھی ناخوش

امریکہ و سعودی عرب کی دوستی کا اونٹ اب دیکھئے کس کروٹ بیٹھتا ہے، دنیا بھر میں شکست خوردہ قوتیں اب شام اور افغانستان میں ختم ہوتی ہوئی جنگ کو مزید طول دینا چاہتی ہیں،ہندوستان اور اسرائیل جیسے ممالک پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور روسی اخبار کے بعد اب امریکی خبر رساں ادارے نے بھی افغانستان میں اسرائیلی فوج کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود صہیونی فوجی اہلکار اپنی شناخت چھپانے کے لئے خود کو امریکی ظاہر کررہے ہیں۔

ہندوستان اور اسرائیلی فوج کا اصل مشن پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی کے لئے شام اور عراق سے داعشی دہشت گردوں کو افغانستان منتقل کرنا ہے۔ اس وقت سی آئی اے اور موساد داعش کی افغانستان منتقلی کے لئے جلال آباد ایئرپورٹ کو استعمال کررہے ہیں یعنی عراق اور ترکی سے باقاعدہ طور پر داعشی دہشت گردوں کو جلال آباد منتقل کیا جارہا ہے۔پیشین گوئی کی جا رہی ہے کہ دہشت گرد ٹولوں کو کسی نئے نام کے ساتھ پاکستان کے خلاف منظرِ عام پر لایا جائے گا۔اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے گرد گھیرا تنگ ہو گا بلکہ منطقے میں چین ، ایران اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھی روکا جا سکے گا۔ چنانچہ یہ وقت ہم پاکستانیوں کی بیداری اور سفارتکاری کا ہے، ہمیں دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو منظم کرنا چاہیے اور مرحلہ وار اپنے دشمن کی سازشوں کا تدارک کرنا چاہیے۔

۱۔ دشمن کی منصوبہ بندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں مذہبی سکالرز، دانشوروں، سیاسی رہنماوں ، قومی مفکرین اور مختلف علوم کے ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینکس تشکیل دیئے جائیں جواس منصوبے کے تمام پہلووں کا جائزہ لیکر اقوامِ عالم کو جارح ممالک کی سازشوں سے آگاہ بھی کریں اور ان سازشوں کا توڑ بھی بتائیں۔

۲۔ دشمن شناسی:

دشمن کے چنگل سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ عوام کو دشمن کی صحیح شناخت کے ساتھ ساتھ دشمن کے جاسوس ٹولوں،تنظیموں اور پارٹیوں نیز وظیفہ خور سیاستدانوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ لوگ دشمنوں کی چالوں میں نہ آئیں اور تمام تر تعصبات اور فرقوں سے بالاتر ہوکر اتحاد و اخوّت کے ساتھ اپنی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں۔

۳۔ تہذیب و تمدن کا تحفظ:

دشمن لوگوں کے سیاسی و ملی شعور کی ناپختگی سے فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کرکے اُن پر اپنی تہذیب اور تمدن کو نافذکرتے ہیں۔ اس صورت حال سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ کسی بھی طور پر لوگوں کا رابطہ اپنی تہذیب و تمدن سے نہیں کٹنے دینا چاہیے اور انہیں دشمن کی تہذیبی و ثقافتی یلغار سے مکمل طور پر آگاہ رکھنے کے لئے دشمن کی بنائی ہوئی فلموں خاص کر ہندی فلموں اور ڈراموں میں بھرے ہوئے ذہر اور ضررسے لوگوں کو فوری طور پر آگاہ کرنا چاہیے۔

۴۔ بین الاقوامی سطح پردشمن کے خلاف مزاحمت:

ضروری ہے کہ دشمن شناس لوگ دیگر اقوام سے اپنے روابط قائم اور مضبوط کریں اور دیگر ممالک کے میڈیا کے ذریعہ دیگر اقوام کو اپنے دشمنوں کی چالوں سے آگاہ کریں نیز حریت پسنداقوام کو یہ دعوت دی جائے کہ وہ ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر جارحین کی سازشوں کے خلاف مزاحمت کریں۔

۵۔ رائے عامہ:

ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور مجلات میں ہر سطح کے لوگوں کے ذہنی معیارات کے مطابق دشمن شناسی کے متعلق پروگرام نشر کئے جائیں اور مقالات چھاپے جائیں۔ نیز دشمن شناسی کے موضوع پر جا بجا تحقیقی کانفرنسیں منعقد کرکے اُنہیں میڈیا میں بھرپور کوریج دی جائے۔اس طرح عوام کو اندھی تقلید کرنے کے بجائے سوچنے،تنقید و تبصرہ کرنے ،اپنی رائے بیان کرنےاور دشمن کے خلاف زبان کھولنےکا عادی بنایاجائے۔

۶۔ تعلیمی ادارے اور نظام تعلیم:

دینی مدارس، سکولز، کالجز الغرض ہر سطح کے طالب علموں کے سامنے نہ صرف یہ کہ دشمن شناسی کو موضوع بحث بنایا جائے بلکہ دشمن کی تاریخ کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ آئندہ نسلیں بھیدشمنوں کی سازشوں سے باخبر رہیں۔

۷۔ پبلک پلیٹ فارم، سیاسی و مذہبی اجتماعات:

مختلف فرہنگی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد کیا جائے جن میں مختلف فنون کے ذریعہ دشمنوں کے مظالم سے پردہ اُٹھایا جائے، سیاسی و مذہبی اجتماعات میں دشمنوں کی تازہ ترین سازشوں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے، ہینڈ بلز اور پمفلٹس نیز چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی صورت میں محلوں اور قصبوں کی سطح تک دشمنوں سے متعلق ضروری مواد اور شعور و آگاہی پہنچائی جائے۔

۸۔ اقتصادی و صنعتی مسائل:

دشمن کے اقتصادی و صنعتی ڈھانچوں کی درست رپورٹس اکٹھی کرکے ماہرین اقتصادیات کو فراہم کی جائیں اور ان سے گزارش کی جائے کہ وہ سامراج کے چنگل سے نکلنے کیلئے مستضعف اقوام کے لئے ٹھوس اقتصادی و صنعتی لائحہ عمل تیار کریں۔

۹۔ کمزور اقوام کی حوصلہ افزائی:

کمزور اقوام کی مختلف امور میں حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ اُن کا اور ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھ میں ہے نیز یہ کہ محنت ، جدوجہد ، مستقل مزاجی اور باہمی اتحاد کے ساتھ دشمن کے غرور کو خاک میں ملایا جا سکتا ہے۔

۱۰۔ہر پلیٹ فارم پراپنی تہذیب و ثقافت،تمدن اورقومی زبان کی حفاظت کی جائے۔دشمن کے غلیظ لٹریچر کے بجائے اپنی ملت کو اپنے اسلاف کےا فکار سے آشنا کیا جائے۔

۱۱۔باشعور طبقہ دشمن کے اثر و رسوخ سے نجات کواپنا ہم و غم بنائے۔

۱۲۔ دشمن سے نجات کے لئے دو طرح کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ایک داخلی طورپرمنصوبہ بندی کی جائے جس کے ذریعے اپنی ملت کو فعال کیا جائے اور دوسرےبیرونی اور بین الاقوامی سطح پرمنصوبہ بندی جس کے ذریعے عالمی پلیٹ فارمز پر دشمن کو تنہا اور رسوا کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے