منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں، نظارہ علی کا ہے
ہستی کی آب و تاب،حسین آسماں جناب
زھرا کا لال، راج دلارا علی کا ہے
مرحب دو نیم ہے سر مقتل پڑا ہوا
اُٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے
کُل کا جمال جزو کے چہرے سے ہے عیاں
گھوڑے پہ ہیں حسین، نظارا علی کا ہے
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں
دیکھو مُعاملہ یہ ہمارا علی کا ہے
ہم فقر مست، چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہے
اصحابی کالنجوم کا ارشاد بھی بجا
سب سے مگر بلند ستارا علی کا ہے
تو کیا ہے اور کیا ہے تِرے علم کی بساط
تجھ پر کرم نصیر یہ سارا علی کا ہے